تحریر: رشید احمد نعیم رمضان المبار ک کا آکھری عاشرہ ۔۔ طاق رات ۔۔بعد نماز ِ تراویح ۔۔ لوگ اپنی اپنی عبادت میں مصروف کہ ایک معصوم سا بچہ مسجد ایک طرف بیٹھا پورے انہماک سے ہاتھ اٹھا کر اپنے رب سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا یہ خشوع تو عمر کے آخری حصے میں بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے جو اللہ نے اسکی جھولی میں ابھی سے ڈال دیا تھا ـلباس پیوند زدہ تھا مگر نہایت صاف ستھرا ـ اسکے ننھے ننھے سے گال آنسووں سے بھیگ چکے تھے ـبہت لوگ اسکی طرف متوجہ تھے اور وہ بالکل بے خبر اپنے رب سے باتوں میں لگا ہوا تھاـ جیسے ہی وہ اٹھا , میں نے بڑھ کے اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑاـ
” کیا کیا مانگا اللہ سے ؟؟؟” میں نے پوچھا ” میرے ابا فوت ہو گئے ہیں انکے لئے جنت , میری ماں روتی رہتی ہے انکے لئے صبر , میری بہن عید کی آمد پر چیزیں مانگتی ہے اسکے لئے پیسے ” ” تم سکول جاتے ہو؟؟؟ ” میرا سوال ایک فطری سا سوال تھا ـ ” ہاں جاتا ہوں ” “کس کلاس میں پڑھتے ہو ؟؟؟” ” نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا , ماں چنے دیتی ہے وہ سکول کے بچوں کو بیچتا ہوں ـ بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں ـ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہمارا یہی کام دھندہ ہے ” بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھاـ
Poor Faimily
” تمہارا کوئی رشتہ دار ؟؟؟” میں نہ چاہتے ہوے بھی پوچھ بیٹھا ” پتہ نہیں ـ ماں کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا ـ ماں جھوٹ نہیں بولتی نا انکل؟؟؟ ـ مگر مجھے لگتا ہے میری ماں کبھی کبھی جھوٹ بولتی ہے ـ جب ہم کھانا کھاتے ہیں ہمیں دیکھتی رہتی ہے ـ جب کہتا ہوں ماں آپ بھی کھاؤ , تو کہتی ہے میں نے کھا لیا تھا ـ اسوقت لگتا ہے جھوٹ بولتی ہے ” ” بیٹا اگر تمھارے گھر کا خرچہ مل جاے تو پڑھو گے؟؟؟ ” ” نہیں بالکل نہیں ” ” کیوں؟؟؟” ” پڑھنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں انکل ـ ہمیں کسی پڑھے ہوئے نے کبھی نہیں پوچھا ـ قریب سے گزر جاتے ہیں ” میں حیران بھی تھا اور شرمندہ بھی ـ ” روز اسی مسجد میں آتا ہوں , کبھی کسی نے نہیں پوچھا ـ یہ سب نماز پڑھنے والے میرے ابا کو جانتے تھے ـ مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا ـ ”
بچہ زار و قطار رونے لگا ” انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی کیوں ہو جاتے ہیں؟؟؟؟ میرے پاس بچے کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا میری اپنی آنکھیں بھی آنسو ئوں سے تر ہو چکی تھیں ـ ایسے کتنے معصوم ہونگے جو حسرتوں سے زخمی ہیں ؟؟؟ آئیے ! عید کے خوبصورت رنگ ایسے بچوں کے سنگ منائیں کیونکہ پیار، محبت،اخوت،خوشی،مسرت،قربانی اور بے لوث جذبوں کے خوبصورت رنگوں کو ایک ساتھ یکجا کرنے سے قوس و قزح اور جذبات و احسات کی خوشبو سے جو حُسین منظر دکھائی دیتا ہے اسے عید کہتے ہیں۔دکھ درد کی اذیت کو ہنستے مسکراتے لمحات میں تبدیلی کی خواہش پر ممبنی جذبات و احسات کی خوشبو سے معطر ہونے والی فضاء ”عید’ کہلاتی ہے عید ایک تہوار کا نام نہیں ہے بلکہ ایک لطیف جذبے کا نام ہے ۔ آئیے ! اپنی جیب خرچ سے ایسے بچوں کی مدد کر کے اپنی عید کی خوشیوںکہ دہ بالا کر یں
Rashid Ahmed Naeem
تحریر: رشید احمد نعیم چیف ایگزیکٹو حبیب آباد پریس کلب پتوکی صدر الیکٹرونک میڈیا حبیب آباد پتوکی سینئرممبرکالمسٹ کونسل آف پاکستان