تحریر : پروفیسر رفعت مظہر یکم فروری کو آواری ہوٹل لاہور میں عظیم مزاح نگار، کالم نگار، شاعر اور ڈرامہ نگار محترم بھائی عطاء الحق قاسمی کی 75 ویں سالگرہ کی تقریب میں ہم بھی مدعو تھے۔ ہم عموماََ ایسی تقاریب میں شرکت سے گریز ہی کرتے ہیں لیکن یہ تو ہماری اپنی تقریب تھی ، اِس میں بھلا شرکت کیسے نہ کرتے۔ بھائی عطاء الحق قاسمی سے خلوص کا بندھن اڑھائی عشروں پر محیط ہے۔ یہ قاسمی صاحب کی سالگرہ کی پلاٹینم جوبلی کی تقریب تھی اور ہم دِل ہی دِل میں اپنے تعلقات کی سلور جوبلی منا تے ہوئے فخر محسوس کر رہے تھے۔ ہم نے کئی بار یہ کوشش کی کہ قاسمی صاحب کی ہشت پہلو شخصیت کا احاطہ کر سکیں لیکن ”کَوڈی کَوڈی” ناکام ہوگئے کیونکہ اُنہوں نے اپنی عظمتوں کے گرد اپنے خلوص کی ایسی ”بُکل” مار رکھی ہے جس میں بہت کچھ نہاں ہو چکا۔ اکبر الہ آبادی نے لکھا
اپنی طرف سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے اخبار میں تو نام میرا چھاپ دیجئے
یہاں تو یہ عالم ہے کہ ہر کوئی تعلی کا ”پَرنا” اپنے کندھے پر سجائے پھرتا ہے، لیکن یہ کیسا شخص ہے جس کا اخبار سے 50 سالہ اٹوٹ بندھن ہے، جو لاریب آبروِ اُردو ادب ہے ،جو دُکھی چہروں پر بھی مسکراہٹیں بکھیرنے کا فَن جانتا ہے، جس کے ڈراموں کے جملے محاوروں میں ڈھل چکے ہیںاور جس نے ہم جیسوں کو فنِ مزاح نگاری سے روشناس کرایا، اُس میں تعلی ہے نہ نرگسیت۔ جسے باقی تو سب کچھ آتا ہے لیکن خود ستائی وخود نمائی کے فَن سے ناآشنا۔ تقریب کے دَوران ماضی کی عظیم اداکارہ نشو بیگم کہہ رہی تھیں کہ اگر قاسمی صاحب لکھنے لکھانے کی بجائے فلموں کی طرف رجوع کرتے تو وہ اُن کی ہیروئن ہوتی۔ محترم مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ شکر ہے قاسمی صاحب فلمی دنیا میں نہیں گئے ورنہ اُنہیں نشو بیگم سے کون بچاتا۔ شامی صاحب نے یہ بھی کہا”عطاء الحق قاسمی کے بارے میں جو کچھ کہا جا سکتا تھا ،وہ کہا جا چکا اور جو نہیں کہا گیا ،وہ میں بھی نہیں کہوں گا”۔چار گھنٹوں پر محیط اِس تقریب میں قہقہے گونجتے رہے اور بوریت دور کھڑی جَلتی ،کُڑھتی رہی۔
اِس تقریب میں اُردو ادب و صحافت سے تعلق رکھنے والی بیشمار نامی گرامی شخصیات موجود تھیں۔ اگر نام لکھنے بیٹھوں تو پورا کالم اِسی کی نذر ہو جائے البتہ یہ ضرور کہ ہر کسی کی خواہش تھی کہ قاسمی صاحب کے تبحر ِ علمی پر چند جملے ضرور کہے۔وہ خود بھی ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے اپنے ”عہدِ جوانی” کے کئی سَربستہ رازوں سے پردہ اُٹھا کر محفل کو کشتِ زعفران میں ڈھالتے رہے۔شاید محفل میں موجود بہت سی خواتین (خصوصاََ اپنی بیگم صاحبہ) کا لحاظ کرتے ہوئے وہ بہت کچھ کہنے کے باوجود نہ کہہ سکے۔ رات ڈھلے جب یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو تشنگی برقرار تھی حالانکہ ایسی تقاریب اپنی طوالت کے باعث اکثر بوریت میں ڈھل جاتی ہیں۔
اِس پُروقار تقریب کی گونج شاید اُن ایوانوں تک بھی پہنچ گئی جہاں اب ہر روز اَزخود نوٹس ہوتے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے ایم ڈی پی ٹی وی کی عدم تقرری سے متعلق اَز خود نوٹس کی سماعت کے دوران پی ٹی وی کے سابق چیئرمین عطاء الحق قاسمی کی تقرری سے متعلق سمری بھی طلب کر لی۔ وفاقی سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ بطور چیئرمین پی ٹی وی قاسمی صاحب کو 15 لاکھ روپے تنخواہ اور دیگر مراعات ملا کر کل 27 لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جاتے تھے۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ قاسمی صاحب کو کل کتنی رقم ادا کی گئی تو احمد نواز سکھیرا نے کہا کہ 27 کروڑ 80 لاکھ روپے۔ یہیں سے غلط فہمی کا آغاز ہوا کیونکہ بقول قاسمی صاحب وزارتِ اطلاعات نے جو تفصیلات جمع کروائیں ،اُن میں پروگراموں کے اخراجات، ”پرومو” کے بِلز اور اُن کے ساتھ کام کرنے والے عملے کی تنخواہیں بھی شامل تھیں۔ قاسمی صاحب نے بتایا کہ اُنہیں تنخواہ اور مراعات کی مَد میں 20 لاکھ روپے ماہانہ ملتے تھے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اُنہیں ایک کروڑ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی تو وہ 2 کروڑ روپے ماہانہ واپس کرنے کو تیار ہیں۔
محترم چیف جسٹس نے یہ استفسار بھی کیا کہ قاسمی صاحب کو کِن خصوصیات کی بنا پر پی ٹی وی کا چیئرمین بنایا گیا؟ تو اُنہیں بتایا گیا کہ وہ مشہور لکھاری ،ڈرامہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں تو چیف صاحب نے ریمارکس دیئے ”مجھے تو یہ سارا ڈرامہ لگتا ہے”۔ دَست بستہ عرض ہے کہ اگر عطاء الحق قاسمی جیسا شخص، جس کی ساری زندگی اِسی دَشت کی سیاہی میں گزری ہے، وہ بھی پی ٹی وی کا چیئرمین بننے کا اہل نہیں تو پھر کیا آسمان سے فرشتے اُتریں گے؟۔ لیکن یہاں معاملہ ذرا مختلف ہے کہ قاسمی صاحب ”پیوستہ رہ شجر سے ،اُمیدِ بہار رکھ” کی عملی تصویر ہیں جو جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے کبھی گریز نہیںکرتے۔ وہ تو مشرف کے دَورِ آمریت میں بھی سفارت سے استعفےٰ دے کر وطن لوٹ آئے تھے کہ میاں نوازشریف سے خلوص ومحبت کا بھرم مقصود تھاحالانکہ اُنہیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں۔ آجکل چونکہ میاں صاحب کے چاہنے والوں کی شامت آئی ہوئی ہے اِس لیے ”یہ تو ہونا ہی تھا”۔ اگر اونچے ایوانوں میں کوئی ”زنجیرِ عدل” ہوتی تو ہم اُسے ہلا کر منصفِ اعلیٰ سے یہ سوال ضرور کرتے کہ کیاکچھ لوگوں کا قصور محض اتنا ہے کہ وہ آج بھی میاں نوازشریف کی چاہت کا دَم بھرتے ہیں۔ آنے والا موّرخ جب پاکستان کی تاریخِ عدل لکھے گا تو کیا لکھے گا؟۔ کیا یہ کہ جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی، عدلیہ نے ”نظریۂ ضرورت” گھڑ لیا۔ یا پھر یہ کہ پاکستان کی تاریخ پر مسلط 36 سالہ آمریت کو ہمیشہ عدلیہ نے ہی سہارا دیا۔
نہال ہاشمی کے بعد طلال چودھری اور دانیال عزیز بھی توہینِ عدالت کا نشانہ بننے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ضرور سزا ملنی چاہیے کہ صرف عدلیہ ہی کا احترام سب پر واجب ،باقی سب کیڑے مکوڑے ،حشرات الارض یا پھر عوام کے منتخب کردہ لوگ سِسلین مافیا اور گاڈ فادر۔ ہمارا عدل کے اونچے ایوانوں سے سوال ہے کہ اُس شخص پر توہینِ عدالت لاگو کیوں نہیں ہوئی جس نے عدلیہ کے لیے ”شرمناک” جیسے الفاظ استعمال کیے ۔ جہاں تک ہم جانتے ہیںکسی ایک جج کی توہین پوری عدلیہ کی توہین ہوتی ہے ۔ جب ایک شخص نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو مخاطب کرکے کہا ”آپ کتنے میں بَکے؟”، تب عدل کے اونچے ایوان کیوں خاموش رہے؟۔ جب 2013ء کے انتخابات کو ”آراوز” کا الیکشن کہا گیا ،تب میزانِ عدل پر زلزلہ بپا کیوں نہیں ہوا؟۔ جب ایک شخص نے کہا ”دیکھنا ہوگا کہ نون جیتتی ہے یا قانون؟”تب عصائے عدل متحرک کیوں نہیں ہوا؟۔ کیا یہ سب کچھ صرف نوازلیگ کے لیے ہی رہ گیا ہے؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ”بابا رحمت” کی باتوں پہ کون اعتبار کرے گا؟۔