تحریر : غفران ساجد قاسمی ہندوستان کی تاریخ میں قومی سطح پر دو تاریخ کو خاص اہمیت حاصل ہے، ان دونوں تاریخ کا ہندوستان کی تاریخ سے بڑا گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے۔وہ دونوں تاریخیں 15 اگست اور 26 جنوری ہیں۔ 15 اگست کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ اسی دن ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی۔ مناسب خیال ہوتا ہے کہ آزادی کی بجائے یہ کہا جائے کہ و طن عزیز کو آزادی نہیں ملی بلکہ غلامی منتقل ہوئی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے گوروں کی غلامی میں تھا اب گوروں کے پیروکاروں گندمی رنگ کے لوگوں کی غلامی میں آ گیا، ہمارا یہ وطن پہلے بھی غلام تھا اور اب بھی غلام ہے۔
دوسری اہم تاریخ 26 جنوری ہے۔ 26 جنوری کو ہندوستان کی تاریخ میں اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ اسی دن آئین ہندکونافذکیاگیاجس کی روشنی میں ہمارایہ وطن عزیز”ہندوستان”ایک جمہوری ملک قراردیاگیا۔آئین ہندکے نفاذکے ساتھ ہی ہندوستان ایک سیکولراسٹیٹ بن گیاجس میں بلاتفریق مذہب وملت اور بلالحاظ ذات وپات اوررنگ ونسل سبھی کوبرابری کے حقوق حاصل ہوگئے۔آئین ہندکی روشنی میں ملک کے تمام شہریوں کوتمام معاملات میں یکساں حقوق حاصل ہوں گے،کسی کوکسی مخصوص مذہب یاذات یارنگ ونسل کی بنیادپراس کے آئینی اور بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیاجاسکتاہے اورصحیح اورحقیقی معنوں میں اسی کانام جمہوریت ہے۔جس تاریخ کوآئین ہندکانفاذعمل میں آیاوہ تاریخ 26جنوری 1950ء تھی۔15اگست1974 کو وطن عزیز انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا۔
آزادی حاصل ہونے کے بعدملک کومنظم طریقہ سے چلانے کے لیے ایک قانون اورآئین کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے لیے مشہورقانون داں ڈاکٹرامبیڈکرکی صدارت میں ایک قانون سازکمیٹی تشکیل دی گئی جنہوں نے ہندوستان کے پرانے قانون،اسی طرح دیگرجمہوری ملکوں کے قوانین کو سامنے رکھ کرایک مسودہ تیارکیاجسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیااور 26 نومبر 1949 کو پارلیمنٹ نے اس قانون کوآئین ہندکے طور پر پاس کر دیا اور پھر 26 جنوری 1950 کو اس کامکمل نفاذ عمل میں آیاجس کی روسے ہندوستان ایک غیرمذہبی جمہوری ملک قرارپایا۔دراصل ٥٣٩١ء کے گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ کی جگہ پر نئے آئین ہند کو نافذ کیا گیا۔آئین ہند کو نافذ کرنے کے لیے 26جنوری کے انتخاب کے پیچھے بھی ایک تاریخ ہے اوروہ یہ کہ تحریک آزادی کے دورمیں1930میں کانگریس نے ہندوستان کی مکمل آزادی کااعلان کیا تھا اور اتفاق سے وہ دن 26جنوری کاتھااسی لیے اسی پس منظرمیں آئین ہندکے نفاذکے لیے بھی 26 جنوری کا انتخاب کیا گیا۔جمہوریت کی تعریف:جمہوریت کے لغوی معنی”لوگوں کی حکمرانی”Rule of the people کے ہیں۔یہ اصطلاح دویونانی الفاظ Demo یعنی ”لوگ” اور Kratos یعنی ”حکومت”سے مل کر بنا ہے۔بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لوگوں کی ”اکثریت کی بات ماننا”لیکن درحقیقت یہ”اکثریت کی اطاعت کا نام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یونانی مفکرہیروڈوٹس(Herodotus)کہتاہے کہ:”جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پرپورے معاشرے کوحاصل ہوتے ہیں”۔چنانچہ سابق امریکی صدر”ابراہم لنکن”کایہ قول جوکہ جمہوریت کانعرہ ہے،اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے:Government of the people٫ by the people٫ for the people.عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ، عوام کے اوپر ۔علامہ اقبال کی زبان میں جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ: جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں٭بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لانہیں کرتے۔ تاریخ جمہوریت:جمہوریت کاسب سے پہلاسراغ ہندوستان میں ملتاہے۔6سوسال قبل ازعیسوی اور”بدھا”کی پیدائش سے قبل ہندمیں جمہوری ریاستیں موجودتھی اوران کو Janapads(جنپدس) کہاجاتاتھا،ان میں سب سے پہلی ریاست” وشانی” (غالبا مصنف”ویشالی”کہناچاہتے ہیں)جوکہ آج”بہار” کے نام سے مشہورہے۔اسی طرح سکندراعظم کے دورمیں400قبل ازعیسوی یونانی دانشوروں کے مطابق SabastaiاورSabaracaeکی ریاستیں موجودہ پاکستان اورافغانستان ہیں،یہاں بھی جمہوری حکومت تھی نہ کہ شاہی حکومت۔اسی طرح ٥صدی قبل مسیح میںGreeceمیں بھی کونسل اوراسمبلی کاتصورملتاہے۔Jalius Cessar اورسینٹ کے سربراہ Ponpey کے درمیان خانہ جنگی کے بعدBc49میں پہلی دفعہ ”رومن ایمپائر”Roman Empireوجود میں آئی۔ (حقیقت جمہوریت:ازابومعاذالقرنی)26جنوری ہرسال آتاہے،اورہرسال ہمار ی حکومت ”جشن جمہوریت”منانے پرکروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہے،حکومتی سطح پرجواخراجات ہوتے ہیں وہ ایک طرف غیرحکومتی اور نیم حکومتی ادارے بھی اس جشن جمہوریت کواپنے اپنے ڈھنگ سے منانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے،اورایک محب وطن کے لیے ان اخراجات کی کوئی اہمیت نہیں ہے،کیوں کہ ہمیں اپنے وطن عزیزسے بے حد پیار ہے۔
Democracy
ہمیں اپنی جان سے زیادہ پیاراہماراوطن ہے،ہم اپنی جان کی قربانی دے سکتے ہیں لیکن اپنے وطن پرکوئی آنچ آجائے یہ ہمیں برداشت نہیں ہوسکتا،تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ وطن عزیزکی حفاظت کے لیے جان ومال کی قربانی نچھاورکی ہے اورآج اسی بے لوث اوربے غرض قربانی کانتیجہ ہے کہ ہماراوطن دنیا کا سب سے قدیم اورسب سے بڑاجمہوری ملک کہلاتاہے،آج ہمارے ملک کے پاس وہ ساری طاقت اوروسائل ہے جس کے ذریعہ وہ دنیاکے سب سے بڑے سپرپاورکوبھی آنکھیں دکھا سکتا ہے اور با رہااس کی عملی مثال پیش کرچکاہے،لیکن آج ہمارے دل ودماغ میں ایک سوال گردش کررہاہے،ایک ایساسوال جووطن عزیزکے ہرانصاف پسند شہری کے دل و دماغ میں ہے،اوریہی وہ سوال جوہمارے ”جشن جمہوریت”کی تقریبات پرسوالیہ نشان کھڑاکرتاہے۔جشن یاخوشی ہم اس وقت مناتے ہیں جب ہمیں کسی چیزمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے،ہمیں اس کامیابی پر انعامات ملتے ہیں۔
شاباشی ملتی ہے اوراس خوشی میں ہم ایک تقریب کااہتمام کرتے ہیں جس میں اپنی خوشی اپنے عزیزواقارب،دوست اوررشتہ داروں کے ساتھ باٹتے ہیں،کچھ ایساہی معاملہ جشن جمہوریت تقریب کابھی ہے،یہ جشن ہم اس کامیابی کی خوشی میں مناتے ہیں اوربڑے ہی اہتمام اورتزک واحتشام کے ساتھ مناتے ہیں کہ اسی دن ہم نے اپناایک دستور اور قانون نافذ کیا کہ اس دستوراورقانون کی روشنی میں ہم اپنے وطن عزیزکوآگے بڑھائیں گے،اوراسی دستورکی روشنی میں ہندوستان جیسے کثیرالمذہب اورہمہ جہتی ورنگارنگی تہذیب وزبان سے پرملک کوکسی خاص مذہب اورکسی خاص تہذیب سے آزادکراسے غیرمذہبی سیکولرملک قراردیاتاکہ اس ملک میں تمام مذاہب اورتہذیب کے حامل انسان بلااختلاف مذہب وملت اوربلالحاظ ذات وپات،زبان رنگ ونسل آزادی اورسکون کے ساتھ زندگی گذار سکے، یقینا یہ اپنے آپ میں وطن عزیز کے لیے بڑی حصولیابی تھی،لیکن کیاہمارایہ وطن اپنے دستورکی روشنی میں آگے بڑھ رہا ہے۔
کیا دستور کے مطابق تمام مذاہب کے لوگوں کوآزادی اوربنیادی حقوق حاصل ہیں؟ کیاوہ دستورجوہرانسان کی جان ومال کے تحفظ کاوعدہ کرتاہے جس میں کسی خاص فرقہ یامذہب کاکوئی لحاظ نہیں ہوگابلکہ بحیثیت ہندوستانی شہری تمام شہریوں کے جان ومال اورعزت وآبروکے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پرہوگی،کیااس دستورکی روشنی میں سب لوگوں کے جان ومال کو تحفظ حاصل ہے؟اگرنہیں حاصل ہے توپھرکس بات کاجشن؟کیساجشن جمہوریت؟ ہندوستان کادستور٥٢تا٨٢تمام مذاہب کے لوگوں کوہرطرح کی آزادی فراہم کرتاہے،لیکن عملی طورپراس دستورکاکوئی نفاذنہیں ہے۔
ہمارے وطن عزیزمیں صرف ایک طبقہ کوتحفظ حاصل ہے اورایک خاص طبقہ کوکسی طرح کی کوئی آزادی نہیں ہے،کبھی اس کی عبادت گاہ کو شہید کر دیا جاتا ہے، کہیں کسی بہانے اس کی جان ومال اورعزت وآبرو کو تار تار کردیاجاتاہے اورحکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے وہ دستورکی پاسداری میں ناکام نظرآتی ہے،دستورجس کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کوسونپتی ہے حکومت اس میں ناکام نظرآتی ہے،پھرکیسی جمہوریت؟اورکیساجشن جمہوریت؟دستور٩٢تا٠٣ ہرقوم اورفردکواپنی تہذیب،زبان اورثقافت پرعمل کرنے کی آزادی کے ساتھ اسے اس کاتحفظ اورفروغ کا ذمہ دیتی ہے،لیکن آج حکومت ہی بھارت میں بسنے والی ایک خاص قوم کی شخصی تشخص کوختم کرکے یونیفارم سول کوڈکے نفاذکی بات کرتی ہے اورمختلف طریقوں سے ایک خاص طبقہ کے مذہبی تشخص پرحملہ کرتی ہے اوراسے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے،پھرکیسی جمہوریت؟اورکیساجشن جمہوریت؟ دستور ٤١ تا٦١ہندوستان کے ہرشہری کویکساں حقوق اورمواقع فراہم کرنے کی بات کرتاہے لیکن ہمارے ملک کوچلانے والے چندمتعصب ذہنیت کے حامل افرادایک خاص اقلیتی طبقہ کووہ حقوق اورمواقع فراہم کرنے میں تعصب سے کام لیتی ہے اورحکومت اس پر خاموش رہتی ہے۔
Celebrate Democracy
پھر کیسی یہ جمہوریت؟اورکیساجشن جمہوریت؟دستور٣٢اور٤٢ظلم وجبرکوختم کرنے کی بات کرتاہے،ایک خاص طبقہ کے استحصال کوروکنے کی وکالت کرتاہے،لیکن آئے دن ہمارے وطن عزیزکااکثریتی طبقہ اس خاص طبقہ کودبانے،کچلنے اوراس پرظلم وستم کا پہاڑ توڑتاہے اورحکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،نہ اس ظلم کوروکتی ہے اورنہ ہی ظالم کوخاطرخواہ سزادیتی ہے جس کی سینکڑوں مثالیں ہیں جس میں تازہ ترین مثال گجرات اور مظفرنگرفسادات کی ہے اورحکومت خاموش تماشائی کاکرداراداکررہی ہے،پھرکیسی یہ جمہوریت ہے؟اورکیساجشن جمہوریت؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جوہمارے دل ودماغ کوجھنجھوڑتے ہیں،کہ آخرہم کس بات کاجشن منارہے ہیں؟ہمیں جشن منانے کاحق اس وقت ہوتاجب کہ ہم دستور ہند کی پاسداری کرتے ہوئے تمام شہری کوبرابری کے حقوق دینے میں کامیاب ہوگئے ہوتے،تب ہمیں جشن جمہوریت منانے کاصحیح حق حاصل ہوتا،آج ہماری حکومت اوراس کے ساتھ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سرکاری غیرسرکاری ونیم سرکاری ادارے جشن جمہوریت تقریبات منارہے ہیں اورکروڑوں روپیہ صرف کررہے ہیں لیکن کیاکسی نے یہ سوچاہے کہ مظفر نگر فسادات کے ہزاروں مظلومین اوران کے بچے کس حال میں زندگی گذاررہے ہیں؟اسی طرح ملک کے طول وعرض میں لاکھوں غریب، محتاج،بے روزگاراوربے گھرلوگ کس حال میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں، جودستورملک کے ہرشہری کویکساں حقوق اور روزگار مہیا کرنے کی وکالت کرتاہے ہماری حکومت اس دستورکی پاسداری کرنے میں کہاں تک کامیاب ہے؟ اوراگرکامیاب نہیں ہے توپھرکس بات کاجشن منایا جارہاہے؟اس سوال کاجواب ہرشہری کواپنی حکومت سے جاننے کاحق حاصل ہے۔کسی شاعرنے جمہوریت کابڑاخوبصورت نقشہ کھینچا ہے: تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب (ہند) کا جمہوری نظام٭چہرا روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر۔۔۔