تحریر : نبیلہ خان 14 اگست ہمارا یوم آزادی کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی 14 اگست کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو جاتی ہیں۔ہر طرف ہلالی پرچم لہرانے لگتے ہیں۔بازاروں میں جگہ جگہ جشن آزادی اسٹال لگائے جاتے ہیں۔بڑوں سے زیادہ بچوں میں جوش پایا جاتا ہے۔پھول جیسے بچے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ننھی منی جھنڈیاں لڑیوں میں پروتے ہیں۔پھر ان کو گھروں میں سجانے میں اپنی پوری طاقت صرف کرتے ہیں۔سرکاری عمارتوں اور غیر سرکاری عمارتوں پر پاکستان کا خوبصورت اور مقدس پرچم پوری آب وتاب کے ساتھ لہرانے لگتا ہے۔ ماحول میں ایک جذبہ سانس لیتا ہوا محسو س ہوتا ہے’جو پاکستانیوں کو متحد کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔14 اگست بھی پاکستانی عوام کی طرح مناتے ہیں بلکہ عید سے بھی بڑھ کر اور محب وطن پاکستانی اپنے اندر ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس کرتا ہے’مگر میرے ذہن کے کینوس پر 14 اگست کے دن کی کچھ ایسی تصاویر بھی بارہا ابھرتی ہیں جو مجھ سے کچھ سوالا ت کرتی ہیں۔ 14 اگست کے دن عوام کا سڑکوں پر نکلنا دھکم پیل کی صورتحال: نوجوان نسل کا موٹر سائیکلیں دوڑانا۔ون ویلنگ کرنا’روڈوں پر نازیبا حرکات کا ارتکاب کرنا: پیسے کا بے جا اسراف: ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواہش پاکستانیوں سے وہ سب کچھ کرواتی ہے جو بطور مسلمان بطور عوام بہت ہی غلط اقدام ہے۔
میں نے اپنی زندگی کی صرف ایک 14 اگست گھر سے باہر آوٹنگ کی غرض سے اپنے بچوں اور شوہر نامدار کے ساتھ دریا کے کنارے منائی اور اس دن بہت سی ایسی باتوں کا مشاہدہ کیا جو مجھ جیسی گھر میں رہنے والی خاتون کے لئے ورطہ حیرت میں مبتلا ہونے کا ذریعہ بنا۔ڈیرہ اسماعیل خان میں تفریحی مقامات گنے چنے ہی ہیں جن میں سرفہرست دریائے سندھ کا کنارا یا پھر اس کے ساتھ ساتھ بنے چند ایک تفریحی پارکس۔پچھلے سال کے چودہ اگست کو بچوں کی ضد کو دیکھتے ہوئے ان کے بابا نے باہر گھومنے کا پروگرام بنایا۔گھر سے پکنک کاسامان ساتھ لیا اور دریا کنارے جانے کے قصد سے روانہ ہوئے۔ سہہ پہر تین کا ٹائم تھا جب ہم چلے۔آدھے گھنٹے میں ہم فیملی پارک کے گیٹ پر تھے مگر جو حالت پارک کے گیٹ پر لوگوں کے جم غفیر کی دیکھی تو اپنے تفریح کے پروگرام پر افسوس ہی کرنا رہ گیا۔ خیر اللہ اللہ کرکے جب اندر گئے تو اند ربھی اسی صورتحال کاسامنا کرنا پڑا۔ گرمی حبس اور ہجوم کو دیکھ کر شوہر نامدار کا مزاج بھی ساتویں آسماں تک جاپہنچا۔نا بیٹھنے کی جگہ نا چلنے کی نا کھانے کی نا گھومنے کی۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا رش اور ہجوم نہیں دیکھا تھا۔
اب یہ سوچ کر دل پریشان کہ واپس کیسے نکلا جائے؟ بلا تفریق مرد وعورت کے ہر بندہ دوسرے کو دھکے دینے میں مصروف عمل تھا۔ بڑی مشکل سے پارک سے نکلے۔ اوپر سے سامان بھی وبال جان بن چکا تھا۔ بچے علیحدہٰ ہراساں اور پریشان باہر آنے کے بعد سکون کی کچھ سانس لی تو سوچا دریا کے کنارے بیٹھ کر پیت پوجا کی جائے مگر وہاں کا نظارہ بھی مختلف نا تھا۔ بچوں کا موڈ کھانے پینے کا تھا مگر ایسی صورتحال میں یہ ناممکن ہی لگ رہا تھا۔ آخر میں ڈرتے ڈرتے میاں حضرت سے کہا کہ واپس گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان کا پارہ ویسے ہی ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔میری بات سن کر فوراً واپسی کی راہ لی مگر اب مسئلہ اس سے بھی گھمبیر ٹھہرا۔ جن لوگوں نے ڈیرہ کا دریا والا روڈ دیکھا ہوگا وہ میری اس بات سے مکمل اتفاق کریں گے۔تنگ سے روڈ پر ٹریفک کا بے ہنگم ہجوم اور انسانوں کا سیل رواں جو چل کم رہا تھا دبنگ زیادہ۔ ہم نے بھی ہمت کرتے ہوئے پیدل ہی چلنے کو ترجیح دی کیونکہ اس رش میں ہمیں کوئی سواری ملنا ایک دشوار عمل ہی تھا۔
روڈ کے ہجوم کے بیچوں وبیچ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا وہ ہجوم تھا جو نا آگے جا سکتا تھا نا پیچھے۔ اوپر سے ایک دوسرے کے ساتھ منہ ماری اور بدتمیزی کا مظاہرہ ہر شخص کرنے پر تلا ہوا تھا۔ جہاں لوگ آئے تو جشن آزادی منانے تھے مگر اپنے ہاتھوں پیدا کی گئی ایسی صورتحال کی وجہ سے ایک ایک قدم رینگ رینگ کر چل رہے تھے۔مسئلہ یہ تھا کہ روڈ کے کناروں پر پیدل چلنے والوں کا قبضہ تھا۔ ایک دو بدتمیز قسم کے لڑکوں نے پیدل جانے والوں کی طرف آنے کی کوشش کی تو بری طرح سے لوگوں سے ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں نوبت مار پیٹ اور ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔مجھ جیسی معصوم عوام کے دل تو پہلے ہی پریشانی کا شکار تھے اوپر سے بچوں نے بھی رونا دھونا ڈال دیاکہ جلدی گھر چلیں۔آخر کا ر پندرہ منٹ کی پیدل واک کو دو گھنٹے میں پورا کرتے ہوئے رکشہ سٹینڈ تک پہنچے تو آگے رکشہ حاصل کرنا بھی ایک جان جوکھم کا کام ثابت ہوا۔ ہر بندہ اگلے کے ساتھ بر سرپیکار تھا۔ رکشہ حاصل کرنے میں اللہ اللہ کرکے ایک رکشہ ڈرائیور کی منتیں ترلے اور ڈبل پیسے دینے کے بعد ہم رکشہ میں سوار ہو کر گھر کی راہ ہولئے مگر گھر پہنچتے پہنچتے بھی حشر خراب ہونے میں کوئی کسر باقی نہ بچی تھی۔
سامان کو پھینکا بہت سارا پانی پیا اور سب اپنے اپنے بستروں پر ڈھیر ہوگئے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جسے میں شاہد ہی کبھی فراموش کرسکوں۔جشن آزادی کادن ہمارے لئے زحمت کا دن ثابت ہوا۔ہماری پاکستانی عوام کے جذباتی ہونے میں تو کوئی دوسری رائے ہے ہی نہیں۔عقل سے کام نا لینا ہماری عوام کا پسندیدہ مشغلہ ٹھہرا ہے۔ چاہے وہ حکمرانوں کی اندھی تقلید ہو یا پھر ہندوؤں کی قائم کردہ رسومات بسنت وغیرہ’کو انتہائی جوش وخروش کامظاہرہ کرتے ہیں۔نفع اور نقصان کو سمجھے سوچے اور جانے بغیر۔جلسوں اور ریلیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں’پھر جب ایسے مواقع پر کوئی بم بلاسٹ یا پھر گاڑی کے نیچے کچلے جانے والے واقعات پیش آتے ہیں تو پھر یہی عوام مزید پاگلوں والے مظاہرے کرتے ہیں۔توڑ پھوڑ’دنگا فساد کرکے ملک کو مزید معاشی نقصان کا موجب بنتے ہیں۔مجھے اپنے پیارے وطن کی آزادی منانے پر کوئی اعتراض نہیں سوال یہ ہے کہ ہماری جذباتی اور بے وقوف عوام آخر کب تک اپنے ہاتھوں ہی اپنا نقصان کراتی رہے گی۔۔۔؟؟