جشن آزادی کا مقصد؟

Jashan-e-Azadi

Jashan-e-Azadi

تحریر : تنویر احمد

قرآن پاک نے کہا ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات ط بل احیاء ولکن لاتشعرونO
”جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں، لیکن تم (ان کی زندگی کا) اس کا شعور نہیں رکھتے”

اے نوجوانانِ پاکستان! کیا تمہیں آزادی دی گئی تو اس بات کی کہ تم جھنڈیاں لگائو، محض کپڑے کے ٹکڑے کا بنا ہوا پرچم لہرائو، تم اس ملک کی کشادہ شاہراہوں پر موٹرسائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر، ون ویلنگ کرتے ہوئے شہریوں کا امن و سکون تباہ کرو۔ تم اللہ کی قائم کردہ حدوں کو پھلانگ جائو۔ تم اسلام اور اخلاق کا جنازہ نکال دو۔ تم 14 اگست کو عید جشن آزادی منانے کی آڑ میں گلیوں، محلوں اور اونچے مکانوں کی چھتوں پر ننگے فحش و بیہودہ دشمنانِ دین کے عطا کردہ گانے بجائو۔ تمہیں کیبل نیٹ ورک، ٹی وی اور سی ڈیز کے جال میں پھنسا کر تمہارے ذہنوں سے اسلامی اور غیرت مندی کی سوچ کو روشن خیالی کے گندے اور کینسر کے جراثیم سے لتھڑے ہوئے (Non Sterilized) کند اوزار سے کھرچ دیا گیا ہے اور پھر یہ کام کرنے کے بعد السام کے قواین اور حدود اللہ میں تحریف کی گئی تاکہ کوئی بھی زانی ہر طرح کی سزا سے محفوظ رہے اور جس کا جی چاہے، جس کی چاہے عزت و حمیت اور غیرت کی پگڑی اچھال دے۔ کوئی کسی کی عزت کا بھائی وال اور سانجھی دار نہ رہے۔ تمہارے ذہنوں میں آزادی کا غلط تصور بٹھا دیا گیا ہے تم اسی کی دھن میں بہہ نکلے ہو، غیر مسلم و اغیار کی نقالی میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہو۔

اے نوجوان مسلمانانِ پاکستان! سنو! دشمن تمہاری آنکھیں ”روشن خیالی” کے چمکیلے اندھیرے سے چکا چوند کرکے تمہاری عزتوں کو ننگ دھڑنگ سرعام سڑکوں پر غیر محرموں کے ساتھ دوڑانا چاہتا ہے۔ سنبھلو! آنکھیں کھولو اپنی ثقافت، اپنا دین بچائو۔

اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا طریقہ سیکھو
سنگِ مرمر پر چلو گے تو پھسل جائو گے

اے نوجوانان پاکستان! سنو! جس نے اس پاک مقدس دھرتی کا خواب بنا تھا، انہی علامہ اقبال کی آنکھ میں تمہاری حیثیت اب بھی اونچی اڑان بھرنے والے عقاب کی ہے جس کا ٹھکانہ مخمل سجے دبیز پردوں والے پر آسائش گھر نہیں بلہ سنگلاخ چٹانیں ہیں، وہ تمہیں اس راہ نورد کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں جو کسی منزل کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ ہر منزل کو نشان منزل سمجھتا ہے۔

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تپو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں تلے تاجِ سردارا
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں کو ہم نے دے مارا

دشمنان اسلام نے تمہاری نبضوں پر ہاتھ رکھ کر دیکھ لیا ہے کہ اس میں تڑپ کتنی ہے۔ قوم کو بے حیائی کی شوگر کو ٹڈ گولی کھلادی گئی ہے، قوم اب اونگھ نہیں رہی بلکہ گہری نیند سو چکی ہے۔ صرف وہ چند لوگ زندہ و بیدار کھڑے ہیں جنہوں نے اس کو گولی کو نگلنا تو دور کی بات ہے، اس کو ہاتھ لگانا بھی گناہ کبیرہ سمجھا۔ انہی لوگوں میں سے ایک حافظ سعید ہیں کہ جنہوں نے اپنی آنکھیں بند نہ کرنے اور قوم کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگانے اور حی علی الصلوٰة، حی علی الفلاح کی صدائیں بلند کرنے کے جرم میں کبھی وہ دہشتگرد کہلائے تو کبھی قید و بند کی صعوبتیں ان کا مقدر ٹھہریں۔ مگر ان حالات میں بھی ان کے پائے استقلال کبھی متزلزل نہ ہونے پائے۔ انہیں بنیاد پرستی کے طعنے ملے تو کبھی تشدد پسند کہا گیا مگر اللہ کے فضل سے ان کے حوصلے کبھی ایک لمحے کو بھی پست نہ ہوئے بلہ ان کے ایمان اور زیادہ مضبوط ہوگئے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے سال 2018ء کو کشمیر کا سال قرار دیا۔ ان کے متعلق دجال امریکہ نے علی الاعلان 100 کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔ مگر وہ یہ بھول گیا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ ”میرے دین کی بات کرنے والے ہمیشہ ہی تھوڑے ہوا کرتے ہیں” اور پھر وقت نے ثابت کردیا ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ حافظ سعید کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ حافظ سعید کے نوجوان آج بھی میدانوں میں کھڑے ہیں اور ملی مسلم لیگ کے نام سے پاکستان کی سیاست میں ایک کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

کیا ہم آزاد ہیں؟ کیسے آزاد ہیں؟ ذرا اپنے گریبان میں جھانکو تو سہی سنو! اغیار کے کہنے پر اپنے ملک کے محسن کو مجرم بناکر قوم کے سامنے پیش کرنا، کیا یہ آزاد قوموں کا شعار ہے۔ وہ قوم کا ہیرو جس نے تمہیں بھیڑیا خصلت درندے کے سامنے سینہ سپر ہونے کی ہمت عطا کی ، وہ آج تمہارے سامنے اپنے اس جرم کو معاف کردئیے جانے کی اپیل کررہا ہے۔ مگر ہم بے حس و بے جان مفلوج دماغ سے یہ سب دیکھ اور سن رہے ہیں کیونکہ تمہارے جسموں سے روح اور دماغ سے سوچ نکال لی گئی ہے۔ تم پھر بھی یہ مضحکہ خیز سوچ رکھتے ہو کہ تم آزاد ہو۔ قابل شرم بات تو یہ ہے کہ ہمارے دشمن ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے سائنسدان کو اس کی قوم نے اپنے ملک کا صدر بنالیا اور ہم نے اپنے ہیرو کو مجرم بناکر پیش کیا۔ میرا سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا ہم آزادہیں؟

یہ ملک پاکستان جو مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، آج اسی ملک پاکستان میں اللہ کے دشمنوں کی سرزمین کا حاکم آئے تو تمہارا وزیراعظم اُس کا استقبال کرنے جائے۔ اپنے ہی مذہب کے شعار کا اپنے ملک کی سرزمین پر مذاق اڑانا اور اسے کمتر سمجھنا اور اسے راسخ طریقے سے اپنائے ہوئوں کو دقیانوس، جاہل اور بنیاد پرست کا نام دینا، مجھے بتائو ۔۔۔ اور تم کہتے ہو۔۔۔ ”کیا ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں”

سنو! میں سناتا ہوں، یہ ملک پاکستان جغرافیائی حدوں کا نام نہیں بلکہ نظریاتی خواب کی سچی تعبیر اور تصور ہے۔ مگر یہاں ملک پاکستان میں کہ جس کو حاصل ہی دین اسلام کے نام پہ کیا گیا تھا اسی دین کی تبلیغ کے لیے تو اونچی آواز لگنا اتو جرم ٹھہرا، مگر عیسائیت کی عبادتگاہوں کو لائوڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت کھلے عام ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو کہ ایک اسلامی نظریہ کے منشور پہ معرض وجود میں آیا کہ اس میں دین کی اشاعت کھلے عام ہوگی مسلمان اپنے مذہبی عقائد آزادی اور شان و شوکت سے مناسکیں گے، یہاں مسجدوں پر تو پابندیاں ہیں، مگر مندروں، گرجوں اور گوردواروںکی تزئین و آرائش کا کام حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔ اغیار کی وہ عبادتگاہیں جو بسوں سالوں سے ویران پڑی ہوئی تھیں اور جن کے قرب جوار میں بھی کوئی غیر مسلم نہیں رہتا، ان کو نئے سرے سے بنایا جارہا ہے اور اپنی بنی بنائی مقدس مساجد پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں۔

اے ارض وطن کے نوجوان ساتھیو! ذرا غور تو کرو، جس طرح مکڑی اپنے اردگرد جال بنتی ہے، اسی طرح سے تمہارے اردگرد بھی جال تیار کیا گیا ہے، تمہاری رگ و پے میں بے حیائی و بے غیرت کا زہر میڈیا کی Non Sterilized سرنج سے انتہائی غیر محسوس طریقے سے اتارا جارہا ہے، میڈیا خموش قاتل کا کردار ادا کررہا ہے۔ ذرا چاروں طرف نظریں تو دوڑائو، یہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا اس کو اس طرح سے استعمال کیا ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہو پایا۔ آج ہم غیر محرموں کو اپنی ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر سکرین پر دکھائے جانے والے غیر اخلاقی منظر کی غیر دانستہ طور پر تربیت کررہے ہیں مگر ہمارا احساس مردہ ہوچکا، ہم بیہودہ عورت فنکارہ کی اور ہماری عزت اور ناموس اور غیرت کی علامت غیر مرد کی تعریف کرتی ہے مگر ہم چپ سادھے پڑے رہتے ہیں، جب یہی فعل عملاً محلے کے فرد کے ساتھ ہوتا ہے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔

وہ میدان جو کبھی عسکری تربیت کے لیے سجا کرتے تھے، آج ان میں کرکٹ بلکہ کوڑا کرکٹ میچ کرواکر اتنا مصروف و مشغول کردیا جاتا ہے کہ تم کو وقت کے زیاں کا احساس بھی نہیں ہوتا اور تمہاری زندگی کے پانچ اہم ترین دن ضائع کرنے کے بعد یہ کہہ کر تم کو اٹھا دیا جاتا ہے کہ میچ ڈرا ہوگیا ہے، آئو! دیکھو اسلام ہمیں کی پچ دیتا ہے جس پر تمہاری ملت محمدیہ کے کھلاڑیوںنے وہ کھیل پیش کیا کہ دشمن اسلام کی مائیں آج بھی اپنے بچوں کو ہمارے ہیروز کا نام لے کر ڈراتی اور چپ کرواتی ہیں۔ وہ پچ حطین کی ہو یا دیبل بندرگاہ کی وہ سرنگاپٹم کا معرکہ ہو یا سومنات کے مندر کا کھیل۔ وہ رن کچھ کا میدان ہو یا کارگل کے برف پوش کوہسار، تمہارے اسلاف نے جو ہیروز پیدا کیے تھے وہ ہماری تاریخ کے دمکتے روشن ستار ہیں۔ ان کا نام لے کر تو ہماری گردنیں فخر سے تن جاتی ہیں۔ وہ شیر بنگال حیدر علی ہوں یا ٹیپو سلطان، سراج الدولہ ہوں یا محمد بن قاسم، محمود غزنوی ہوں یا سلطان صلاح الدین ایوبی، وہ میجر عزیز بھٹی ہوں یا کرنل شیر خان، غرض کس کس کا نام لوں۔ ایک سے ب ڑھ کر ایک ہیں۔ کرکٹ کے میدانوں میں اپنا وقت ضائع کرنے والو! تاریخ کے اوراق تو کھنگال کے دیکھو

تمہیں اپنے آبا سے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ

مگر آج کا نوجوان گندے کرداروں والے جن کا کوئی حسب نسب ہے اور نہ کوئی خاندان مگر ہم نے ان کو اپنا ہیروز بنا رکھا ہے، کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ان کی سوچ ہمارے دین، ہمارے رہن سہن و تہذیب و تمدن اور ہماری ارض پاک کے خلاف ہے۔ وہ ہماری شہ رگ پہ پائوں رکھ کر اسے پوری قوت سے دبانے کی کوشش میں ہیں، وہ جو گائے کا پیشاب پینے کو عبادت تصور کرتے ہیں، اور اگر ہمارے کپڑوں پہ اس کی ایک چھینٹ بھی پڑ جائے تو ہم خود کو ناپاک تصور کرتے ہیں، ہم ان کو گلے لگانے کی کوشش میں ہیں۔ اس میں سارا کمال میڈیاکا ہے کہ اس نے ان پر تعفن کردار کے حامل لوگوں اور بھانڈوں کو ایک عالمی سازش کے تحت اسقدر Explode اور اجاگر کیا کہ جھوٹ، فریب اور مکر کی دنیا پر بھی حقیقت کا گمان ہونے لگا ہے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید اسلام نے کہا تھا کہ”مسلمان نوجوانوں کی طاقت کا زیاں مت کرو، اسے کام میں لائو، ان کی انگلیاں بربط و رباب کی تاروں سے کھیلنے کے لیے نہیں، رائفلوں کے ٹریگروں پر چلنے کیلئے بنی ہیں، اگر تم میری بات مان لیتے تو آج سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا، آج ہمیں یہ ذلت آمیز دن دیکھنا نصیب نہ ہوگا” ہاں! وہ روسیاہ دن انہی مجرمناہ غفلتوں کی بناء پر طلوع ہوا تھا کہ ہم نے علامہ اقبال کی بات کو الٹ کردیا کہ
”طائوس و رباب اول، شمشیر و سناں آخر”

خدارا! اب تو سوچیں! ہم دشمن کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ جب ابھی پاکستان معرض وجود میں نہیں آیا تھا تو برصغیر کے مسلمان راتوں کی تاریکیوں میں اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے تھے کہ ”یا اللہ کوئی ایسا نجات دہندہ بھیج جو مسلمانوں کی ظلمت میں پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگادے، اللہ کی قسم آج بھی وہی وقت ہم پہ آچکا ہے۔

ایک دن تم سب سے پوچھے گی وطن کی آبرو
کس نے کٹوایا ہے سر اور کس نے بیچا ہے لہو
کونسا منہ لے جائو گے خڈا کے روبرو

ہمیں سنبھلنا ہوگا اور اس کا ایک ہی فارمولا ہے جو رب کائنات نے اپنی اس مقدس کتاب میں بتلادیا ہے جس کی حفاظت کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ آئیے اسی نسخہء کیمیاء سے مستفید ہونے ہیں۔

واعتصموا بحبل للہ جمعیا ولا تفرقوا (آل عمران 103)
اور اللہ کی رسی کو مضبوط سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو
ورنہ آنیوالے کل کو (خاکم بدہن)
”ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”

Tanveer Ahmed

Tanveer Ahmed

تحریر : تنویر احمد