تحریر : پروفیسر رشید احمد انگوی اسلام آباد کا پریڈ گرؤنڈ جوانوں سے کھچا کچ بھرا ہوا تھا۔ سیاست و اقتدار کے سرخیل کو چاروں شانے چِت گرا دینے کے تاریخ ساز واقعے پر جشن منایا جا رہا تھا۔ ملک کی نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ قابل فخر ہیرو اپنی عظیم کامیابی کا راز نو جوان پیروکاروں کے دل پر نقش کر رہا تھا کہ میری ماں نے اپنی ممتا کی محبت میں ڈوبی دو نصیحتیں یوں گھول کر پلا دیں کہ زندگی کا منشور بن کر شانِ کلیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرعون عصر کوغرقِ دریا کر کے آنے والوں کیلئے عبرت کا نشان بنا ڈالا اور اپنے مہربان و قادرِ مطلق ربِ کریم کا شکر ادا کرنے کیلئے دارالحکومت میں اسی مقام پر اجتماع شکر برپا کیا جہاں سے مخالف کو للکارا تھا۔
شوکت خانم مرحومہ کا لاڈلا فرزند بتا رہا تھا کہ میری ماں نے مسلسل تلقین کی کہ بیٹا انسانوں کو انصاف دیتے رہنا اور ظالم کے ظلم ستم کے خلاف ڈٹ جانا اور اس میں کبھی کمزوری نہ دکھانا ۔ کیا خوبصورت گواہی دی عظیم ماں کے عظیم بیٹے نے کہ پوری دنیاکو آگاہ کر دیا کہ مجھے اور میری تحریک کو سمجھنے کی کوشش کرو یہ تحریکِ انصاف میں نے نہیں بنائی بلکہ میری مرحومہ ماں نے اپنے احکام کی صورت میں قائم کر ڈالی تھی اور میں اس کا علم اٹھائے ہوئے ہوں۔ کرکٹ کا تاریخ ساز ہیرو اپنی پیاری ماں کی یاد میں کینسر سے کراہتی انسانیت کے دکھ دور کرنے کے ساتھ ساتھ جاہلیت کا مقابلہ کرنے والے نوجوانوں کو نمل یونیورسٹی کا تحفہ دیکر آگے بڑھا اور میدانِ سیاست کے مسلط مکروہ چہروں کی نقاب کشائی کیلئے نئے دور کی نئی اور پر شکوہ سیاست کا آغاز کرتے ہوئے چار عشروں سے بچھی بساط کو عصائے کلیمی کی ٹھوکروں سے لپیٹنے کے کام میں لگ گیا۔ حاکم وقت کے اشاروں پر طبلچیوں نے اودھم برپا کیا۔
کتنے ہی کارندے معزز پیٹیشنر بن کر راہ کھوٹی کرنے میں لگ گئے مگر ایمان و انصاف کے لطف سے سر شار ہیرو آگے بڑھتا ہی گیا۔ عظیم سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کے مجاور اسے اپنی اغراض کیلئے رکاوٹ تصور کرنے لگے، مذہب سے منسوب جبے قبے والے اپنے علم الکلام کے رعب سے اس پر تبریٰ بھیجتے رہے مگر اقبال کا شاہین اپنے نوجوانوں میں زندہ جذبوں کا جہان بیدار کر رہا تھا ، اس کا خطاب درسِ خودی کی مجسم تعبیر و تفسیر تھا، وہ اسوہ نبوی ۖ کے نقشِ قدم پر چلنے کا سبق دے رہا تھا ، طائف کے پتھروں کے حوالے سے ہار نہ ماننے کی تلقین کر رہا تھا ، وہ سید مودودی کے الفاظ اپنے انداز میں دھرا رہا تھا کہ ہمارا کام کوشش کرنا ہے کامیابی دینے کا اختیار اللہ کے پاس ہے وہ واقعہ ہجرت سے رہنمائی دے رہا تھا ، راہ حق کی مشکلات سے آگاہ کر رہا تھا ، وہ خوش تھا کہ پاکستانی قوم میں شعور پیدا ہو چکا ہے ، سمجھا رہا تھا کہ ظلم کے خلاف میچ کو ختم نہ سمجھ بیٹھنا، وہ نئے پاکستان میں مطلوبہ اصلاحات کی تفصیل بتا رہا تھا کہ اس خواب کی تعبیر کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ، غریب کی غربت کے خاتمے کی جدو جہد کرنا ہے ، ریاستِ مدینہ میں نافذ کی گئی با برکت اصلاحات کی تفصیل بتا رہا تھا ۔ جس کے نتیجے میں کوئی زکوٰة لینے والا نہ تھا اور سپر پاور کو شکست ہوئی ، تعلیم اور صحت دونوں کے لیے سرکاری اداروں کو ترقی دینے کا عزم ظاہر کر رہا تھا کہ آج بھی فرانس اور جرمنی میں یہی کچھ ہے اور پختون خواہ کی کامیاب مثالیں پیش کر رہا تھا، کرپشن ختم کر کے میرٹ کی بنیاد پر ایک فلاحی معاشرہ کی تشکیل کا عزم کر رہا تھا، نو آبادیاتی دور کے گورنر ہاؤسوں کو پارکو ںاور عوامی فلاحی منصوبوں میں بدل دینے کا عہد کر رہا تھا ، ٹیکس کی وصولی کا بہتر نظام اور عوام کی حالت بدلنے اور روز گار کے مواقع مہیا کرنے کا اعلان کر رہا تھا۔
یقین دلا رہا تھا کہ جب امانت و دیانت نیز سچائی کا نظام قائم ہو گاتو بیرون ملک پاکستانی ، اپنے وطن پاک کی مشکلات کو دور کرنے خود آئیں گے اور قوم کو عالمی اداروں کا بھکاری نہیں بننے دینگے ہم اقبال کے شاہین کے خیالات سن رہے تھے کہ علامہ کا مشہور شعر ذہن میں آیا کہ ” سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا ۔ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ” افسوس کہ ملک کو جھوٹے اور بے ایمان و بد دیانت اور بے وفا نام نہاد لیڈروں نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ مگر پانامہ کے قصے نے جس طرح ایک طوفان برپا کر کے قومی دولت کی لوٹ مار کرنے والوں کو بے نقاب کیا ہے یہ ایک عجب اور سحر انگیز منظر ہے یہ دورِ جدید کی صحافت کا کمال ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ ” علم و تحقیق پر قائم صحافت کی ٹھوکر میں زمانہ ہے”۔ سوشل میڈیا کو اگر صحیح ڈائرکشن ملتی رہے تو نوجوان معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ نوجوان گلوکار بتا رہا تھا کہ اس کے دوست جنید جمشید شہید کی بھی خواہش تھی کہ عمران خان پاکستان کا حکمران بنے ہم شہید کی اس آرزو پر دل کی گہرائیوں سے آمین کہتے ہیں ویسے بھی ہم تو ذاتی طور پر شریف خاندان کی سیاست میں انٹری کو چور دروازے سے غاسب حکمران کی مٹھی گرم کر کے وزارت کی کرسی حاصل کرنے کو اسی طرح سمجھتے ہیں جیسے کوئی ایس ایچ او متعلقہ اتھارٹی کی مٹھی گرم کر کے تھانہ اپنے نام لکھوا لے اور پھر لوٹ مار کا بازار گرم کر دے ۔ لوہاپگھلا نے والے خرادیئے اپنا کام کر رہے تھے کہ ان کے زیرک قسم کے باپ نے اقتدار پر غاصبانہ طور پر قابض ٹولے کے ایک اہم کا رندے سے لین دین کی اور اپنی اولاد کو سیاست میں ناجائز طور پر داخل کرا دیا اور پھر وہ اپنی کاروباری چالاکیوں اور لفافے کی طاقت کو کام میں لاتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک آ پہنچے کہ ان کے خوشامدی یہ جھوٹی قوالی کرتے رہتے ہیں کہ ” ووٹ سے آئے تھے ووٹ سے جائیں گئے” کیا ”شریف جیلانی ڈیل ” ووٹ کا مسئلہ تھا ” یا ”نوٹ کا ” نوٹوں سے آنے والے نوٹوں کے چکر میں ہی رہے اور بقول اعتزازا حسن ایک بیٹے کو عرب ریاستوں میں اور دوسرے کو برطانیہ میں بٹھا دیا اور وہ نوٹوں والے کام ہی کرتے رہے اور قدرت کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آ گئی۔
آج معزول حکمران اپنے آپ کو نظریاتی قرار دے رہا ہے اور بھول گیا ہے کہ اسی نے مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کی یاد میں سالانہ تعطیل ختم کرنے کی جسارت کی جس پر اہل نظر نے کہا تھا کہ ان حکمرانوں کو ”اقبال کی مار” پڑ کر رہے گی کہ مرد قلندر اقبال کے نام اور اس کی یاد کو مٹانے کی نا پاک حرکت کرنے والا فرد نظریاتی پاکستانی ہو ہی نہیں سکتا ۔ موصوف نے اپنی نسل کے ٹھکانے کیلئے مغرب کی بستیوں اور فلیٹوں کو ترجیح دی ہے بقول ” پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا” ۔۔۔۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام الناس یہ آرزو رکھتے ہیں کہ کاش ہمیں ایسے حکمران نصیب ہوں جن کاجینا مرنا، ااُوڑھنا ، بچھونا، اولاد جائیداد ، رشتے ناطے، غرض سب کچھ ملک کے اندر ہو ، ملک سے باہر نہیں بلکہ کیا ہی اچھا ہو کہ ان کے پاس پاکستان سے باہر کا پاسپورٹ تک نہ ہو۔اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، کیا ہمارے عظیم ہمسایہ دوست چین کے عظیم لیڈر ماؤ نے کبھی چین سے باہر قدم رکھا تھا مگر اُن کی تیار کردہ چینی قوم آج پوری دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہے۔ اور آخری بات یہ کہ ملک کو کرپشن سے آزادی دلانے کی تحریک جشنِ آزادی کا بہترین تحفہ ہے جس پر سب سے زیادہ قابلِ تبریک سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔