تحریر: ایم سرور صدیقی جب بھی کسی قبرستان جانے کا اتفاق ہوا شدید حیرت میں گم ہو گیا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی سٹیٹس انسان کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔۔۔۔امیری، غریبی اور طبقاتی تضاد اس جگہ بھی نمایاں ہے جہاں مٹی میں مل کر سب مٹی ہو جاتے ہیں آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کمال کے شاعر تھے، ان کی شاعری غم، یاسیت، بے بسی، بے کسی اور امید ناامیدی کا حسین امتزاج تھی ان کا ایک شعر ہے۔
ظفریہاں پہ کوئی آئے کیوں؟ کوئی چار پھول چڑھائے کیوں؟ بجھی شمع آکر جلائے کیوں؟ میں وہ بے کسی کا مزارہوں
صرف یہ نوحہ بہادر شاہ ظفر کا ہی نہیں قبرستانوں میں جا کر دیکھیں سینکڑوں ٹوٹی پھوٹی، خستہ حال دھول اڑاتی قبریں اپنی بے بسی کی داستان سناتی ہیں ۔۔۔کبھی غورکیاہے قبرستان ایسے لوگوںسے بھرے پڑے ہیں جو یہ کہتے اور سمجھتے تھے دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی آج ان کی آخری آرام گاہ حسرتوں کا مرقع ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی قبروںکی خوبصورتی نے دنیا کی آسائشوںکو مات دیدی ہے مقدس اور برگذیدہ ہستیوںکا ذکر نہیں ان کی مثال اس لئے نہیں دی جارہی کہ وہ بے مثال ہیں بات دنیا اور دنیا داروں کی ہو رہی ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں دنیامیں سب سے خوبصورت قبر ممتاز محل کی ہے جسے ان کے محبوب شوہرشاہ جہاں نے تاج محل بنواکر امر کردیا تاج محل کی خوبصورتی کو ایک طلسم قراردیا جاتاہے جس کو دیکھنے والا مبہوت رہ جاتاہے اس کا شمار عجائبات ِ عالم میں اس لئے ہوتاہے کہ اس کوئی نظیرہے نہ مثال۔آگرہ میں تو ایک تاج محل تعمیرہوا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاہور، کراچی،حیدرآباد اور کئی بڑے شہروں کے قبرستانوں میں کئی چھوٹے بڑے تاج محل موجود ہیں جہاں امیر اور غریب کا فرق کھل کر سامنے آگیاہے جس سے بخوبی شہروں اور دیہاتوں کے” شہر ِ خموشاں” میں بھی طبقاتی فرق کا شدت سے احساس ہو نے لگتا ہے شاید اسی لئے مرزا غالب نے کہا ہو گا۔
ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق ِ دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
آج مرزا غالب زندہ ہوتے تو دیکھتے بڑے شہروں کے قبرستانوں میں بھی VIPکلچر فروغ پا چکاہے کراچی کے قبرستانوں میں قائم مقبرے نما قبروںمیں ایسی بجلیاں روشن کردی گئیں ہیں جن پر لوڈشیڈنگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا یہ قبریں سرشام ہی جگمگ جگمگ روشن روشن ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف بیشتر غریبوںکی قبریں بھی موجود ہیں جو شکستہ اورٹوٹی پھوٹی ہیں جن پر شاید ہی کسی نے پورے 24گھنٹوںمیں فاتحہ پڑھی ہو ان قبروں کے مکین اپنی بخشش کیلئے شاید اپنے پیاروں کے منتظر بھی ہوں لیکن ان کی قبروںکی حالت دیکھ کر لوگ دنیا کی بے ثباتی کے یقینا قائل ہو جاتے ہوں گے۔
ہم کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی ہے پیر ِ مغاں کا گھر قمقموں سے روشن
Taj Mahal
ویسے تو ایک مؤرخ نے لکھا ہے مغلیہ دورنے بر ِصغیر کو تین چیزوں سے نوازا ہے اردو زبان، مرزا غالب اور تاج محل۔۔۔ لیکن آج کا مؤرخ جب بھی لاہور اورکراچی کی تاریخ رقم کرے گا یہ ضرور لکھے گا کہ ان شہروں میں بھی کئی چھوٹے بڑے تاج محل موجود ہیں۔ مغل بادشاہ شاہجہاں کے بنائے تاج محل کی وجہ ٔ شہرت ایک مقبرہ ہے آگرہ کے” تاج” اور کراچی لاہورکے” محل” میں کئی قدریں مشترک ہیں کچھ نہ کچھ یکسانیت بھی ہوگی یہاں بھی اپنے پیاروں کی یاد میں ایسے ایسے خوبصورت مقبرے بنائے ہیں کہ عقل حیران و پریشان رہ جاتی ہے کہ آج مادیت پرست معاشرے اور نفسا نفسی کے دور میں بھی لوگوں نے اپنے دل کے قریب رہنے والوں کو یاد رکھنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔
میں تیری یادکو یوں دل میں لئے پھرتاہوں جیسے فرہاد نے سینے سے لگائے پتھر
کراچی میں سخی حسن کے قدیمی قبرستان میں ایک وسیع و عریض مقبرہ اس قبرستان کا حسن ہے اس کی لمبائی چوڑائی کئی ہزار گز پیمائش کی جا سکتی ہے اس مزارکا بہت بڑا حصہ سنگ ِ مرمر سے تعمیرکیا گیاہے تاج محل کی طرح اس کا ایک گول اور بلندوبالاگنبدہے بہت بڑا صحن کئی جگہ پر ترتیب سے سبزہ لگاہواہے مزارکے احاطہ میں دو درجن کے قریب قبریں بھی ہیں جو سب کی سب سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ہیں بجلی کی روشنی میں ایسے محسوس ہوتاہے جیسے سفید رنگ کے پھول محو ِ خواب ہوں اس کی دیکھ بھال کیلئے کئی ملازمین ہر وقت موجودرہتے ہیں پورا شہر بھی اندھیرے میں ڈوب جائے یہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی یہاں دومنزلہ مسجد بھی موجودہے قبروںپر سیلنگ فین اور رنگ برنگے انرجی سیور بھی لگے ہوئے ہیں روشنی اور ہوا کیلئے بہت خوبصورت کھڑکیاں مہنگی لکڑی سے تیارکی گئی ہیںفرش پر امپورٹڈٹائلیں لگائی گئی ہیں دروازے،چوکھٹے،وارنش قیمتی لکڑی،ڈیزائن، رنگ و روغن اوردیگر لوازمات نے انتہائی خوبصورت بنا دیاہے اتنی سہولتیں شاید کسی عالیشان بنگلے میں بھی نہ ہوں اسی طرح لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب میں بھی درجنوں عالیشان مزار اورمقبرے بنے ہوئے ہیں یہاں بہت سے برگذیدہ اور مشہورشخصیات غازی علم دین شہید، حضرت واصف علی واصف، مولانا احمد علی لاہوری، حضرت طاہر بندگی، ساغرصدیقی مدفون ہیں بڑے مقبروںپر ہر جمعرات کو قوالی ہوتی ہے لنگرکا وسیع اہتمام بھی کیا جا تاہے چکن اور بکرے کے گوشت کی بریانی تو اب عام سی بات ہے غریب غربا ایسے مقبروںپر باقاعدگی سے جاتے ہیں بڑے بڑے احاطوںپر مشتمل ان قبروں میں کئی رنگوں کا سنگِ مرمر کا بلادریغ استعمال کیا گیاہے لاہورکے ماڈل ٹائون ،گلبرگ اورڈیفنس سے ملحقہ قبرستانوںمیں بھی طبقاتی فرق نمایاں ہیں لوگ انہیںVIPقبرستان سمجھتے ہیں یہاں قائم سوسائٹیاں ایک قبرکی جگہ کی قیمت کئی لاکھ وصول کرتی ہیںکوئی متوسط خاندان یہاں اپنے کسی عزیز کی تدفین کے بارے صرف سوچ سکتاہے عملاً رسائی ممکن نہیں۔۔لیکن یہاں آکر احساس جا گتا ہے۔
سب کہاں ! کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں خاک میں کیا کیا صورتیںہوںگی کہ پنہاں ہوگئیں
کراچی میں ڈیفنس فیز فورگزری کا قبرستان اس لحاظ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سلیم ناصر، سید محمد شفیغ،طاہرہ واسطی،ابراہیم نفیس، فوزیہ وہاب،سید کمال ، چوہدری اسلم رضوان واسطی اور دیگرVIPکی قبریں ہیںاس قبرستان میں چند قبریں ایسی بھی ہیں انتہائی جدید انداز کی تراش خراش والے جاپانی اسٹائل کی مشابہت والے لکڑی کے پائپوں اور شیڈ بھی بنے ہوئے ہیں جبکہ قبروں پر لگے کتبے بھی انتہائی قیمتی پتھرسے بنے ہوئے ہیں ایک قبرکے سرہانے قیمتی لگڑی کا امپورٹڈ بینچ بھی موجودہے جہاں بیٹھ کر سکون سے فاتحہ خوانی یا تلا وت کی جاسکتی ہے شاید دنیاکو یہ بتانا مقصود ہے کہ مرحوم معاشرے میں اعلی ٰ حیثیت کا مالک تھا اور اس کے لواحقین بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں اس کے برعکس جہاں جہاں غریبوںکی بستیاں ہیں یا جہاں متوسط طبقہ آبادہے وہاں قبروں اور قبرستانوں کا کوئی پرسان ِ حال نہیں اینٹ گاڑے سے بنی ، زمین میں دھنسی یا ٹوٹی پھوٹی قبریں اور ان پر اگی خودروگھاس،جڑی بوٹیاں عجیب لگتی ہیں کہیں سیوریج بندہونے سے قبرستان زیر ِ آب آ جاتے ہیں تو کہیں منشیات استعمال کرنے والوں نے اسے اپنی اماج گاہ بنا رکھاہے ایسے قبرستان جرائم پیشہ افرادکی پناہ گاہیں بھی ہیںقبضہ گروپ الگ جو قبریں مسمارکرکے مکان پلازے اور دکانیں بنا لیتاہے ہمارے ملک کے بہت سے قبرستان ایسی کئی ۔۔۔ کہی ان کہی داستانیں سناتے ہیں ان قبرستان کے مکین کسی کو حال ِ دل سنا سکتے تو یہ ضرور کہتے ہم یہاں بھی بے سکون ہیں ایک طرفVIPقبرستان اور دوسری طرف غریبوںکی آبادیاں جہاں جیتے جی مسائل ختم ہوتے ہیں نہ مرنے کے بعد اس سے چھٹکارا ملتاہے اس تضادکو دیکھ کر یہ احساس ہوتاہے مرنے کے بعد بھی سٹیٹس پیچھا کرتا رہتا ہے۔
اب تو گبھرا کر یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مرنے کے بعد بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے