کراچی (اسٹاف رپورٹر) آئین پاکستان کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری لازم ہے مگر ہر جمہوری دور میں اس آئینی تقاضے سے فرار کی روایت کے باعث آئین شکنی جمہوریت پسندوں کا وطیرہ و روایت بن چکی ہے۔ 1972 ءمیں ہونے والی مردم شماری سیاسی کشمکش کے باعث 1998 ءمیں ہوئی مگر اس کے بعد سے اب تک پاکستان اس آئینی تقاضے پر عملدرآمد سے محروم ہے۔
پاکستان راجونی اتحاد میں شامل ایم آر پی چیئرمین امیر پٹی ‘ خاصخیلی رہنما سردار غلام مصطفی خاصخیلی ‘ سولنگی رہنما سردار خادم حسین سولنگی ‘راجپوت رہنما عارف راجپوت ‘ ارائیں رہنما اشتیاق ارائیں ‘ مارواڑی رہنما اقبال ٹائیگر مارواڑی ‘ بلوچ رہنما عبدالحکیم رند ‘ میمن رہنما عدنان میمن‘ہیومن رائٹس رہنما امیر علی خواجہ اور خان آف بدھوڑہ یحییٰ خانجی تنولی ودیگر نے کہا ہے کہمسلم لیگ ن کی حکومت نے رواں سال مردم شماری کیلئے بجٹ مختص کیا اور مارچ 2016 ءمیں مردم شماری کرانے کا اعلان کیا مگر اب حکومت کی طرف سے غیر سنجیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مردم شماری کو فوج کی دستیابی سے مشروط کر کے آئینی تقاضے کی تکمیل سے راہ فرار کے ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں۔
راجونی اتحاد کے رہنماوں نے مطالبہ کیا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن اور مشترکہ مفادات کونسل میں صوبوں سے متعلق معاملات آبادی کی بنیاد پر ہی طے ہوتے ہیںاوراسمبلیوں کی نشستیں بھی آبادی کی بنیاد پر مختص ہوتی ہیں اس لئے حکومت 18 سال سے رکی مردم شماری کیلئے کسی عذر کا سہارا نہ لے اور فی الفور یہ آئینی تقاضا پورا کرے۔