اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ سال مارچ کے وسط سے ملک میں مردم شماری کروائی جائے گی۔
اس بات کا باضابطہ فیصلہ جمعہ کو وزیر اعطم نواز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مردم شماری اور خانہ شماری کا عمل ایک ساتھ شروع کیا جائے گا اور اس کو دو مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔
مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مردم شماری کا عمل صوبائی حکومتوں کے مربوط تعاون سے مکمل کیا جائے گا۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ مردم شماری وقت کی عین ضرورت ہے۔
’’جو مردم شماری کروانے کا اعلان ہے وہ بہت اہم ہے کیونکہ ہمیں پتہ چلنا چاہیئے کہ لوگ کتنے ہیں پھر جو وسائل کے بارے میں منصوبہ بندی ہے، اس کے علاوہ جو افرادی قوت ہے ان تمام چیزوں کے بارے میں بجٹ بنتا ہے وسائل کی تقسیم ہوتی اس کا پالیسی کا تعین (آبادی) کے تحت کیا جا سکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے عہدیدار احمد بلال محبوب نے کہا کہ مردم شماری صوبوں کو وسائل کی تقسیم کے حوالے سے ضروری ہے۔
“ہمارے مالیاتی وسائل کی تقسیم نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں ہوتی ہے، اس کے بھی بڑا حصے کا انحصار آبادی کے اوپر ہوتا ہے اگر نئی مردم شماری میں کسی صوبے کی آبادی بڑھ جائے گی تو پھر وسائل بھی اسی طرح تقسیم ہیں”
انہوں نے کہا کہ مردم شماری قومی اسبملی میں صوبوں کی نمائندگی کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہو گی۔
“قومی اسمبلی کے اندر جو صوبوں کی نمائندگی ہے کہ کس صوبے کے کتنے ارکان ہوں اس وقت جو نمائندگی ہے وہ آبادی کی بنیاد پر ہے تو جس طرح جس صوبے کی ملک کی کل آبادی میں شرح ہوتی ہے، اس شرح کے مطابق ان کی نشتینں ہوتی ہیں تو کسی صوبے کی نشستیں بڑھ سکتی ہیں اور کسی صوبے کی سیٹیں اس بنیاد پر کم بھی ہو سکتی ہیں۔”
پاکستان کے آئین کی رو سے ملک میں ہر دس سال کے بعد مردم شماری کروانا ضروری ہے تاہم ملک میں آخری مردم شماری 18 سال قبل ہوئی تھی۔
1998 میں ہونے والے مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13 کروڑ 80 لاکھ کے قریب تھی تاہم رواں سال جاری ہونے والے ملک کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی 19 کروڑ پچاس لاکھ کے قریب بتائی گئی۔