تحریر : واٹسن سلیم گل کسی بھی ملک میں مردم شماری کا اولین مقصد یہ ہی ہوتا ہے کہ اس ملک میں بسنے والے مختلف مزاہب، رنگ ، نسل اور زبان کے لوگوں کے اعداد و شمار کے تناظر میں ریاست کے معاشی ،سماجی اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اس کے علاوہ ان کی ریاست کے حوالے سے زمہ داریوں کا تعین کرنا ہے۔ تشریع مضید طویل ہو سکتی ہے مگر بات سمجھ میں آنی چاہئے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق مردم شماری ہر دس سال بعد ہونی چاہئے مگر ہوتی نہی ہے یا ہوتی بھی ہے تو آمروں کے ادوار میں ہوتی ہے۔ ویسے ترقی یافتہ ممالک مردم شماری کروانے کے جھنجھٹ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں میں ہر پیدا ہونے والے بچے اور ہر گزر جانے والے فرد کا ڈیٹا کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اسی ڈیٹا سے مجموعی آبادی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ ریاست کی تمعیر اور ترقی میں مردم شماری کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ اس سے ملک میں بسنے والے افراد کی تعلیمی، معاشی اور سماجی حیثیت کے حوالے سے کوائف اکٹھے کرنے سے حکومت کے نظام میں ان کے استمال میں مدد ملتی ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی مردم شماری کے حوالے سے بہت سے ریفرینسس دیے جاتے ہیں مگر حقیقی طور پر ان کا ثبوت نہی ہے مگر دنیا کی پہلی مردم شماری جس کا تحریری ثبوت ہمارے پاس بائبل مقدس میں موجود ہے۔
اس میں اگر آپ گنتی کی کتاب 26 باب اور خروج کی کتاب 30 باب کا مطالعہ کریں تو مسیح ابن مریم کی پیدائیش سے تقریبا 1500 سال قبل خدا تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو حکم دیا تھا کہ وہ بنی سرائیل کے ان کے بارہ قبیلوں کی گنتی کریں کریں۔ جن کو حضرت موسیٰ مصر کی غلامی سے آزاد کروا کر نکلے تھے۔ اور پھر ان قبیلوں کی تعداد اور ترتیب کے مطابق ان کو زمہ داریاں بھی سونپی گئ جیسے کہ کہانت کے فرائض لاوی قبیلے کے حصے میں آئ۔ اس کے علاوہ انجیل میں بھی ایک مردم شماری کو زکر ہے جو دو ہزار سال قبل عین اس وقت ہو رہی تھی جو مسیح ابن مریم کی پیدائیش کا وقت تھا۔
پاکستان میں 19 سال بعد سپریم کورٹ کے حکم پر مردم شماری کروانے کا فیصلہ کیا اس کے لئے فوج کی مدد لی گئ۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان میں آبادی میں اضافے کا تناسب 2،4 ہے جو کہ بہت زیادہ ہے جس پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ جبکہ خطے کے دیگر ممالک نے اپنی آبادی میں اضافے کو کچھ حد تک کنٹرول کر لیا ہے بھارت میں 1،25 فیصد بنگلادیش میں 1،2 فیصد ایران میں 1،27 فیصد اور چین میں 0،52 فیصد ہے۔ مردم شماری کے نتیجے میں سامنے آنے والے اعدادوشمار سے پاکستان کے سارے صوبے ہی ناراض ہیں مگر سب کے پاس نتائیج موجود ہیں سوائے اقلیتوں کے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق مردم شماری کے بعد ہونے والے الیکشن نئے اعداد وشمار اور ان کے نتیجے میں نئ حلقہ بندیوں کے تحت ہونے چاہئے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے اپنی تمام تر تیاریاں مکمل کر لیں ہیں۔ مگر بد قسمتی سے اقلیتوں کے اعداد و شمار ابھی تک سامنے نہی آئے۔ پاکستان کے مسیحیوں کو یہ امید تھی کہ شاید مسیحیوں کی جو آبادی گزشتہ 70 سالوں سے رک چُکی تھی شائد حالیہ مردم شماری میں کچھ قدم آگے بڑھی ہو۔ اور اس کے نتیجے میں ہماری نشستوں میں بھی اضافہ ہو۔ کیونکہ گزشتہ چالیس سال سے قومی اسمبلی میں مسیحیوں کی صرف چار نشستیں ہیں۔ جب کہ 1977 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کُل 206 نشستیں تھی جو آج 360 سے تجاوز کر چکی ہیں مگر مسیحی نمایندگی آج بھی وہ ہی ہے جو چالیس سال قبل تھی۔
حکومتی اعدادو شمار کے مطابق مسیحی ووٹوں کی تعداد 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے اگر ہم حکومت کی تعداد کو ٹھیک مان بھی لیں تواس حساب سے بھی اگر انصاف کیا جائے تو مسیحیوں کی قومی اسمبلی میں 15 نشستیں بنتی ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں بہت کم تعداد میں ایسے پارلیمنٹ ممبرز ہیں جو ایک لاکھ ووٹوں کی لیڈ سے جیتتے ہیں۔ ابھی بھی الیکشن میں چند ماہ باقی ہیں اگر ابھی بھی حکومت کی جانب سے سنجیدگی دکھائ جائے اور اقلیتوں کے اعداد و شمار کو سامنے لایا جائے اور ان کی روشنی میں اقلیتوں کی قومی اور صوبائ اسمنلیوں کی نشتوں میں اضافہ کیا جائے۔ تو یہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف ہوگا۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کو کوٹہ سسٹم کے نام پر لالی پاپ دینے کے بجائے کوٹے میں مردم شماری کے تناسب کے حساب سے اضافہ کیا جائے اورکوٹے کی منصفانہ تقسیم کو یقنی بنایا جائے
۔اس کے علاوہ پاکستان کی اقلیتیں بل خصوص مسیحی بڑی شدت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ کیونکہ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ کیونکہ ان کے نمایندے ان کے ووٹوں سے منتخب ہونگے تو ان کے سامنے جوابدہ بھی ہونگے نہی تو، موجودہ سسٹم میں تو مسیحیوں کے نام پر پارلیمنٹ میں آنے والے ان کی نمایندگی کے بجائے اپنے آقاؤں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ دوسرا دعویٰ مسیحیوں کا یہ بھی ہے کہ وہ اقلیتوں میں ہندوؤں سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ اور پورے پاکستان میں آباد ہیں۔ مگر پھر بھی ایک سازش کے تحت مسیحیوں کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔اس کا فیصلہ بھی مردم شماری کے نتایج کریں گے ،اگر موجودہ الیکشن میں اقلیتوں کو 2017 کی مردم شماری کے حساب سے نشستیں نہی ملی تو یہ ان کے ساتھ ظلم ہو گا اور ان کی حق تلفی ہو گی۔