تحریر : ممتاز ملک. پیرس کسی بھی قوم کے لیئے اس کے افراد کی تعداد، ان کو ملنے والی ضروریات زندگ اور اس کا معیار جاننا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے. دنیا کا ہر ملک ایک مقررہ عرصے کے بعد ان بات کا پابند ہوتا ہے کہ ان تفصیلات کو جمع کیا جائے اور ان معلومات کی بنیاد پر ہی قومی وسائل کو ملک بھر میں پہنچانا آسان ہو جاتا ہے.
پاکستان کی قوانین کے مطابق ہماری حکومت ہر دس سال کے بعد اس بات کی پابند ہے . اصولا تو اس بار 2017 میں ساتویں مردم شماری ہونی چاہیئے تھی لیکن 1991 کی مردم شماری 1998 تک لٹکانے کے حکومتی حملوں بہانوں نے یہ ہی کام اس بار بھی انیس سال کی تاخیر پر ڈال دیا . اب بھی اگر عدالتی حکم نہ ہوتا تو شاید موجودہ حکومت بھی دم سادھے بیٹھی رہتی . اور یہ چھٹی مردم و خانہ شماری ممکن نہ ہو پاتی. کئی سیاسی جماعتوں کو اپنے برج اس مردم شماری کے شطرنج میں الٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں . اسی لیئے کہتے ہیں کہ اپنی حکومتوں کے دوران سنجیدگی سے اپنے علاقوں اور عوام کی بہتری کے لیئے کام کیا ہو تو اس قسم کے خوف کی کوئی حقیقت نہ ہوتی.
اچھا کام کرنے والا سیاستدان، نمائندہ، کارکن ملک کے کسی بھی کونے سے یا مرکز سے اور کسی بھی پارٹی کی جانب سے جا کر الیکشن لڑیگا تو بھی وہ جیتے گا ہی .. آخر ہم ایک ایسے شخص کے نام پر ووٹ کیوں دیں جس نے پچھلے پانچ سال صرف اور صرف وقت گزاری کی ہو … ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہو … عوام کا پیسہ ایمانداری سے استمعال نہ کیا ہو …. اس مردم و خانہ شماری میں ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ اپنے کوائف پوری ایمانداری سے یہ سوچ کر درج کروائے کہ ان کی غلط معلومات حکومتی پکڑ میں آئیں تو بھی جرمانہ اور قید بھگتنا پڑیگا اور اگر پکڑ میں نہ بھی آئے تو اس ترقی اور حق سے محروم رہ جائیں گے جو دنیا میں بہت تیزی سے انہیں محرومیوں کا احساس دلا رہی ہے . ہمارے ملک میں کتنے لوگ اپنی ذاتی رہائش رکھتے ہیں یا کرائے کے گھر میں رہتے ہیں.
Census 2017
کچی بستی یا جھونپڑی اپنا کاروبار یا نوکری شہر میں رہتے ہیں یا دیہات میں کتنے مرد،کتنی خواتین، کتنے خواجہ سراء کتنے جوان، کتنے بچے کتنے بوڑھے، کتنے معذور کتنے بیاہے کتنے کنوارے کتنے پڑھے لکھے ، کتنے ان پڑھ اور اس سے بڑھ کر وہ سوال نامہ جس سے ہماری قومی سوچ کے دھارے کا تعین کیا جا سکے . کہ ہماری سوچ کس جانب بڑھ رہی ہے. اور اسے صحیح سمت ہر رکھنے کے لیئے کیا کیا کوششیں درکار ہیں…
اس بار کی مردم شماری اور خانہ شماری میں اپنے کردار کو بہت ذمہ داری سے ادا کیجیئے . اور اس بات کو یقینی بنائے کہ آپ کا گھر دکان دفتر کہیں اس گنتی میں شامل ہو ے سے رہ تو نہیں گیا . اگر ایسا یے تو فوری طور ہر متعلقہ اداروں کے دیئے گئے فون نمبرز پر رابطہ کیجیئے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تم یہ اندراج آپ کی آنکھوں کے سامنے پکے قلم یعنی بال پن کی مدد سے کر نہ لیا جائے.
آنے والے عملے کے یونیفارم اور عملے کو.خوب پہچانیئے. بلکہ یو سکے تو ان کی تصویر اپنے موبائیل سے بنا کر محفوظ کر لیئے … اسے گھر سے باہر ہی تمام معلومات فراہم کیجیئے . اگر کوئی عملے کا رکن آپ کے کوائف کو پنسل سے یا زبانی سنے اور اندراج نہ کر رہا ہو تو فورا اس کے ساتھ فوجی جوان سے شکایت کیجیئے وہ بھی نہ سنیں، تو شکایت سینٹر فون کر کے اس کی عملے کا حلیہ نام اور گاڑی کا نمبر نوٹ کروائیں. یہ سب اندراج آنے والے دس سال کے لیئے ہمارے ملک کی ترقی کا لائحہ عمل تیار کریگا . اور کون جانے آنے والے وقت کے دامن میں ملک پاکستان کے لیئے کتنی کامیابیاں اور کتنی خوشیاں پوشیدہ ہوں. انشاءاللہ.