بلا آخر ٢٢ سال کی جد وجہد کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین نے میدان مار لیا۔ مرکز میں اکژیت حاصل کی۔ وزیر اعظم کا حلف اُٹھالیا ۔ کہاں پیپلز پارٹی کے آصف علی زردای کا اپنی صدارت کے وقت ایوان صدر کے کچن پر صرف تحزین و آرائش کے لیے ٢٧کروڑ روپے کا خرچہ اور کہاں اب عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں حاضرین کی صرف چائے او ر بسکٹ سے تواضع۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ اُدھر کل سندھ کے وزیر اعلی کی حلف برداری کے موقعہ پرپُرتکلف کھانوں کی خبر بھی الیکٹرونک میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔ زرداری صاحب کے گھوڑے بھی تو مربے کھاتے رہے ہیں۔ کیانا اہل وزیر اعظم ان سے پیچھے تھے کہ لاہور میں زرداری صاحب کی جب جاتی امرا میں کھانے کی دعوت کی تھی تو ستر( ٧٠) قسم کے کھانے پیش کیے گئے تھے۔ رزداری صاحب کو پاکستان کے پراپرٹی ٹائکون ملک ریاض صاحب نے لاہور میں اربوں روپے سے تیار کیا گیابنگلہ تحفے میں پیش کیا تھا۔ کیا پبلک کے پیسے سے یہ بندر بانٹ نہیں تو کیا ہے؟ان حالات میں عمران خان وزیر اعظم پاکستان نے قائد اعظم کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جب پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا تو قائد اعظم سے ان کے اے ڈ ی سی نے معلوم کیاکہ کابینہ کے ممبران کو چائے پیش کی جائے یا کافی۔ تو قائد محترم نے فرمایا تھا کہ کیا یہ حضرات گھر سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے۔
قائد اعظم نے خلیفہ دوم کی یاد کی تھی کہ جب وہ مملکت کے کاموں سے فارغ ہو کر ذاتی کام کرتے تھے تو بیت المال کے پیسے کا چراغ گل کر دیتے تھے اور ذاتی پیسہ کا چراغ چلاتے تھے۔ کیا خلفائے راشدین نے سنت رسول ۖ پر عمل کر کے نہیں دکھایا تھا کہ ایک دفعہ حضرت عمر مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے گئے تو وہ ایک چٹائی پر سوئے تھے۔ ان کے جسم پر چٹائی کی نشان ظاہر ہو رہے تھے۔ حضرت عمر بے ساختہ رونے لگے۔ رسولۖ اللہ کے معلومکرنے پر بتایاکہ دنیا کے بادشاہ تو عیش اور آرام سے زندگی گراز رہے ہیں اور آپ مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ ہو ایک چٹائی پر سوتے ہیں۔۔۔دوسری تبدیلی بھی بڑی تاریخی ہے کہ خاتون اوّل بشریٰ بی بی صاحبہ بھی اسلامی پردے میں ملبوث وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئی۔ اس میں مغرب میں زندگی گزارنے والے وزیر اعظم پاکستان عمران اور پہلی دو بے پردہ، بلکہ مغربی زندگی میں غرق دو سابقہ بیویوں کے مقابلے میں اتنی بڑی تبدلی کو قبول کرنے پرعمران خان کی ہمت اور اسلام سے محبت کی داد نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ کیا انہوں نے علامہ اقبال کی روایات کو زندہ کیا ہے۔ حکیم امت علامہ شیخ محمد اقبال کو انگریز حکومت نے”سر” کے خطاب سے نوازہ ہوا تھا۔ ایک موقعہ پر انہیں حکومت انگلیشیہ کی طرف سے افریقہ میں اپنا نمائندہ بنا کر تعینات کیا ۔ ساتھ ایک شرط بھی رکھی کہ حکومت کے پروگروموں میں اپنی اہلیہ کو پردہ نہیں کرائیں گے۔ حکیم لا امت نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ایک عہدے کے لیے اسلام کی احکامات پر عمل سے اپنی اہلیہ کو قطعاً نہیں روک سکتا۔ اس موقعہ پر ان کا مغربی تہذیب پر تنقید کا ایک شعر یاد آ گیا۔ شاعر اسلام علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:۔ تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کے گی جو شاخ نازک پہ آشانہ بنے گا نا پائدار ہو گا۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی الیکشن مہم اور اس سے قبل ہر تقریر میں علامہ اقبال اور قائد کے وژن کے مطابق چلنے کا کہتے رہے ہیں۔ آج اپنی حلف برداری میں انہوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ یعنی تبدیلی آ گئی ہے۔ اب جن صوبوں میں ان کی حکومت بن رہی ہے ۔ ان میں بھی ایسی روایات کو برتنا چاہیے۔عمران خان نے ٢٢سال سے کرپشن کے خلاف مہم چلائی ہے۔پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر جس کوکچھ لوگوں نے تنقید کا حصہ بنایا ہم ان سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہیں گے کہ انہوں نے کون سی انہونی بات کی ہے۔اگر ان کو پہلی تقریر ہی نہ کرنے دی جائے اور ان کے سامنے عورتیں دوپٹے پھینکیں اور مرد شور شرابا کریں۔ تو ان کو شاباش دیں کہ آپ اپنا حق جمہورت ادا کر رہے ہیں۔کیا ملک میں اپنے منشور کے مطابق عمل کرنے والوں کو چھوڑ دیں اور اپوزیش کی بات مانیں۔ انہوں نے صحیح کہا کہ کسی بھی ڈاکو کو اب این اور آر نہیں ملے گا۔ ہر کرپٹ شخص کا احتساب ہو گا۔ الیکشن جینے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں بیٹھوں گا۔ چاروں گورنر ہائوسوں کو بھی کسی اور استعمال میں لائوں گا۔ اس پر بھی عمران خان وزیر اعظم پاکستان کو عمل درآمند کرنا چاہیے۔ اسلامی رویات کے مطابق حکومتی اخراجات میں بھی کفایات شعاری برتنی چاہیے۔ بیرونی قرضوں پر بھی ایک قومی پالیسی بنانی چاہیے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ سب سے پہلے میرا احتساب ہونا چاہیے۔ پھر میری کابینہ کا۔ اس کے بعد کسی اور کا۔ یہ اعلان بھی خوش آئند ہے۔ جس کی بھی دولت اس کی آمندنی سے زیادہ ہے اس پر مقدمے قائم کیے جائیں۔ اگر ان لوگوں پر کرپشن ثابت ہو جائے ان سے عوام کے خزانے کا لوٹا ہوا پیسا واپس لے کر قرضے ختم کیے جائیں۔ عمران خان نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جس بھی حلقے میں بقول اپوزیشن دھاندلی ہوئی ۔ اس کو حکومت کھولنے میں پس پیش نہیں کرے گی۔ اس پر عمل ہونا چاہیے۔ اپوزیشن کو مطمئن کرنا چاہیے۔ اس سے پارلیمنٹ کی کاروائی صحیح سمت میں چلے گی۔ عوام کے حق میں قانون سازی ہو سکے گی۔ عمران خان نے حکومت کے نظام کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست اور قائد کے اسلامی اور دو قومی نظریہ کے وژن کے مطابق کرنے کا بھی کہا تھا۔ اب عمران خان کو چاہیے کہ آئین پاکستان کی بنائی ہوئی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایک کر کے پاکستان کے سارے غیر اسلامی قوانین کوقرآن و سنت کے مطابق بنانے کا آغاز کریں۔
ملک کی ساری دینی جماعتیں اور ملک کی خاموش اکثریت جو اس کام کا اکتر(٧١) سال سے انتظار کر رہی ہے۔ ان کا ساتھ دی گی۔ پاکستان اللہ کے نام سے وجود میں آیا تھا۔ اگر لا الہ الا اللہ کا نظام رائج کر دیا ہوتا تو مشرقی پاکستان ہم سے قومیت کی بنیاد پر دشمن پاکستان شیخ مجیب اور بھارت کی فوج کشی سے علیحدہ نہ ہوتا۔ اگر مسلمان ایک ہزار سال تک دنیا کے ایک بڑے حصے پر خلافت کے نظام کے تحت سیکڑوںقوموں،زبانوں، تہذیبوں اورثقافتوں والے لوگوں کو ایک مرکز پر جمع کے کامیاب حکومت چلا سکتے ہیں تو کہا وجہ تھی کہ بنگالی قومیت کو پاکستان کے ساتھ ملا کر نہ ر کھ سکے۔ ہمارے نزدیک حکمرانوں نے آزادی کے وقت اللہ سے جو وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ” اس پر عمل نہیں کیا۔ جس وجہ سے دشمن نے ہمارا ایک بازو ہم سے کا ٹ دیا۔ اللہ کرے عمران خان اپنے وعدے پورا کرے اور پاکستان کو بانی پاکستان کے وژن کے مطابق مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنائے۔ آغاز تواچھا ہے اللہ انجام بھی اچھا کرے گا۔آمین۔