وسطی جمہوریہ افریقہ میں مسلمانوں پر ٹوٹی قیامتیں

Bangui

Bangui

میں وسطی افریقہ کاہی رہنے والاہوں…میں یہیں پیداہوا…میرے والدین بھی یہیں فوت ہوئے۔ ان کی قبریں بھی یہیں ہیں۔میں ملک چھوڑ کر نہیں جاؤں گا… ہوسکتاہے کہ اس ملک کامیں وہ آخری مسلمان ہوں جو مقامی عیسائیوں کے ہاتھوں قتل ہوجائے اور پھرمیرے قتل سے اس ملک سے آخری مسلمان کابھی خاتمہ ہوجائے۔ 10 فروری 2014ء کوبی بی سی ورلڈ نے وسطی جمہوریہ افریقہ کے دارالحکومت بنگوئی سے ایک امام مسجد کی یہ گفتگو نشرتوکی لیکن خوف اور ڈراس قدرتھاکہ اس امام کا اصل توکجا’ فرضی نام بھی شائع نہ کیاگیا۔

وہ امام بتارہاتھا کہ دارالحکومت بنگوئی کی تمام مساجد کوجلادیاگیاہے۔مسلمانوں کے گھر اوردکانیں لوٹنے کے بعدجلا کر راکھ کے ڈھیر بنادی گئیں ہیں۔ ہمارے علاقے میں 30 ہزار کے لگ بھگ مسلمان بستے تھے لیکن اب ان میں سے 500 ہی بمشکل بچے ہیں اوروہ بھی اس آس اور امید پرچھپ کررہ رہے ہیں کہ ہوسکتاہے کہ حالات بہتر ہو جائیں تووہ دوبارہ سے گھر بسا سکیں لیکن یہاںتوبے شمار مسلمانوں کوقتل کیاجاچکاہے اور بچ جانے والوں کاقتل عام جاری ہے۔ امام صاحب بتارہے تھے کہ اگرحملہ آوردہشت گرد عیسائیوں کوپتہ چل گیا کہ آپ کانام محمد’عثمان یاابراہیم ہے توسمجھ لیجئے کہ آپ کی خیرنہیں ہے اورصرف خوفناک موت ہی آپ کے حصہ میں آئے گی۔ہم جوچندلوگ یہاں رہ گئے ہیں ‘ان کی حفاظت تو اللہ ہی کررہاہے اورہمیں اس سے ہی حفاظت ومددکی امیدہے’ باقی توکسی سے کوئی امید نہیں۔ امام صاحب نے یہ الفاظ اداکیے اورخاموش ہو گئے۔

وسطی جمہوریہ افریقہ جس میں مارچ 2013ء میں 20 سے 25 فیصد تک آباد ی رکھنے والے مسلمانوں کا نمائندہ ایک شخص مشعل جو تیدیاپہلی بار ملک کاصدر کیا بنا مسلمانوں کی تو شامت کاآغاز ہوگیااور پھراس ملک سے قبضہ ختم کرنے والے فرانس نے یہاں باقاعدہ فوج بھیج کر مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑدی۔ اس ملک کو فرانس نے 13 اگست 1960 میں آزادکیا تھا ۔ملک کی کل آبادی لگ بھگ 45لاکھ ہے اور یہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

مارچ 2013 میں صدر بننے والے مشعل جوتیدیا مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے اس مسلح گروپ کے سربراہ بھی تھے جس کا نام سلیکا تھا ۔ اسی گروپ نے مارچ 2013 میں ملک کے صدر بوزیزی کو اقتدار سے بزور طاقت نکال باہر کیا تھا۔اس وقت مسلمانوں کے ساتھ عیسائی اور ملک کے بے دین توہم پرستوں کی بڑی تعداد بھی ان کی حامی تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سارے عوام بے تحاشہ کرپشن، لوٹ مار اور مسلسل بد امنی سے سخت تنگ تھے۔مشعل جوتیدیا نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی فوج نے انہیں فاتح سمجھ کر حکمران تسلیم کیا۔ لیکن افریقی یونین نے اس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیااور مطالبہ کر دیا کہ ملک میں فوری طور پر نئے انتخابات کرائے جائیں۔مشعل جوتیدیا نے 18 ماہ بعد انتخابات کا بھی وعدہ کیا لیکن اسے افریقی یونین نے مسترد کر دیا۔مشعل جوتیدیا کے اقتدار سنبھالتے ہی فرانس نے اس مفرور بوزیزی کے حامیوں کو ابھارنا شروع کیاجس نے شکست کھانے کے بعد پہلے ملک سے بھاگ کرجان بچانے کے لئے کانگوکا رخ کیا ،پھر کیمرون میں تھوڑا قیام کرنے کے بعد چاڈ میں پنا ہ لی ۔

بوزیزی کو پناہ دینے والے اسی چاڈ نے گزشتہ سال بد امنی اور خانہ جنگی کا بہانہ بنا کر سب پہلے فرانس کے ہمراہ اپنی افواج داخل کیں۔یہ خانہ جنگی بھی دراصل فرانس اور چاڈ کے باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھی ۔اس بات کا سب بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ جنوری 2014 میں جب مشعل جوتیدیا کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو اس کا معاہدہ چاڈ میں ہی ہو ا اورپھر مشعل جوتیدیا نے ہمیشہ کے لئے جلاوطنی کا بھی وعدہ کیا کہ مسلمانوں پرمظالم رک جائیں لیکن وہ مظالم رکنے کے بجائے ہر روز بڑھتے ہی گئے۔

Christians

Christians

ان مظالم کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب فرانسیسی حمایت اور چاڈ سے مدد لے کر عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر”اینٹی بلاکا” کے نام سے تنظیم بنائی گئی اور پھرتیزی سے اس تنظیم کو مسلح کرنے کاکام شروع کردیاگیا۔ اکتوبر 2013ء میں باقاعدہ حکومت مخالف جنگ شروع کروا کر فرانس نے 16 سو فوجی بھیج دئیے اورپھربڑے پیمانے پرخانہ جنگی شروع ہو گئی۔سب سے پہلے حکمران مسلم گروپ سلیکاکو سب سے پہلے ہر صورت غیرمسلح کرنے کا کام شروع ہوا۔دنیا میں پراپیگنڈا یہ کیا گیا کہ سلیکا گروپ اپنے مخالفین کے قتل عام میں مصروف ہے ۔سی بنیاد پر دفاع کے نام پر عیسائیوں کواسلحہ اور پیسہ دیا گیا اور پھر جنگ تیز تر کر کے مسلم صدر مشعل جو تیدیا کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

اس وقت ملک کے تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو افواج فرانس اور افواج افریقی یونین کی نگرانی میں مارمار کر ملک سے بھگادیاگیاہے۔5لاکھ سے زائد ملک کے اندر ہی جگہ جگہ ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ 20 ہزار کے لگ بھگ کو انتہائی خوفناک طریقے سے قتل کر دیاگیاہے۔جن کی لاشیں بھی دفنانے والاکوئی نہیں۔ مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں اورمحلے اب راکھ کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں۔

وسطی جمہوریہ افریقہ کے اس ملک سے جانیں بچانے کے لیے بھاگنے والے لاکھوں مسلمانوں کی چاڈ’ کیمرون’ کانگو’ نائیجیریا’سوڈان کے ممالک اگلی منزلیں ہیں لیکن …لٹے پٹے گھرانے’ بھوک وپیاس سے بلکتے بچے’عورتیں’بوڑھے’زخمی اور پھر لمباسفر کوئی زادِ راہ بھی نہیں… کتنے ہیں جو جگہ جگہ تڑپ تڑپ کراور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے رہے ہیں اوران پرکوئی ترس کھانے والا’ آنسو بہانے والا بھی نہیں۔دارالحکومت بنگوئی کے رہنے والے ایک امام مسجد جن کانام مہاجرہے ‘بتارہے تھے کہ اینٹی بلاکا کے عیسائی ہمارے گھر پرحملہ آورہوئے۔ انہوں نے میرا جواں سال بیٹاپکڑلیااور پھر اسے بازار کے چوک میں لے جاکر قتل کر دیا۔میں ایک دیوارکے ساتھ چمٹ کر اس اندازمیں کھڑا ہوگیا کہمیں نے ہتھیارڈال دئیے ہیں اورمیں ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں لیکن انہوں نے مجھے دیکھتے ہی میرے پیٹ میں 2اور میری ٹانگ میں ایک گولی ماری۔ میں وہیں گر گیا اور وہ مجھے خون میں لت پت مرنے کے لیے چھوڑ کر چلے گئے لیکن پتہ نہیں میں کیسے بچ گیا۔

ایک اور مسلمان جس کانام دیروسوباتھا’ نے بتایا کہ اینٹی بلاکا کے حملہ آوردہشت گرد عیسائی جب ہمارے پاس پہنچے تو ان کا سب سے پہلانشانہ میرے والدبنے جوانتہائی کمزور و لاغر تھے اورچل پھرنہیں سکتے تھے کہ وہ بھاگ کر جان بچالیتے۔ میرے والد گاؤں میں درخت کے نیچے ایک چٹائی پر بیٹھے تھے کہ حملہ آور نے میرے سامنے میرے والدکوگرا کر بڑے چُھرے کے ساتھ ان کا سر تن سے جداکردیا۔اس حملے میں ان حملہ آوروں نے میرے خاندان کے 12 افراد کوانتہائی بے دردی سے مار ڈالا۔میرے خاندان میں ان کانشانہ بننے والوں میں سب سے کم عمر ہمارے خاندان کی ایک بچی تھی جس کی عمر صرف 6 ماہ تھی۔

ملک سے مسلمانوں کو بھگانے میںفرانس کاہی بنیادی اور پورا پورا ہاتھ ہے جس کی فوج کی نگرانی میں یہ کارروائی شروع ہوئی اور اس کاسلسلہ جاری وساری ہے۔ ظلم کی انتہایہ ہے کہ جب ہزاروں مسلمان دارالحکومت بنگوئی چھوڑکربھاگ رہے تھے توجگہ جگہ عیسائی اس پرفتح کا جشن منارہے تھے اورخوشی سے نعرے لگارہے تھے۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے لکھا کہ بھاگتے بھاگتے ایک مسلمان ٹرک سے پھسل کرنیچے کیاگرا’آس پاس کھڑے عیسائی اس پرٹوٹ پڑے اور اسے انتہائی خوفناک طریقے سے پیٹ پیٹ کر وہیں مارڈالا۔ 38 سالہ سلمان محمد صالح یحییٰ اپنی بیوی اور 5 بچوں سمیت دارالحکومت سے مغرب میں واقع قصبہ یالو کے سے جان بچاکربھاگااور ائیرپورٹ پہنچاتھا۔وہ بتا رہا تھا کہ عیسائی حملہ آورمسلمانوں کوخنجروں اور تلواروں سے مار رہے تھے۔اس نے اپنی گردن پرانگلی پھیرتے ہوئے اشارے سے بتایاکہ وہ اس انداز میںمسلمانوں کو ذبح کر رہے ہیں ۔صالح یحییٰ نے مزیدبتایاکہ میں نے 2 سال کی دن رات محنت سے اپناگھر بنایاتھالیکن عیسائیوں نے حملہ کرکے منٹوں میں اس کاصفایاکردیا۔

ائیرپورٹ پرہی ملک چھوڑنے کے لیے ایک مسلمان 62 سالہ محمدعبدالرحمن بھی موجودتھا۔انہوں نے بتایاکہ میرے گاؤں کانام جباوی ہے۔ ہماراگاؤں مسلم اکثریتی تھا۔ یہاں عیسائی اینٹی بلاکانے حملہ کرکے سارا ہی گاؤں تباہ وبرباد کرکے رکھ دیااورگاؤں کے لوگوں بشمول عورتوں اور بچوںکے انہوں نے سب کو ہی مارڈالا۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے کچھ پہلے ہی حالات کاادراک ہو گیا تھا اورمیں نے حملے سے تھوڑی ہی دیرپہلے بچوں سمیت گاؤں چھوڑ دیا تھا جس سے محض میری اور میرے خاندان کی جان بچ سکی۔ عبدالرحمن نے بتایا کہ وہ 50 سال پہلے چاڈسے یہاں آبسے تھے۔ اب 50 سال بعد ہمارا سب کچھ تو یہاں تھا۔ ہم چاڈچلے توجائیں لیکن ا ب وہاں ہمارا کون ہے؟ ہمیں کون جانتاہے؟ہم نہ ادھر کے رہے اورنہ ادھر کے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen


تحریر: علی عمران شاہین