اور پھر سنچری پوری ہو گئی!

Library

Library

ہوش سمبھالتے ہی میری مطالعے کی عادت بن گئی تھی اسی وجہ سے گھر میں چھوٹی سے لائبریری بھی قائم ہو گئی جون 2010ء میں اللہ نے میرے دل میں خیال ڈالا کہ یہ جو تم نے جو مطالعہ کیا ہے یا کر رہے ہو وہ تو تمھاری موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے اس سے دوسروں کو کیا فائدہ ہوا،پس میں نے لکھنا شروع کر دیا میرے دل میں یہ عزم تھا کہ کم از کم ایک سو اخبارات میں میرے مضمون شائع ہونے چاہیں میں نے اخبارات کو مضمون بھیجنا شروع کیے۔

میرا پہلا مضمون ١٩ جولائی 2010ء اسلام اخبار کراچی میں شائع ہوا لکھنے کا تجربہ نہ تھا دوسرا کمر میں تکلیف کی وجہ سے ایک انگلی سے کمپوزنگ خود کرتا ہوں اس لیے شروع میں کمپوزنگ کی غلطیاں ہوتی تھیں لیکن میں اخبارات کے ایڈیٹرز، خاص کر کراچی کے ایک اخبارکا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میری غلطیوں کی نشان دہی کی اور میرے مضمون بہتر سے بہتر ہوتے گئے …..پراگریس کچھ اس طرح ہے کہ 2010ء میںچھ ا خبارات میں37 میں مضمون شائع ہوئے،2011ء میں پندرہ اخبارات میں384 اور2012 ء میں ستاون میں679 مضمون شائع ہوئے اس وقت تیس اکتوبر2013 ء تک الحمداللہ ایک سوسات اخبارات میں1027مضمون شائع ہوچکے ہیں اللہ نے میری خواہش پوری کر دی اور پھرماشاء اللہ” سنچری پوری ہو گئی” اس وقت ایک سو دو اخبارات،رسائل اور ویب سائٹز میں میرے مضامین شائع ہو رہے ہیں اللہ نے زندگی اور صحت دی تو انشاء اللہ تعداد مزید بڑ تی جائے گی۔ ظاہر ہے ایک سو سات اخبارات نہ میںخرید سکتا اور نہ یہ ممکن ہے اس لیے جو اخبارات نیٹ پر آتے ہیں ان ہی میں سے ریکارڈ مرّتب کیا ہے جو اخبارات نیٹ پر نہیں آتے ان میں سے کچھ مہربانی کر کے مجھے بھیج دیتے ہیں اور کچھ زبانی بتا دیتے ہیں اور کچھ کا پتہ نہیں چلتا کہ میرے مضمون شائع ہو رہے یا نہیں ہیں ریٹائرڈ لائف ہے بچوں نے معاشی ذمہ داری سے سے فارغ کر دیا ہے۔

اس لیے میں روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن، حدیث و اخبارات کے مطالعے کے بعدصبح 10 بجے سے مغرب تک کمپیوٹر پر بیٹھتا ہوں پھر رات گئے تک ایک سیاسی جماعت کے دفتر میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے جاتا ہوں دن میں کم از کم چار گھنٹے نیٹ پر اخبارات دیکھتا ہوں اخبارات کی ہیڈنگ پڑھنے کے بعد ان میں شائع شدہ اپنے مضامین کو پک کر کے ڈیکس ٹاپ پر لوڈ کرتا ہوں اس کے بعد اپنی فیس بک(w.mirafsaramanfacebook.com (http://ww اور بلاگ اسپاٹ http://www.mirafsaramanblogspot.com) پر پیسٹ کرتا ہوں اس کے بعد مضامین کا پرنٹ نکال کر ریکارڈ کے لیے فائل کر دیتا ہوں اس دوران کچھ وقت مطالعے میں بھی گزرتا ہے بھلا ہو بجلی والوں کا اس دوران جب جب بجلی جاتی ہے اس وقت آرام کر لیتا ہوں یہ 2010ء سے میرا روز کا معمول ہے اخبارات کو مضمون ای میل کرنے کے بعد ایس ایم ایس کر کے ایڈیٹرز حضرات کو مطلع کرتا ہوں تا کہ لا تعداد ای میلز میں سے میرا مضمون گم نہ ہو جائے۔

Essayists

Essayists

آپ کہیں گے انتی تعداد میں ایڈیٹرز حضرات سے رابطہ کیسے ممکن ہوا؟، ایڈیٹرز کے موبائل فون کیسے حاصل کئے؟ ایڈیٹرز سے رابطہ کیسے ہوتا ہے جب ایک سو دواخبارات میں مضمون شائع ہوتے ہیں تو کتنے اخبارات کو مضمون بھیجے جاتے ہونگے ظاہر ہے سب کے سب تو شائع نہیں کرتے یہ اور کچھ اور باتیں ہیں جن کو میں محترم قارئین اورایڈیٹرز حضرات سے شیئر کرنا چاہتا ہوں تا کہ مجھ جیسے نئے کالم نگاروں کے لیے آسانی پیدا ہو جائے(ا) زیادہ تر فون نمبر اخبارات کے ایڈیٹوریل صفحوں پرلکھی تفصیل سے حاصل ہوتے ہیں مگر کچھ اخبارات کے صفحوں پرانے فون نمبر پرنٹ ہیں جو یا تو تبدیل ہو گئے یا کسی نہ کسی وجہ سے بند ہیں ان کو اگر اپ ڈیٹ کر دیا جائے تو رابطہ کرے والے لکھاریوں کی لیے آسانی ہو جائے گی اس جگہ اگر ای میل بھی پرنٹ کر دی جائے تو بہتر ہے(٢) تجربے میں آیا ہے اورکچھ بڑے اخبارات کا کہنا ہوتا ہے مضمون نگار صرف ان ہی کی اخبار کے لیے لکھیں یہ سینئر نامی گرامی لکھاریوں کے لیے تو صحیح ہے لیکن نئے لکھنے والوں کو اس کا پابند نہ کیا جائے تو اچھا ہے اس سے ٹیلنٹ رک جاتا ہے بڑے اخبارات اگر نئے لکھاریوں کی لیے جگہ مہیا کر دیں تو ان کی حوصلہ افضائی ہو گی کافی اخبارات نے ایک صفحہ پرانے لکھاریوں اور ایک صفحہ نئے لکھاریوں کے لئے مختص کیا ہوا جو مثالی ہے آخرنئے لکھاریوں کی اخبارات نے ہی تربیت کرنی ہے (٣)جن نئے مضمون نگاروں کے مضمون سالہ سال سے کسی اخبار میں شائع ہو رہے ہیں اگر ممکن ہو سکے تو ان کو اخبار کسی نہ کسی قسم کا سرٹیفکیٹ دیں تاکہ ان کی خوصلہ افزائی ہو( ٤) اخبارات کی ایسوسی ایشنز نئے لکھاریوں کے لئے تربیت کے پروگرام ترتیب دیں تو ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔(٥)جن اخبارات نے مضمون شائع کئے اور کر رہے ہیں اورمیری حوصلہ افزائی کی ان کا تحہ دل سے شکر گزار ہوں اور جن اخبارات نے شائع کر نے کے بعد بند کر دیے کہ ان ہی کے لیے لکھوں ان سے گزارش ہے کہ وہ مہربانی کر کے نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کچھ پالیسی نرم ریں۔

قارئین! صحافت مملکت کی عمارت کا چوتھا ستون کہلاتا ہے اس لئے اس کی اہمیت اورذمہ داری مسلمہ ہے مضمون نگار معاشرے کا عکس اپنے قلم کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ غلطیوں کی نشاندہی اور اچھاہیوں کو اجاگر کیا جائے مضمون نگار اگر کسی سیاسی جماعت یاکسی حکومت کا حامی ہے پھر بھی اسے غیر جانبداری سے سیاسی پارٹی یا حکومت کی غلط پالیسیوں کا تجزیا کرنا چائیے اور ان کی اچھائیوں کو بھی بیان کرنا چائیے پسند اور ناپسند کا معیار سچ اور حق ہونا چاہیے اور اسی کو بیان کرنا چائیے مخالف کی اچھی باتوں کو بھی برملا بیان کرنا چائیے معاشرے کامعمار ہونے کے ناطے برائیوں کو ختم کرنے اچھائیوں کو پروان چرانے کے لئے مضمون نگاری کرنی چائیے اس کے ساتھ ساتھ مضمون نگار کا گہرا اور مسلسل مطالعہ ہونا چاہیے ہمارا دین بھی سچ کی گواہی کو چھپانے سے منا کرتا ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”اور شہادت ہر گز نہ چھپائو”(البقرة٢٨٣) مضمون نگار تو حق کی شہادت دینتے والا اور مجسم سچ ہوتا ہے۔

مضمون نگار کو مسائل کو اجاگر کر کے اس کے حل بھی تجویز کرنا چائیے نہ کہ صرف مسائل کو ہی اُچھالا جائے تنقید برائے تنقید اور ناجائز تنقید سے اجتناب کرنا چاہیے الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں آج کل بیرونی تہذیبیں اسلامی تہذیب پر حملہ آور ہو رہی ہیں اس کے ادراک کی کوشش کرنی چاہیے خاص کر برصغیر میں دو قوموں کے درمیان سرد جنگ ہو رہی ہے ایک قوم اپنی عوام کو یہ سبق یاد کرواتی رہتی کہ باہر سے آکر ہمارے اوپر ایک ہزار حکومت کرنے والوں پر اب ہماری اکثریت کا حق ہے کہ حکومت کریں اس لیے ہمارا پڑوسی ملک سرے سے ہمارے وجود کا ہی منکر ہے وہ اکھنڈ بھارت کے فارمولے پر کام کرتے ہوئے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہتا ہے۔

ہمارے ایک بازو کو ہم سے جدا کر چکا ہے اور اب کراچی، بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں ہمارے دشمنوں سے ملکر دہشت گردی کر رہا ہے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اس پر ہماری گہری نظر ہونی چائیے پاکستان ہے تو ہم ہیں اس کے استحکام اور سلامتی کے لیے کوششیں کرنی چائیے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں مضمون نگاری کرتے وقت ان سارے امور پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہوں اللہ ہم سب کو حق و سچ بیان کرے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
ای میل mirafsaraman@gmail.com