اکیسویں صدی کا بلوچستان اور پتھر کا زمانہ

Development

Development

تحریر : الیاس رئیس بلوچ
پتھر کا زمانہ تو صدیوں پہلے ختم ہو چکا، انسان اب تو ترقی اور خوش حالی کے اس جہان میں پہنچ گیا ہے، جس کا تصور ایک صدی پہلے ممکن نہیں تھا۔ یہ سڑکیں، ہسپتال، اسکول، بجلی، گیس تو بیسویں صدی کی سہولتیں تھیں، اب تو لوگ ان کی عدم دستیابی کے امکان کے بارے میں سوچ ہی نہیں ہی رہے۔

اب تو باقی دنیا ان سہولتوں کو سہولتیں ہی نہیں سمجھ رہی۔ اب توباقی دنیا یہ سوچ رہی ہیے کہ مریخ پر کیسے پہنچا جائے اور نئے جہانوں کو کیسے تسخیر کیا جائے۔ اب تو کلک کا زمانہ ہے جہاں ہر چیز آنکھ کے آشارے سے ہو جاتی ہے۔ انسان اپنے روزمرہ کاموں کے لیے روبوٹ کا سہارا لے رہا ہے۔ دنیا اب ٹچ اسکرین، گوگل، فیس بک، ڈرون، روبوٹ، بغیر ڈرایئور کی گاڑیاں، آئی فون، سیمسنگ، جدید سہولیات، آرام دہ زندگیوں، جدید طبی آلات، کمپیوٹر، مصنوعی بارش، ایچ ڈی، 4 یا 5 جی جیسی اصطلاحات کو سمجھتی ہے۔

باقی دنیا بھوک، افلاس، غربت، ناخواندگی، احساسِ محرومی، ناامیدی، بے بسی، لاچارگی، مایوسی، جہالت، ملیریا، ٹی بی، پولیو، جوہڑ کا پانی، ہیضہ، تپ دق، زجگی کے دوران اموات، کچے گھر، ٹوٹی سڑکوں، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، خوف، رابطے نا ہونے جیسی اصطلاحات سے اب تقریبآ نا آشنا ہوچکی ہے، اور اکیسویں صدی کی سہولتوں کے مزے لے رہی ہے۔

لیکن افسوس بلوچستان کے لوگ اب بھی صرف انہی اصطلاحات سے نہ صرف آشنا ہیں بلکہ روز ان کی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مصائب کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ روز ان کو ہسپتال نا ہونے، اگر ہسپتال ہے تو ڈاکٹر نا ہونے، اگر ڈاکٹر ہے تو ادویات اور جدید آلات کے نا ہونے، اسکول ہے تو ٹیچرز کے نا ہونے، مواصلات کے نظام نا ہونے، جان و مال کا تحفظ نا ہونے، کا رونا رونا پڑتا ہے۔

Balochistan

Balochistan

اگرآج آپ کو دنیا میں کہیں پتھر کا زمانہ دیکھنا ہو تو بلوچستان آ جائیں، جہاں آج بھی کئی جگہوں پر بجلی، گیس، ٹیلی کمیونیکیشن، ہسپتال، اسکول، سڑکیں، صاف پانی، امن و امان ایک خواب کی طرح لگتے ہیں۔

وہ تو بھلا ہو عرب ممالک کا جہاں بلوچ مزدوری کر کے اپنے گھر والوں کے لیے چند پیسے بھیج رہے ہیں، وگرنہ لوگ تو بھوک سے مرجاتے۔ میں کہتا ہوں آج عرب ممالک سے بلوچوں کو نکل دیں، ایران باڈر بند کردے تو بلوچستان کی 80 فیصد آبادی بھوک اور بے روزگاری سے مرجائے گی۔ مر کیسے نا جائے گی جب یہاں نا تو صنعتیں ہیں اور نا ہی زراعت کا شعبہ فائدہ مند ہے۔ مانا زمین زرخیز ہے لیکن پانی کی کمی ہے، بارشیں کم ہوتی ہیں، بجلی اگر ہے بھی تو اکثر غائب رہتی ہے۔ ایسے میں لوگ کہاں سے اپنا رزق تلاش کریں۔

ستر سال سے حکومتیں آ جا رہی ہیں، بجٹ بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن بلوچستان کے لوگوں کی زندگیاں نہیں بدل رہیں۔ اعلانات ترقی کے بڑے دعوے تو روز سننے کو ملتے ہیں لیکن تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہر آنے والی حکومت کا وہی پرانا وطیرہ ہوتا ہے، بس وہی پرانی باتیں، ترقی اور خوش حالی کے نئے دعوے، پرانی حکومتوں کو ان سب مسائل کا ذمہ دار سمجھ لینا، پگڑیاں اچھالنا اور پھر ترقی کے نام پر ایک نیا ڈرامہ کرنا اور خاموش ہو جانا۔ لیکن عملی طور پر کچھ نا کرنا۔ اگر کوئی آواز اٹھائے تو اسے ترقی کا د شمن کہہ کر غدار قرار دے دینا۔

ترقی تو اس چیز کا نام ہے جہاں لوگوں کی زندگی میں عملی طور پر تبدیلی آئی، ان کو سہولتیں ملیں، لیکن ایسا تو کچھ نظر نہیں آ رہا۔

بس جانے کب مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ کب لوگوں کو بنیادی سہولتیں میسر آئیں گی۔ جانے کب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار مل جائے گی۔ جانے کب خوش حالی آئے گی۔ جانے کب یہاں موت کا رقص ختم ہوگا۔ جانے کب خوف کی فضا ختم ہوگی۔ جانے کب مرجھائے چہروں پر زندگی کی رونق ہوگی۔ ۔ ۔ جانے کب؟

Ilyas Raees

Ilyas Raees

تحریر : الیاس رئیس بلوچ