کراچی : آج سن، قومی مرکز میں اپنے عظیم رہبر سائیں جی ایم سید کے 113 ویں جنم دن کے موقعے پر ان کی شاندار جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جمع بیں۔ سید نے اس ملک کے اندر انصاف، برابری اور قوموں کے وجود کے اقرار اور ریاست کو مذہب سے الگ کر کے چلانے کے لئے جو نکتہ نظر پیش کیا وہ اس ریاست کے مستقل طور پر قابض قوت، مدے خارج فرسودہ نظام اور مذہبی انتہا پسندی اور قوموں کے وجود سے انکار پر مبنی نظام کے تحت چلاتے رہے ہیں۔ جس کا آسان فارمولا یہ ہے کہ بدعنوانی اور عدم برداشت کا پہیلائو اور بڑہائو، روشن خیال اور ترقی پسند قوتوں کا راستا روکنا، قید و بند کی سلاخیں اور ٹارچر سیل کے علاوہ اب نئیں ڈاکٹرائیں تحت جبری گمشدگیاں اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کی صورت میں جاری ہے۔ جمہوریت اور پارلیامنٹ پنجاب کے تابع ہیں۔ سارے کے سارے انسانی حقوق معطل کیے ہوئے ہیں۔
مدرسہ فیکٹریاں عروج پر ہیں، صحتمند سرگرمیاں اور جدید نظام پابند سلاسل ہیں۔ حالت زار تو یہ ہے کہ سندہ اسمبلی متفقہ طور پر منارٹیز کے تحفظ کے لئے قانون سازی کو بہی ملوں اور انتہا پسندوں کی دہمکیوں کے نذر کر کے ردی کے حوالے کر دیتی ہے۔ اس انتہا پسندانہ اور اندہیروں کے رکہوالوں کا فکر رکہنے والوں کی وجہ سے سندہ وطن پسماندہ معاشی بدحالی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس ریاست کے اندر ترقی صرف پنجاب کے لئے مخصوس ہے۔ سندہ کے پانی پر ناجائز اور عالمی قانون فطرت کے خلاف قبضہ کیا ہوا ہے۔ اقتصادیات، این ایف سی ایوارڈ کو آبادی کی بنیاد پر پنجاب قابض ہے۔ اس سلسلے میں سندہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو نوٹیس لے کر وزیر اعلیٰ سندہ اور ساری سندہ اسمبلی پر کیس داخل کرنا چاہیے اور پوچہنا چاہیے کہ اس فیڈریشن میں مالیات کے حصے سے سندہ کو اس وقت اپنا جائز اور قانونی حصہ کیوں نہیں دیا گیا ہے۔ لیکن سندہ کے منتخب نمائندے سندہ کے حقوق کی بجائے بدعنوانی اور خزانے کی لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال سندہ وطن کے فرزند جدید طرز زندگی گذارنے کے بجائے غربت، مفلسی اور قحط سالی کا شکار رہتے ہیں۔ جیسا کہ سندہ وطن پر دکہوں کا بسیرا ہے۔ اس وفاقی فیڈریشن کے ساری نظامیہ قابض قوتوں نے سندہ واسیوں کے مقدر میں لکہہ دیا ہے کہ تم سندہ والوں کو بہوکے، بے اختیار اور غلام ہوکر رہنا ہے۔
میرے باضمیر صحافی دوستو! ہمارے رہبر سندہ سائیں جی ایم سید اس غلامانہ زندگی گذارنے سے انکار کیا تو اسے 33 سالہ نظربندی اور قید و بند کی صعوبتوں کو بہگتنا پڑا۔ سید نے 50 سے زائد کتاب تخلیق کر کے فرزندان سندہ وطن کو اپنی سرزمین کی وارثی کرنی اور طاغوتی قوتوں کے خلاف برسر پیکار رہنے اور اپنی انسان دوستی اور مذہبی ہم آہنگی والے فکر اور سیاست کو خدمت کے جذبے سے فروغ دینے کا پیغام دیا۔ لیکن سیاست کو خدمت کی بجائے اقربا پروری اور نا اہلیت، بدعنوانی اور مافیائوں کو فروغ دیا گیا۔ خاص طور پر 2008 سے سندہ وطن پر آصف زرداری کی کرپٹ مافیا کو قابض کیا گیا ہے۔ جس نے سندہ وطن کے وجود کے لئے سنگین خطرے پیدا کیے ہیں۔ اور آج جب مارچ 2017 میں مردم شماری کروانے کا اعلان کیا ہے تو سندہ میں ہم سندہ کے رکہوالے سوئے پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں گم سندہ وطن میں مستقل رہنے والوں کو پر زور اپیل کرتے ہیں کہ اپنی مکمل مردم شماری کرا لینے اور اپنے آپ کو سندہی لکہوائیں۔ اس میں ہی ہماری وطن کی سلامتی کی ضمانت ہے۔ جیئے سندہ محاذ 26 فروری 2017 کو ٹہٹہ شہر گہارو میں قومی مطالبوں کے منوانے کے لئے احتجاجی دہرنا دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
1۔ مردم شماری کو شروع کرنے سے پہلے غیر ملکی افراد یعنی افغانی، برمی، بہاری، ہندستانی، بنگالی اور دوسروں کو فوری طور پر سندہ خاص طور پر کراچی سے نکالا جائے اور اس فیڈریشن یعنی پنجابیوں اور وزیرستان سے آنے والوں کو اپنی علاقوں میں شمار کیا جائے۔ اور ان کی سندہ میں عارضی رہائش دکہائی جائے۔
2۔ تعلیم قوموں کو عزت کے معراج پر پہنچاتی ہے۔ قومیں تعلیم کے ذریعے معاشی و سماجی طور پر ترتیب و تعمیر کے اعلیٰ مقام حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن سندہ میں ہر دور حکومت میں تعلیم کو لوٹ کہسوٹ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم سندہ کی اساتذہ کو اپیل کرتے ہیں کہ دہرتی کے حلالی فرزند بن کر اپنے وطن کی بچوں کو تعلیم دیں اور فرائض کو قومی فریضہ سمجہہ کر سرانجام دیں۔ اس کے ساتہہ عدلیہ کو اپیل کرتے ہیں کہ تحصیل اور یوسی لیول سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی جانب نگاہ رکہیں۔ اور بند پڑے اسکول اور کالیجز کو کہلوانے اور تعلیم کا معیار بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اساتذہ اور اسٹاف کی مقرری اہلیت کی بنیاد پر یقینی بنائی جائے۔ اور پی پی پی کی بدعنوان حکومت کا احتساب کیا جائے۔ اور تعلیمی ایمرجنسی کی رپورٹ منظرعام پر لائی جائے۔
3- سندہ حکومت کا محکمہ صحت موت کا کنواں ہوگیا ہے۔ اس کا احتساب کر کے اس میں ایمرجنسی نافذ کر کے ہیپاٹائٹس، سانپ کے ڈسنے اور پاگل کتے کے کاٹنے اور دوسرے امراض میں مبتلا مریضوں کو ویکسین نہیں ملتی، ان کی دستیابی کو ممکن بنایا جائے۔ سندہ کے تمام اضلاع میں ماہر ڈاکٹرز اور اسٹاف کی تعیناتی کو ممکن بنایا جائے، اور بدعنوان افراد کا احتساب کر کے ان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ 4- سندہ کے فنانس ڈپارٹمنٹ کی سندہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے زیر نگرانی انکوائری کمیشن قائم کر کے موجودہ وزیراعلیٰ جو 8 برس سے وزیر خزانہ ہیں ان کا احتساب کیا جائے۔
5- سندہ کا اریگیشن ڈپارٹمنٹ زرداری مافیا کے لئے ہاٹ پراپرٹی بنا ہوا ہے، جس میں لیفٹ بینک، رائٹ بینک ڈرینیج سسٹم اور روہڑی کینال کی فرش بندی کے کاموں اور سیلاب کے فنڈز میں اربوں روپے کی خرد برد کی گئی ہیں۔ کینال اور ریگیولیٹرز کی مرمت کے لئے آئی گئے فنڈز کا علی حسن زرداری کے ذریعے لوٹے گئے فنڈز کا احتساب کیا جائے، سندہ کے اریگیشن کینال، سندہو دریا اور سندہی سمندر میں آلودہ اور صنعتی زہریلی پانی کا اخراج روکا جائے۔
6- سندہ میں بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کو بجٹ فراہم کی جائے۔ شہری سہولیات میسر کرنے کی لئے ان کو پابند بنایا جائے۔ موجودہ پی پی پی حکومت اربوں روپے اشتہارات پر خرچ کر رہی ہے، جس کا سندہ ہائی کورٹ کو خود ساختہ نوٹس لینا چاہئے۔
7- ہم ترقی کے مخالف کبہی نہیں رہے، لیکن رہائشی اسکیموں جیسے سندہ دشمن منصوبات جیسا کہ بحریہ ٹائون، ڈی ایچ اے سٹی، فضائیہ ٹائون، ذوالفقار آباد اور دوسری اسکیموں پر سندہ حکومت خاص طور پر چیف جسٹس سندہ ہائی کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ ان اسکیموں کے غیر قانونی کاروبار پر پابندی عائد کر کے ان بلڈرز کو قانون کے دائرے میں رکہہ کر ان اسکیموں کا 80 فیصد سندہ کا اصل ڈومیسائیل رکہنے والوں کو آسان اقساط میں الاٹ کیا جائے اور باقی 20 فیصد دوسرے لوگوں کو دے کر ان کو ووٹ کا حق نہ دیا جائے۔ اور شہری سہولیات کے استعمال پر ان پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ ایسا قانون اور آئینی ضمانت ہونی چاہیے۔
8- تہر کا کوئلہ دنیا کا توانائی کا بڑا ذخیرہ ہے۔ لہٰذا اس کے استعمال سے پہلے مقامی باشندوں کے مفادات کا خیال رکہا جائے اور ماحولیاتی تباہی سے بچائو کے قانون کی پاسداری کی جائے۔ اس توانائی کے ذخیرے کو سندہ کی ترقی اور تعمیر کے مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ تہر کی سرزمین پر جو غیر فطری قبضہ ہو رہا ہے اس کو روکا جائے۔ تہر میں باہر سے آنے والے لوگوں کو یہاں مستقل طور پر آباد نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کو ووٹ کا حق دیا جائے، اور نہ ہی ان کو کوئی ملکیت خرید کرنے کی قانونی اجازت ہو۔ تہر میں ملازمت کرنے کا حق صرف سندہ کا ڈومیسائیل رکہنے والوں کو دیا جائے، اور سندہ کے مقامی افراد کو ٹیکنیکل مہارت دے کر تعینات کیا جائے۔ ہم سارے ترقیاتی منصوبوں کو سندہ وطن کی ترقی و تعمیر اور بہتری کے لئے بروئے کار لانے کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ سندہ کی ترقی صرف سندہیوں کیلئے ہونی چاہئے، یہی ہمارا نعرہ ہے۔ دہابیجی انڈسٹریل زون، کے ٹی بند، کراچی سرکلر ریلوے اور دوسرے منصوبے سندہ کے 6 کروڑ عوام کی خوشحالی کے لئے ہونے چاہئے۔ اور نہ کہ یہ منصوبے غیر سندہی آبادی کا سیلاب بن کر سندہی قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا باعث بنیں۔ ہم سندہی اپنی دہرتی پر حق حٓکمرانی سے محروم ہوجائیں۔ ایسی نام نہاد ترقی ہمیں ہرگز قبول نہیں۔ ایسے منصوبوں کو بروئے کار لانے سے پہلے سندہی قوم کو آئینی ضمانت دی جائے اور سارے ترقیاتی منصوبے صرف سندہ کے اصل رہنے والے سندہی اور اردو بولنے والے سندہیوں پر خرچ کرنا چاہئے۔ سندہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی جس عذاب میں مبتلا ہے، ان سے نجات دلائی جائے۔ ہم قومی اختیارات کے حاصلات اور معدنی و مالیاتی اور آبی وسائل پر مکمل مالکی اور آزادی کے لئے پرامن جدوجہد جاری رکہنے کا عزم کرتے ہیں۔