نئے پاکستان کی دعویدار تحریک انصاف کی نیت نہیں ہے کہ وہ استعفے دے کیونکہ اگر ان کی نئے پاکستان کی واقعی نیت ہوتی تو وہ استعفے ذاتی طور پر سپیکر کو دیتے یا پھر اسمبلی کے فلور پر اس کا اعلان کرتے ، تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے اس لئے منظور نہیں کئے جا رہے کیونکہ ن لیگ ہارس ٹریڈنگ کرنا چاہ رہی ہے ، استعفوں کے معاملے میں آ ئین اور قانون کو مذاکرات کی نذر کر دیا گیا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی نیت ہوتی تو وہ کے پی کے سے بھی استعفے دیتے ، ایک ایک کر کے استعفے کی تصدیق قانونی طریقہ ہے۔ استعفوں کے معاملے پر سپیکر کو آ ئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہئے ، اگر یہ غیر آ ئینی ہے کہ استعفے ملنے کے بعد منظور نہیں کئے جا رہے
تو پھر سپیکر کو استعفے ملتے ہی انہیں منظور کرلینا چاہئے تھا۔تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے انفرادی طور پر پیش نہ ہونے پر بدھ کو بھی انکے استعفوں کی منظوری کے معاملہ پر ڈیڈ لاک برقرار رہا۔ سپیکر سردار ایاز صادق اپنے چیمبر میں تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کے منتظر رہے جبکہ تحریک انصاف کے 25 ارکان سپیکر چیمبر سے چند قدم کے فاصلے پر سپیکر لائونج میں بیٹھے رہے اور اس بات پر بضد رہے کہ سپیکر انکے پاس آکر استعفوں کی تصدیق کریں۔ تحریک انصاف کے ارکان نے پارلیمنٹ ہائوس میں ”گو نوازگو” کے نعرے بھی لگائے۔ تحریک انصاف کے ارکان کی سپیکر لائونج میں موجودگی کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب دو بار ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے ارکان کے پاس گئے
اور انکو انفرادی طور سپیکر کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفوں کی تصدیق کرانے کیلئے کہا لیکن تحریک انصاف کے ارکان نے سپیکر کے سامنے الگ الگ پیش ہونے سے انکار کردیا۔ سردار ایاز صادق خاصی دیر تک استعفوں کی تصدیق کیلئے اپنے چیمبر میں بیٹھے رہے لیکن کسی رکن کے نہ آنے پر اپنے چیمبر سے اٹھ کر چلے گئے۔ شاہ محمود قریشی بھی اڑھائی گھنٹے کے بعد اپنے تمام ارکان کو ساتھ لیکر واپس چلے گئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی استعفوں کی تصدیق کیلئے سپیکر کے چیمبر میں پیش ہوئے ڈھائی گھنٹے انتظار کرایا مگر پھر بھی سپیکر نہیں آئے ڈپٹی سپیکر کو نقطہ نظر بتا دیا ہے ہم نے اپنا فرض پورا کردیا ہمارے ممبران کو وزارتوں اور پیسوں کی پیشکش کی گئی جمہوریت کاراگ الاپنے والوں نے جمہوریت کا مذاق اڑایا ہے
بدقسمتی سے ہمیں اڑھائی گھنٹے انتظا ر کرایا گیا لیکن سپیکر تشریف نہیں لائے۔ڈپٹی سپیکر آئے ڈپٹی سپیکر نے ہمارا نقطہ نظر سپیکر کو پیش کیا اور کہا کہ ہمارا انتظار کریں ہم انتظا ر کرتے رہے انتظار کرنے کے بعد آگئے ڈپٹی سپیکر کے پاس کیمرہ بھی تھا اور یہ کیمرہ سرکاری تھا ڈپٹی سپیکر نے تمام ممبران بیٹھے ہیں سیکرٹریٹ کا عملہ بھی موجود ہے ا یک ایک ممبر نے برملا کہا کہ ہم نے استعفے دے دیئے اور تصدیق کے لیے آئے ہیں ہم نے اپنا قانونی ، اخلاقی اور سیاسی فرض پورا کردیا ہے۔ حکومت نے ماضی کی سیاست سے کچھ نہیں سیکھا ہارس ٹریڈنگ کی کوشش کی گئی ہمارے ممبران کو وزارتیں اور پیسوں کی پیشکش کی گئی مسلم لیگ چھانگا مانگا کی سیاست کررہی ہے۔
پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں اور کرتے ر ہیں گے عمران خان کا شروع دن سے موقف تھا ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ۔ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ اور عدلیہ سے رجوع کیا ہمیں کہیں سے انصاف نہیں ملا اور پھر ہم نے عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ہمارے ممبران کو استعفے نہ دینے پر مختلف وزارتیں اور بھاری رقوم کی پیشکش کی گئی ہے جس کو تحریک انصاف نے ٹھکرا دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا ہے تمام فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہورہے ہیں ا تمام اراکین اسمبلی کو میڈیا کے سامنے بتانا چاہتے ہیں کہ ہم مستعفی ہونا چاہتے ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت کی وزارت چھوڑ کر استعفیٰ دیا اور مجھے تصدیق کے لئے نہیں بلایا گیا اب حکومت ماضی کی چھانگا مانگا کی سیاست کرنا چاہتی ہے۔
تحریک انصاف کے 30 اراکین اسمبلی میں 27سپیکر کے چیمبر میں پیش ہوئے حاضر نہ ہونے والے اراکین کی سپیکر ان کو کسی بھی وقت بلا کر تصدیق کرسکتے ہیں جو ممبر استعفیٰ نہیں دے گا وہ پارٹی سے فارغ ہوجائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کے استعفوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔انکا کہنا ہے کہ کوئی حکومت کانمائندہ نہیں اور نہ ہی مجھے عہدہ کسی پارٹی کی طرف داری کی اجازت دیتا ہے پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کے استعفوں کی تصدیق کا معاملہ آئین اور قواعد و ضوابط کے مطابق کروں گا کسی کی خواہش یا منشا پر یہ معاملہ ختم نہیں کر سکتے ا۔ قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط نمبر 43 کے مطابق کریں گے۔
پی ٹی آئی کے ممبران نے صبح گیارہ بجے آنا تھا لیکن وہ دو بجے کے قریب آئے۔اور فرداً فرداً استعفوں کی تصدیق کیلئے پی ٹی آئی نے انکار کردیا ہے اور الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے خط لکھیں گے کہ ہم نے دو مرحلے استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے کئے ہیں اور تحریک انصاف کے ممبران فرداً فرداً استعفوں کی تصدیق نہیں کرنا چاہتے۔سیاسی جرگے نے سپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری محرم الحرام میں ملتوی کی جائے’ استعفوں کی منظوری سے حکومت خود قبل از وقت انتخابات کا سبب بن سکتی ہے۔ جرگے کی جانب سے سپیکر کے نام خط میں سپیکر سے اپیل کی گئی ہے کہ محرم الحرام میں امن و امان کا قیام اہم معاملہ ہے’ اسلئے استعفوں کی منظوری کے معاملے کو ملتوی کر دیا جائے۔
North Waziristan
حکومت شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز’ بجلی’ بیروزگاری’ بدامنی اور دیگر عوامی مسائل پر توجہ دے’ عوام اتنا سانپ سے نہیں ڈرتے جتنا بجلی کے بلوں سے ڈرتے ہیں۔ حکومت کیلئے انا کا راستہ اختیار کرنا مفید نہیں’ جو اقدام پانچ چھ ماہ بعد کرنا پڑے آج کر لیا جائے۔ اب حکومت ایک قدم آگے بڑھ کر مذاکرات کے لئے خود بیٹھ جائے۔ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سے حکومت اور جمہوریت دونوں کو دھچکا لگے گا’ جمہوریت پر سے خطرہ ٹلا نہیں’ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو اڑھائی ہفتوں میں صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ عوامی تحریک نے دھرنا ختم کر کے جمہوری راستے پر آنے کا اعلان کیا لیکن ابھی سیاسی بحران برپا ہے۔
جرگے کی کوشش ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ بحال ہو، معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ استعفے منظور کئے گئے تو ملک مڈ ٹرم الیکشن کی طرف جائے گا۔ مسلسل بات چیت کا نتیجہ ہے کہ عوامی تحریک کا دھرنا ختم ہوا، مذاکرات واحد راستہ ہے جس کے ذریعے مسائل حل کر سکتے ہیں اور ملک کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔امریکی تجزیہ نگار مائیکل کوکیل مین کہتے ہیں کہ احتجاجی تحریک اور دھرنوں سے حکومت ختم کرنے کی مہم کی ناکامی کے بعد پاکستان میں جمہوریت کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ عمران خان اپنی حمایت کھو چکے ہیں کیونکہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے کئی ارکان انہیں چھوڑ چکے ہیں جو اب اپنا احتجاج زیادہ عرصہ جاری نہیں رکھ سکتے جبکہ قادری بھی اپنے جلسوں میں خالی کرسیوں کے سامنے تقاریر کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی جانب سے دھرنا ختم کئے جانے کے بعد احتجاجی تحریک بنیادی طور پر ختم ہو چکی ہے۔ کئی ہفتوں تک یہ کھیل چلا کیونکہ اب پاکستان میں حکومتیں گرانا آسان نہیں جس طرح عشروں پہلے تھا۔جب مظاہرین نے اسلام آباد آنے سے انکار کیا تو عمران خان اور طاہر القادری نے خالی کرسیوں کے سامنے تقاریر کیں۔ دونوں کے مستقبل کے متعلق انہوں نے کہا عمران خان لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کر کے آئندہ انتخابات کے لئے اپنی پوزیشن بنانے کی کوشش کریں گے جبکہ قادری بھی مزید احتجاجی سیاست کرنا چاہیں گے۔