تحریر : سید توقیر حسین پارلیمنٹ کے نئے پارلیمانی سال کا آغاز صدر مملکت ممنون حسین کے خطاب سے ہوگیا ہے۔ صدر کا خطاب عموماً انہی نکات کا احاطہ کرتاہے جو حکومت کی طرف سے اپنی کارکردگی کے بارے میں مہیا کئے جاتے ہیں۔ صدر کی اس تقریر میں حکومت کے اداروں اور مختلف وزارتوں کی کارکردگی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اگر حکومت اور صدر ایک صفحے پر نہ ہوں تو وہ حکومت پر طریقے طریقے سے نکتہ چینی بھی کردیتے ہیں یا اپوزیشن صدر کے خطاب کے دوران شور شرابہ کرنے کی منصوبہ بندی کرکے آئی ہو تو ارکان ایسی حرکتیں تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے صدر اطمینان سے اپنی بات نہیں کہہ سکتے۔ جنرل پرویز مشرف جب باوردی صدر تھے تو انہیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا رہا۔ تاہم وہ اسی ماحول میں اپنی تقریر ختم کرکے مکے لہراتے ہوئے ڈائس سے رخصت ہوگئے۔ اس سے پہلے صدر غلام اسحاق خان کی تقریر کے دوران بے نظیر بھٹو اور ان کے ساتھی ارکان پارلیمنٹ نے ”گو بابا گو” کے نعرے تسلسل کے ساتھ لگائے کیونکہ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت (1988ء تا 1990ء ) آئین کے آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت ختم کردی تھی، اس کا بدلہ بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعت نے صدر کی تقریر کے دوران مسلسل شور اور نعرے لگا کر لیا، لیکن نیرنگء سیاست تو ملاحظہ فرمائیں کہ انہی غلام اسحاق خان نے جب نوازشریف کی پہلی حکومت ختم کرکے میر بلخ شیر مزاری کو وزیراعظم بنایا تو ان کی کابینہ میں نصرت بھٹو اور آصف علی زرداری بھی شامل تھے جن سے غلام اسحاق خان نے حلف لیا، اس موقع پر کسی کو ”گو بابا گو” یاد نہیں رہا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب ایک روایت ہے اور اس میں صدر کی تقریر ملکی حالات کی ایک اجمالی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس خطاب کا صدر امریکہ کے اس خطاب سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا جسے ”سٹیٹ آف دی یونین خطاب” کا نام دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اگر صدر ممنون حسین کا خطاب پسند نہیں آیا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ کسی نے کہا کہ خطاب میں ڈرون حملے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، یہ بھی کہا گیا کہ پانامہ لیکس کے بارے میں صدر نے کچھ نہیں کہا۔ یہ رائے بھی سامنے آئی کہ صدر اپنے خطاب میں کرپشن کو فراموش کرگئے ہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن خطاب پر بات کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ یہ ملک کے آئینی سربراہ کا خطاب تھا کسی دھرنے میں یا کسی کنٹینر سے کوئی اپوزیشن لیڈر خطاب نہیں کر رہا تھا نہ کسی ٹاک شو میں کوئی جذباتی تجزیہ نگار بزعم خویش الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا رہا تھا۔ ایسے خواتین و حضرات بھی تھے جنہوں نے صدر کے خطاب کو موضوع گفتگو بنانے کی بجائے ان کے لباس کی کتر بیونت اور تراش خراش پر نکتہ چینی کر ڈالی غالباً ان کے خیال میں صدر ممنون کو اور نہیں تو بھارتی وزیراعظم مودی کی طرح دس لاکھ کا سوٹ زیب تن کرنا چاہئے تھا۔
Panama Papers
صدر کا خطاب ہوچکا، اب اس پر بحث شروع ہوگی تو اس کے پردے میں حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنایا جاسکے گا۔ جن ارکان کو صدر کا خطاب پسند نہیں آیا وہ اپنی تقریروں میں سنجیدگی کے ساتھ ان نکات کو زیر بحث لاسکتے ہیں لیکن اگر کسی کی یہ خواہش تھی کہ صدر اور قائد حزب اختلاف کو یکساں شعلہ بار ہونا چاہئے تو وہ خواہش بہرحال پوری نہیں ہوسکی اور نہ اس کی امید رکھی جانی چاہئے تھی۔ صدر، صدر ہوتا ہے اور قائد حزب اختلاف، قائد حزب اختلاف، جہاں تک پانامہ لیکس کا تعلق ہے اس کے بارے میں تو صدر صاحب اس سے پہلے خود اتنا کچھ کہہ چکے ہیں جو شاید بہت سے اپوزیشن ارکان بھی نہ کہہ سکے ہوں لیکن ہر بات کا ایک موقع محل ہوتا ہے۔ بات وہی اچھی ہوتی ہے جو موقع کی مناسبت سے کہی جائے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صدر نے اہم مسائل پر خاموشی اختیار کئے رکھی انہیں چاہئے کہ وہ عام بحث کے دوران ان مسائل پر روشنی ڈالیں تاکہ ان کی جانب سے تصویر مکمل ہوسکے۔
پارلیمنٹ کے اندر صدر ممنون حسین کا خطاب اہم تھا تو چائے کی اس دعوت میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی میڈیا سے گفتگو بھی خاصے کی چیز ہے جس کا اہتمام سپیکر قومی اسمبلی نے صدر کے خطاب کے بعد کیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ دہشت گردی کا سال رواں میں خاتمہ کردیا جائے گا اور اس جنگ میں ناکامی ہمارا آپشن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا 99 فیصد خاتمہ کردیا ہے اور 100 فیصد خاتمے کی جدوجہد جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 56 فیصد آئی ڈی پیز کی واپسی مکمل ہوچکی ہے، روز صبح اپنے دفتر میں پہلی فائل آئی ڈی پیز کی دیکھتا ہوں اور جنوبی و شمالی وزیرستان میں ترقی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اس موقع پر پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں بھی اپنے اس عزم کو دہرایا کہ اسے ہر حال میں مکمل کیا جائے گا۔ گزشتہ روز ہی پاکستان میں چینی سفیر بھی کہہ چکے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہر حالت میں مکمل ہوگا۔ دراصل اس منصوبے پر مخالفین نے بھی اپنی نظریں گاڑ رکھی ہیں اور بھارت نے تو پاکستان میں جاسوسوں کا جال اس مقصد کیلئے پھیلا دیا ہے۔ ایک ایجنٹ گرفتار ہوچکا ہے جس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ پاکستان میں تخریب کاروں اور دہشت گردوں کا ایسا نیٹ ورک بنا رہا تھا جس کا مقصد ایسی کارروائیاں کرنا تھا جو پاک چین اقتصادی راہداری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرسکیں۔ راہداری کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے بھارتی ایجنٹوں نے مقامی لوگوں میں بھی اپنے ہمنوا پیدا کرنے کی کوشش کی چنانچہ اس سلسلے میں ایسے اختلافات بھی سامنے آتے رہے جن سے بھارتی حمایت کا پہلو جھلکتا تھا، تاہم جب آرمی چیف اس منصوبے کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے اور انہوں نے انجینئروں اور فنی ماہرین کی حفاظت کیلئے خصوصی فورس بھی تشکیل دیدی تو منصوبے کے مخالفین کے عزائم پر اوس پڑگئی۔