تحریر : رائو عمران سلیمان۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا عہدہ نہایت اہمیت کا حامل ہوتاہے کیونکہ انہیں لوگوں نے ملک میں قانون سازی کے معاملات کو آگے لیکر بڑھنا ہوتا ہے ،ایک ایسے وقت میں جب سینٹ میں اپنی نمائندگی لانے کے لیے پیپلزپارٹی اور حکمران جماعت کی جانب سے نوٹوں کی بوریوں کو کھول دیا گیاتھا یہاں تک قوم نے دیکھا کہ اپنے سینٹرزمنتخب کروانے کے لیے پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کہ ووٹوں کو بھی خرید لیا تھا اور ایسا ہی لگ رہاتھا کہ جیسے چیئرمین سینٹ پیپلزپارٹی کا ہی آئے گا کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ان کا دعویٰ اپنا چیئرمین سینٹ لانے کا ہی تھا۔ 2015میں بھی سینٹ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی رضاربانی کو سینٹ کا بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کرواچکی تھی،اس بار لڑ کر سہی مگر دعوے تھے کہ آسمانوں کو چھور ہے تھے، لیکن یہ اچانک کیا ہوا کہ “پانسہ ہی پلٹ گیا ” اوردیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹرزکا گروپ بھاری پڑنے لگا ،دعوے دار جماعت پیپلزپارٹی کو بھی بلوچستان کے منتخب آزاد ایک سینیٹر کو ووٹ دینا پڑا اور ایم کیوایم سمیت فاٹا کے سینیٹرزبھی اسی عمل میں شریک ہوگئے ، پھر ہم نے دیکھا کہ اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ امیدوار صادق سنجرانی سینٹ کے چیئرمین اور سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب ہو گئے۔
حکمران جماعتوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے یہ سبب جانتے ہوئے بھی کہ انہیں خود بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ان کے ساتھ ہوا کیاہے ۔نتائج سامنے آنے کے بعدایک طرف سیاسی جماعتوں کا یہ بیانیہ رہا کہ سینٹ انتخابات میں نادیدہ قوتوں کا عمل دخل ہے ،دوسری جانب حکمران جماعت کے سواساری ہی جماعتوں کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ جیت ان کی ہوئی ہے ۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے لوگ ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلارہے ہیںمگر اندراندر ہی یہ ا مر ان کو حیران بھی کررہاہے کہ وہ اس نتائج پر کہیں تو کیا کہیں اور بولے بھی تو کیا بولیں ، پیپلزپارٹی نے الزام لگایا کہ مولانا فضل الرحمان نے حکومتی اتحاد کی بجائے اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دلوائے ،جبکہ نواز لیگ بھی اس بات سے پریشان ہے کہ ان کے پورے ووٹ ان کے نامزد کردہ امیدواروں کو کیوں نہیں مل سکے ہیں ؟یہ درست ہے کہ گڑ بڑ ہوئی ہے ، لیکن اصل کہانی جو جانتا ہے وہ یہ بھی سمجھ چکاہوگا کہ بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ کا منتخب ہونا اور موجودہ سینٹ کے حیران کن نتائج اس بات کی طرف واضح اشارہ ہیں کہ آنے والے انتخابات کے نتائج کیا ہونگے ؟۔ کیونکہ اس ملک میں موجودہ معاملات کوئی نئے نہیںہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہاہے مگر موجودہ معاملات جو بھی ہیں وہ پس پردہ نہیں بلکہ واضح دکھائی دیتے ہیں۔
گو کہ یہ ایک اچھی روایت ہے کہ تاریخ میں پہلی بارایوان بالاکی سربراہی بلوچستان کو ملی ہے جس سے کم ازکم بلوچستان کے بہت سے اہم معاملات ٹھیک ہوجائینگے اور میرے لکھنے کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ ایوان بالا کی سربراہی بلوچستان کو کیوں ملی ہے ۔مگراس بات سے کون انکار کرسکتاہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے اس ملک پرغیرجمہوری عناصر کا راج رہاہے مگر اس سے اگر کوئی فرق پڑاتو صرف ان لوگوں کو جو جمہوریت اور آمریت کے مطلب کوسمجھتے ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جنھیں سیاست کی کچھ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ ہے اگر ان غیر جمہوری قوتوں نے پاکستان میں حکومت کی بھی تو اس سے عوام کو کوئی فرق نہیںپڑا عوام کو دو وقت کی روٹی چاہیے تھی جو انہیں موجودہ اور گزشتہ کسی بھی جمہوری دور میں پیٹ بھر کر نہ مل سکی ہے اس بھولی عوام سے اگر کوئی پوچھے تو وہ ان تمام باتوں سے ہی نابلد دکھائی دینگے کہ ان کے لیے جمہوریت اچھی ہے یا پھر آمریت ؟۔رونا صرف ان سیاستدانوں کا ہی لگا ہواہے جن کی لوٹ مار یادال روٹی کا زریعہ ہی جموریت اور آمریت کا آنا جانا ہے۔
مثال ہم سینٹ کے اس ہنگامے کی ہی دیدتے ہیں کہ اب تک جو لوگ چیئرمین سینٹ منتخب ہوتے رہے ہیں ان میں حبیب اللہ خان ،غلام اسحق خان ،وسیم سجاد،میاں محمود سومرو،فاروق ایچ نائک،نیئر بخاری اور رضاربانی تھے کوئی بتا سکتاہے کہ اس ایوان بالانے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کیا قانون سازی کی؟۔ اگر کی تو پھر کتنوں پر عملدرآمدہو تارہاہے؟ گو کہ ان سینٹ میں کامیاب امیداروں کی زیاد تعداد پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی رہی ہے ایسے میں جو لوگ بلوچستان کی احساس محرومی کی بات کرتے ہیں کہ اس کامیابی سے بلوچستان کی احساس محرومی کاخاتمہ ہوگاو ہ لوگ یہ بھی دیکھ لیں کہ پیپلزپارٹی کے منتخب ہونے والے تین چیئرمین سینٹ نے سندھ کی عوام اور اندرون سندھ کی حالت زار کی احساس محرو می کا خاتمہ کس حد تک کیاہے؟کیونکہ پیپلزپارٹی کے ان چیئرمین سینٹ کی بڑی قیادت کا تعلق صوبہ سندھ سے جڑا ہے۔
اب ہم اگرہم حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی بات کریں تو وہی ڈھا ک کے تین پاٹ، چاہے پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ نوازعوام کو کسی نے نہیں پوچھا کہ اس کے پاس روزگار ہے کہ نہیں یا پھر اس کے گھر میں چولہا بھی جلتا ہے کہ نہیں میں پوچھتا ہوں کہ نوازشریف صاحب نے عوام کو دیا ہی کیا ہے جوان کی صاحبزادی اور ان کے حواریوں نے سینٹ انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے اتنا واویلا مچا رکھا ہے ایک جانب حکمران جماعت نے عدلیہ اور فوج کے ساتھ جو محاز آرائی کا سلسلہ شروع کیا ہواہے اس کے بھیانک نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔شاید سینٹ کے نتائج کے بعد نوازشریف کو کچھ سیکھنے کا موقع ہی نہ مل سکے کیونکہ نوازشریف کے کیسوں کے فیصلوں کی گھڑی اب سر پر آچکی ہے جو ملک کے موجودہ سیاسی نظام کو ہلاکررکھ سکتی ہے مگر اس سے شاید نظام کو کوئی فرق نہ پڑے اور ملک یونہی چلتا رہے جس کے لیے ضروری ہے کہ عوام اور اس ملک کے سیاستدان شخصیت پرستی کی بجائے ملکی اداروں کو اہمیت دیں کیونکہ اسی میں پاکستان کی ترقی اور سلامتی کا راز چھپا ہواہے اورجو لوگ سینٹ کے نتائج کو جمہوریت کی موت اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان نتائج نے ایوان بالا کا منہ کالا کردیاہے وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کا جمہوری نظام کسی سراب سے کم نہیں ہے حقیقت وہ ہی جو دکھائی دے رہی اس کے باجود یہ چاہے ایوان بالا کا منہ کالا کریں یاپھر ان سیاستدانوں کا جن کے کارنامے جوتے کھانے والے ہیں جنھوں نے ہمیشہ اس ملک میں جمہوریت کا لبادہ اوڈھ کر ملک میں انتشار پھیلانے کی سیاست کی جو خود بھی اس ملک میں سیاسی انتہاپسندی کو فروغ دیتے رہے اور اس کا شکار بھی خود ہی ہوتے رہے ،چاہے اس میں زرداری صاحب ہو یا نوازشریف صاحب دونوں ہی کے مقاصد اس ملک میں کئی کئی بار حکومتیں بنا کر واضح ہوچکے ہیں کیونکہ اس ملک کی عوام ان حکمرانوں کی گلے ملنے اور گلے پڑنے کی سیاست کو اب اچھی طرح سے پہچان چکے ہیں۔