تحریر : عبدالجبار خان دریشک دن کا آغاز ہوتے زندگی کی چہل پہل شروع ہو جاتی ہے، ہر ایک فرد بس بھاگ دوڑ میں لگا ہوتا ہے سب کو جلدی ہوتی ہے کسی نے سکول جانا ہے تو کسی کو آفس ، فیکٹری ، دوکان ، ورکشاپ سب نے وقت پر اپنے اپنے کام پر پہنچانا ہوتا۔ ایک انسان سارا دن مشین کی طرح کام کرتا ہے شام کو تھکا ہارا آتا ہے تو گھر میں اسے چار پل راحت کے نصیب ہوتے ہیں۔ سورج کے آنکھیں بند کرتے ہی انسان بھی اپنی آنکھیں بند کر کے رات بھر آرام کرتا ہے اور پھر صبح ہوتے ہی وہی منظر سب جلدی میں دائیں بائیں آگے پیچھے شمال جنوب اور مشرق مغرب کی طرف دوڑ رہے ہوتے ہیں۔
زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ ایک پل کا وقت نکلالنے کے لیے پہلے سے شیڈول تیار کرنا پڑتا ہے دفتر سے چھٹی لینی پڑتی ، دوکان ورکشاپ بند کرنی پڑتی ہے، سارے وقفے خوشی اور غمی کے لمحات کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ ہم سب اس بات کی دعا کرتے ہیں کہ ایسا کام اور مصیبت نہ آن پڑے جس سے سارے کام ایک طرف رکھ کر اس پر توجہ دینی پڑے۔ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک سے ہٹ کر اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو ہمیں بہت سارے ایسے مسائل کا سامنا رہتا ہے جس کے حل کے لیے ہمیں بہت سارا وقت برباد کرنے کے ساتھ اس پر پیسہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، ہمارے ہاں زیادہ تر دشواری اور وقت کی بربادی سرکاری دفاتر میں کام کاج پڑنے پر ہوتی ہے، یا پھر بیماری اور تھانہ کچری کی وجہ سے ۔ سرکاری دفاتر میں ہمارا روز آنا جانا تو نہیں ہوتا پر جب ہوتا ہے اگلے پچھلے سارے حساب دینے پڑتے ہیں، خاص کر آپ نادرا کے دفتر شناختی کارڈ بنوانے چلے جائیں ، پاسپورٹ ، بجلی کے محکمے ، لینڈ ریکارڈ سنٹر ، گاڑی کے کاغذ بنوانے ایکسئز کے آفس سب جگہ آپ بغیر سفارش کے یا پھر مٹھی گرم کیے بغیر کام نہیں کروا سکتے۔
آپ کی سرکاری دستاویزات میں شناختی کارڈ سب سے زیادہ اہم اور بنیادی چیز ہے جس کی بنیاد پر آپ پاکستان کے شہری کہلاتے ہیں۔ آج کے دور میں اس کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں، کسی کے پاس قومی شناختی کارڈ نہ ہو تو یوں سمجھیں وہ چلتی پھرتی لاش کی ماند ہیں آپ کہیں جا نہیں سکتے آپ بنک اکاونٹ ، موبائل سم ، جائیداد کی خرید فروخت ، تعلیم اور حتی کہ آپ شادی بھی نہیں کرسکتے۔
نئی صدی کے شروع ہونے سے پہلے پاکستان میں قومی شناختی کارڈ دستی بنائے جاتے تھے تھوڑی سی کاغذی کاروائی سے آپ کا شناختی کارڈ بن جاتا تھا۔ لیکن جب کمپیوٹریزڈ بنانے کا عمل شروع ہوا ہے بجائے آسانی ہونے کے اسے پیچیدہ بنادیا گیا ہے۔ نادرا کے عملہ نے عوام کے شناختی کارڈ کے حصول کو جان بوجھ کر مشکل بنایا ہوا ہے ہر تحصیل و ضلع کی سطح پر قائم نادرا سنٹرز پر علل صبح عوام کا رش جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اکثر دیہاتوں میں رہنے والے بچارے افراد سارا سارا دن لائینوں میں لگتے ہیں اور کئی دن دھکے کھاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل خفیہ ایجنسیوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ دہشت گردوں اور غیرملکیوں کے قوم شناختی کارڈ عملے کی ملی بھگت سے بنائے گئے ہیں۔ جن کی نشاندہی کے بعد اکثر کو خارج کر دیا گیا تھا پر غریبوں کے نہ بنائے گئے ۔
شناختی کارڈ کے حصول کی دن بدن بڑھتی عوامی شکایات کی وجہ سے چیئرمین نادرا نے عام آدمی کا روپ دھار کر مختلف سینٹرز کا دورہ کیا بلکہ کراچی کے ایک سنٹر پر خود لائین میں لگ گئے۔ جہاں انہوں نے عملے کے ناروا سلوک کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس موقع پر انہوں نے نادرا کی ایک خاتون ملازمہ اور دو افسران کو معطل کر دیا۔ چیئرمین نادرا نے اچھا کیا کہ خود چلے گئے اور اپنے عملے کی کارستانیاں خود دیکھ لیں ۔ کراچی ایک تو بڑا شہر ہے وہاں لوگ بھی پڑھے لکھے ہیں اور عوام کی میڈیا تک رسائی بھی آسان ہے لیکن دور دراز علاقے اندرون سندھ بلوچستان کے پی کے اور خاص کر جنوبی پنجاب میں صورت مزید بدتر ہے ۔ جہاں بچاری عوام سارا دن لائین میں بھوکے پیاسے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
پنجاب کا پسماندہ ڈویژن ڈیرہ غازی خان اور ڈسٹرکٹ راجن پور میں لائین کی ازیت اور عملے کے ناروا سلوک کی وجہ سے اکثر لوگوں کے پاس شناختی کارڈ ہیں نہیں میں چند ماہ قبل راجن پور کے ایک پچاس سالہ شخص پر تحریر لکھی تھی جس کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے ہی نہیں وہ بچارہ سارا دن لائین میں لگا رہا جب باری آئی تو اندر سے کہا گیا آپ جائیں آپ کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا۔ اگر اس کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا تو اسے تھانے میں بند کروائیں کہ یہ کون شخص ہے جس کا شناختی کارڈ ہی نہیں بن سکتا۔ ایسے ہی ایک خاتون جس کی عمر پچاس سے اوپر ہوگی اسے کہا گیا اب تک کدھر تھی اب تمہیں بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم ملنی ہے اس لیے کارڈ بنوا رہی ہو جاؤ تمہارا کارڈ نہیں بن سکتا، اسے بتایا گیا پہلے تمہارے بچوں کے کارڈ بنیں گے تب تمہارا بنے گا۔ بھلا یہ کوئی بات ہوئی کہ پہلے بچے پیدا ہوئے تھے یا ان کی ماں عجیب منتق ہے۔ گزشتہ دونوں اسلام آباد میں پڑھنے والا راجن پور کا نوجوان راجن پور نادرا آفس چلا گیا اس نے وہاں کافی دیر لائین میں گزارا پھر باری آئی تو اسے صیح طرح گائیڈ نہیں کیا گیا اس نوجوان نے ان کی ساری ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دینے کا کہا تو عملے کی دوڑیں لگ گئیں خیر سنٹر انچارچ نے نوجوان کومطمئن کر کے معاملہ ختم کروا دیا۔
قومی شناختی کارڈ کے اسی مشکل حصول کی وجہ سے آج بھی لاکھوں خواتین اپنی شناخت محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں وراثت میں حصہ ملنے میں دشواری ہے دیگر سرکاری کاموں میں رکاوٹ ہے جبکہ 2018 کے الیکشن سر پر ہیں اور ان لاکھوں خواتین اور مردوں کے شناخت کارڈ کا عمل کیسے مکمل ہوگا۔ عوام مجبوری کی حالت میں شناختی کارڈ بنواتی ہے جبکہ مشکل حصول ہونے پر ان میں اپنی خوشی سے بنوانے کا روجھان نہیں پایا جاتا۔ چیئرمین نادرا نے خود لائین میں لگ کر صورت حال کا جائزہ لیا جس سے انہوں نے عادل بادشاہوں کی یاد تازہ کر دی، میرے نزدیک نادرا میں اتنا بگاڑ نہیں ہے جسے ٹھیک نہ کیا جاسکتا ہو۔ واپڈ جیسا محکمہ اس کے میٹر ریڈر اور دیگر عملہ سیدھا ہو سکتا ہے تو نادرا واپڈا سے زیادہ پیچیدہ نہیں۔
چیئرمین نادرا جہاں کراچی گئے ہیں تو ایک مرتبہ راجن پور بھی تشریف لے آئیں یہاں کی صورت حال کا بھی جائزہ لیں اور دیگر دور دراز شہروں کو بھی دیکھیں ساتھ ہی ایمان دار لوگوں پر مشتمل ایک ویجی لینس بھی بنائیں جو اچانک دورے کریں جس سے عوامی مشکل دور ہو سکے۔ سسٹم کو آن لائین کیمروں کی مدد سے مانٹر کیا جائے، نادرا کا سارا نظام کمپوٹر پر مشتمل ہے ایسا ڈیٹا بیس بنایا جائے جسے میڈیا کے ذریعے پبلک کیا جائے ہر ماہ کتنے کارڈز کی مدت ختم ہو رہی ہے کتنے نئے بنائے گئے ہیں کتنے ” ب” فارم جاری ہوئے عوام کو ایک جگہ ساری سہولت دینے کے ساتھ عملے کی تعداد بڑھائی جائے اب جیسے راجن پور تحصیل کا سنٹر ہے یہاں عملہ کی تعداد کم ہے جبکہ تحصیل روجھان میں سنٹرنہ ہونے کی وجہ سے کام کا بوجھ یہاں زیادہ ہے۔ چیئرمین نادرا سے امید کی جاتی ہے ان ایسے چھاپے عوامی مفادات میں جاری رہیں گے، جس سے ہر پاکستانی عام و خاص کو باعزت طریقے سے شناخت مل سکے کیونکہ یہ ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے۔