اللہ کا شکر ہے کہ ملک کی غیر شخصی اور نظریاتی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے سینیٹ میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیاسی جنگ میں حصہ نہ لے کر عوام کے درمیان پہلے سے موجود اپنے سیاسی قد کاٹھ کو مذید بڑھا لیا ہے۔اپوزیشن کی دور بڑی شخصی سیاسی جماعتیںکرپشن کے بارے اپنے ذاتی مسائل بیان کر رہی ہے اور عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔اپوزیشن نے پہلے دن سے حکومت پر الیکشن چوری کرنے کا الزام لگایا۔ یہ پاکستان کی سیاست کی ریت رہی ہے کہ ہارنے والے جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔حکمران حکومت کو عوامی مسائل حل کرنے نہیں دیتے اورسیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے لڑتی رہتیں ہیں۔ اچھی ریت پڑی تھی کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اپنے دور حکومت کے پانچ پانچ سال مکمل کیے۔ اس لیے جماعت اسلامی نے الیکشن پر اپنے تحفظات ہونے کے باجود جیتنے والی حکومت کو پانچ سال ٹرم پوری کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ جماعت اسلامی نے اپوزیشن کی حکومت گرائو تحریک سے علیحدہ رہ کر عوام کے مسائل حل کروانے کے لیے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت پر دبائو بڑھا نے، قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے واپس لینے ،مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور آئی ایم ایف سے عوام کی جان چھڑانے کے لیے عوامی شعور اُجاگر کرنے کے لیے شہروں شہر ریلیاں نکال رہی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے تناظر میںاخبارات میںسرخیاں لگیں ہیں کہ سینیٹ کے ایک ووٹ کے لیے ستر کروڑ کی بولی لگی۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ آسمانی مخلوق نے مداخلت کر کے اکثریت کو اقلیت سے تبدیل کر دیا ہے۔٦٤ ممبران سینیٹ نے ہاتھ اُٹھا کر اپنی اکثریت دکھائی تھی۔ مگر جب خفیہ ووٹ کی گنتی ہوئی تو صرف ٥٠ وو ٹ نکلے ۔ ٥ ووٹ کینسل ہو گئے۔ عدم اعتماد کے لیے ٥٣ ووٹ کی ضرورت تھی جو پوری نہیں ہوئی ۔١٤ ممبران سینیٹ نے ضمیر کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا۔ بلاول زرداری صاحب کہتے ہیں ہم ان کالی بھیڑوں کو اپنے پارٹی میں تلاش کر کے سزا دیں گے۔یہ بات قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نون لیگ کے صدر شہبا شریف صاحب نے بھی کی۔ اپوزیشن یہ بھی کہتی ہے کہ ہم دوبارہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں گے۔اپوزیشن نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کے ممبران ہمارے رابطے میں ہیں۔ ٹی شو میں حکومتی لوگ کہتے رہے کہ اپوزیشن جتنا زور لگا لے چیئرمین سینیٹ کو نہیں ہٹا سکتی۔ حکومت نے پیپلز پارٹی کے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے خلاف بھی رد عمل کے طور پر تحریک عدم اعتماد داخل کرائی تھی۔ حکومت کو بھی اس میں ناکامی ہوئی۔ حکومت کو صرف ٣٢ ووٹ حاصل کر سکی۔
تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحبان نے ١٨ ویں ترمیم کے ذریعے سول آمریت قائم کی ۔ مگر ممبران سینیٹ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کاسٹ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے دم چھلا نہیں۔ بلکہ اپنے ضمیر کے مطابق کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کے حمایتی کہتے ہیں کہ جب ٦٤ نے ہاتھ اُٹھا کر اکثریت ظاہر کی تھی مگرجب خفیہ ووٹنگ ہوئی تو ووٹ کیوں نہیں دیے؟ الیکٹرونگ میڈیا پر آزاد تبصرہ نگار کہتے ہوئے سنے گئے کہ نواز لیگ ، پیپلز پارٹی جمعیت علمائے اسلام شخصی پارٹیاں ہیں۔ ان کاکوئی بھی ممبر ان کے خلاف اعلانیہ نہیں جا سکتا۔اگر جائے تو یہ پارٹیاں اس سے انتقام لے کر پارٹی سے خارج کر دیتیں ہیں۔مگر جب انہیں خفیہ ووٹنگ کا موقعہ ملا تو انہوں نے اپنے ضمیر کے مطابق آزادی سے اپنے ووٹ کو استعمال کیا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعض ممبران ان پارٹیوں کے لیڈروں کی کرپشن کے خلاف بھی ہیں۔احتساب کے شکنجے میں آنے پر فوج اور عدلیہ کے خلاف بیانیہ کو بھی پسند نہیں کرتے۔ آزاد تبصرہ نگار وں نے پیپلز پارٹی اور نوازلیگ کو مشورہ دیا کہ کسی بلٹ کے ذریعے بیلٹ کو تبدیل کرنے کے شوشے چھوڑنے کے بجائے اپنی پارٹی کے اندر ایسے عناصر کو تلاش کریں جنہوں نے پیسے لیے اور اپنی پارٹیوں کے غلا ف غداری کی؟
دوسرے کچھ تبصرہ نگار اور ذرائع کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت ہے کہ ہائوس کے اندر عددی طاقت سے تبدیلی لائی جائے۔ جیسا لندن میں تھریسا کے خلاف بھی تو عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی۔ سیاست دانوں نے پہلے چھانگا مانگا، بریف کیس،مری اور سوات والی ریت ڈالنے والوں نے غلطی کی تھی۔شہباز شریف نے ق لیگ کے ممبران کے بل بوتے پر پنجاب حکومت بنائی اور اب اس تاریخ کو دھرانے والے بھی غلطی پر ہیں۔ یہ تاریخ نہ دھرائی جاتی تو بہتر ہوتا۔ یہ بھی تو نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے کارنامے ہیں کہ موجودہ عدم اعتماد کے لیے نواز شریف نے بلوچستان کے حاصل بزنجو صاحب ممبر سینیٹ کا نام پیش کیا ۔ یہ صاحب نواز لیگ کی حکومت میں شامل تھے۔ نواز شریف کی عدلیہ اور فوج مخالف بیانے میں پیش پیش تھے۔اب جبکہ سینیٹ کے چیئر مین کے لیے سامنے آئے تو ٹی وی پر تبصرہ نگار اپنے تجزیے پیش کر رہے ہیں کہ بزنجو صاحب نے فوج سے رابطہ کر کے فوج کو حمایت کا یقین دلایا۔ پیپلز پارٹی نے پہلے صادق سنجرانی صاحب کو چیئرمین سینیٹ کامیاب کرایا تھا۔ اب زرداری صاحب نے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
عجیب اتفاق ہے کہ جب اسی سینیٹ کی انتخابات ہوئے تھے تو نواز لیگ کے راجہ ظفرلحق صاحب چیئرمین سینیٹ کے امیدوار تھے۔ اسکے مقابلے میں بلوچستان اسمبلی کے وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کی سیاسی پارٹی کے سینیٹ کے امید وار صادق سنجرانی صاحب کو پیپلز پارٹی نے ووٹ دے کر کامیاب کرایا تھا۔ صادق سجرانی چیئرمین سینیٹ نے سینیٹ کی کاروائی کو احسن طریقے سے چلایا۔ ان سے حکومت اور اپوزیش کو کوئی خاص شکایت نہیں رہی۔ حتہ کہ سنجرانی صاحب نے حکومتی ممبر کو سینیٹ کے اجلاس میں داخلے سے بھی روکا۔مگر نہ جانے اب اس میں اچانک کیا خرابی پیدا ہو گئی کہ اپوزیشن کی ساری سیاسی پارٹیوں نے یک دم اس کے خلاف عدم اعتماد سینیٹ میں پیش کر دی۔ کیا اس کے پیچھے کرپشن کے کیسز تو نہیں؟ حکومت کے نمائندے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب نے مولانا فضل الرحمان صاحب سے ملاقات کر کے عدم اعتماد کو واپس لینے کی بات کی۔دوسری طرف عمران خان نے عدم اعتماد میں پیش پیش اور عمران خان کے سخت مخالف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکا میں بیان دیا کہ پاکستان میںپہلی بار بغیر ڈیزل کے بغیر حکومت چل رہی ہے۔ واپسی پر اپنے ہی ممبر سینیٹ شبلی فراز صاحب سے پوچھ گوچھ بھی کی کہ آپ نے میری اجازت کے بغیر مولا فضل الرحمان سے کیوں ملے۔ اب کھپت چھپانے کے لیے حکومت کے سینیٹ کے ممبر شبلی فراز صاحب کہتے ہیں کہ ہم تو مولانا کو سمجھانے کے لیے ملے تھے کہ جمہوریت کو چلانے دو۔
صاحبو! ملک میں غریب عوام مہنگائی اور بے روز گاری اور آئی ایم ایف کے خونی پنجے میں پھنس ہوئے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔غریب عوام روٹی کی قیمت تک بڑھ جانے سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ احتساب کی وجہ سے سیاست دانوں کو عدالتوں سے کرپشن پر سزائیں ملی ہوئی ہیں اور وہ جیل کاٹ رہے ہیں۔ کچھ جعلی اکائونٹ منی لانڈرنگ کے تحت گرفتار ہیںاور کچھ ضمانت پر ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کرپٹ سیاست دان جلسے ،جلوس ، ریلیوں اور سینیٹ کے چیئر مین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر این اُو آر کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔ جبکہ حکومت نے کامیاب سیاسی چال سے عدم اعتماد کو فیل کر دیا۔ حکومت اس پر زور دے رہی ہے کہ عوام کے خزانے سے لوٹا ہوا پیسا واپس کرو۔ تاکہ غریب عوام کے خزانے میں ڈالا جائے اور آئی ایم ایف کے قرضے واپس کیے جائیں۔ مگر اپوزیشن کبھی آل پارٹی کانفرنس کرتی ہے۔ کبھی جلسے ،جلوس ، ملین مارچوں اور مظاہروں کے ذریعے حکومت پر پریشئر ڈالتی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے مطابق حکومت نے مصمم ارادہ کیا ہوا کہ جس جس نے غریب عوام کا پیسا لوٹا ہے اُسے نہیں چھوڑا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ضرورت تو اس امر کی تھی کہ سیاست دان احتساب کوجاری رہنے دیتے اور عدالتوں کے ذریعے اپنے بے گنائی ثابت کرتے۔ مگر اپوزیش اوّل روز سے ہی عمران خان حکومت گرانے کی طرف گامزن ہے ۔ نقصان دھکوں کے مارے پاکستان کے غریب عوام کا ہو رہا ہے۔ گو کہ حکومت کی کامیاب سیاسی چال کی وجہ سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صاحب کے خلاف عدم اعتمادنامنظور ہو گئی۔ مگر آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟