چکوال کی خبریں 05.05.2013

تاریخی اہمیت ضلع چکوال پنجاب کا اہم ترین ضلع ہے
تاریخی اہمیت ضلع چکوال پنجاب کا اہم ترین ضلع ہے اور چار تحصیلوں چکوال کلر کہار چوآسیدن شاہ اور تلہ گنگ اور 68یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔چکوال میں قومی اسمبلی کے دو این اے 60’این اے 61اور صوبائی اسمبلی کے چار پی پی 20’پی پی 21پی پی 22اور پی پی 23 کے حلقے آتے ہیں۔ضلع میں دھانی اور ماجھی زبان بولی جاتی ہے دونوں زبانیں پنجابی زبان سے نکلی ہیں۔چکوال کو1985ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا اس سے قبل یہ ضلع جہلم کا حصہ ہوتا تھا۔تلہ گنگ ضلع چکوال کی ایک انتہائی اہم تحصیل ہے۔تحصیل تلہ گنگ ضلع چکو ال بنا نے سے پہلے ضلع ا ٹک سے منسلک تھی۔ اس کے نام کے ساتھ دو الفاظ تلہ اور گنگ بھی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔تلہ کا مطلب ہے نچلے حصے والی زمین اور گنگ ہندوئوں کی ایک قوم کا نام ہے۔قیام پاکستان سے قبل یہاں پر گنگ قوم آباد تھی اور یہ علاقہ چونکہ باقی علاقے سے نچلی سطح پر واقع تھا اس لیے یہاں پر آباد گنگ قوم کے افراد کو تلہ گنگ کے باعث شناخت کیا جاتا تھا۔تحصیل تلہ گنگ ملک کی سب سے بڑی شاہرہ موٹروے سے 30کلو میٹر دور واقع ہے جبکہ ضلع چکوال سے 45کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہاں پر آباد لوگ پنجابی زبان بولتے ہیں۔تحصیل تلہ گنگ میں ایشیاء کا سب سے بڑا قصبہ لاوہ بھی موجود ہے۔جس کے رقبے پر پوری تحصیل کی آباد ی کی اکثریت آباد ہے۔چکوال کا علاقہ محل وقوع کے اعتبار سے شمالی حصے کی طرف سے ضلع راولپنڈی،جنوبی سطح پر ضلع جہلم ،مشرقی اعتبار سے خوشاب اورمغربی سرحد میانوالی سے ملتا ہے۔کل رقبہ 6609کلومیٹر اور1652443ایکٹر تک پھیلا ہوا ہے۔جنوبی حصے میں زیادہ تر پہاڑی سلسلہ واقع ہے اور سطح سمندر سے 3701فٹ کی بلندی پر ہے جبکہ شمال میں زیادہ حصہ دریا سوہان کے قریب واقع ہے۔چکوال میں پہاڑی سلسلہ ساتھ ساتھ ایک بارانی علاقہ ہے اس لیے یہاں پر کاشتکاری میں بارش کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔زیادہ تر لوگ دیہی علاقے میں آباد ہیں۔چکوال ایک تاریخی علاقہ ہے اور پاکستان کے قیام سے قبل یہاں پر ہندو’سکھ اور عیسائی قومیں آباد تھیں جن میں اکثریت ہندوئوں اور سکھوں کی تھی۔1947میں پاکستان کے قیام کے بعد یہ قومیں بھارت کو ہجرت کرگئیں جبکہ بھارت سے آنے والے مسلمان یہاں پر آباد ہوئے۔1947ء سے قبل انگریزوں کے دور حکومت میں چکوال ضلع جہلم کی تحصیل ہوتی تھی۔1891میںاعدادو شمار کے مطابق اس کی آبادی کی کل تعداد 164912تھی۔تحصیل چوآ سیدان شاہ کے کہار روڈ کے قریب 3000قبل کاتیس راج ہوا کرتا تھا جس کے چند ایک آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔ ہندوراج کے علاوہ وہاں سے 3کلو میٹر دور دھمیال بھی واقع ہے جو 1920میں بھی تمام افراد کے لیے اس حوالے سے ایک اہم جگہ تھی کہ یہاں پر تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کو روز گار کی تلاش کیلئے آنا پڑتا تھا اور انگریز فوج کا قیام بھی یہیں پر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی صورتحال ضلع چکوال میں دو قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئے 11مئی کے انتخابی دنگل کیلئے تمام انتخابی مراحل مکمل کر لئے گئے
سیاسی صورتحال ضلع چکوال میں دو قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئے 11مئی کے انتخابی دنگل کیلئے تمام انتخابی مراحل مکمل کر لئے گئے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے حلقہ این اے 60پر میجر طاہر اقبال ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں سابق وفاقی وزیر ماحولیات رہ چکے ہیں۔ پی پی 20چکوال وَن سے چوہدری لیاقت علی خان اور پی پی 21سے ملک تنویر اسلم سیٹھی کو ٹکٹ جاری کردئیے گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے حلقہ این اے 60پر راجہ یاسر سرفراز، پی پی 20پر چوہدری علی ناصر بھٹی، پی پی 21پر پیر شوکت کرولی میدان میں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے حلقہ این اے 60پر راجہ ثناء الحق ایڈووکیٹ، پی پی 20پر راجہ شاہجہان سرفراز، پی پی 21پر راجہ آصف رضا ایڈووکیٹ کو ٹکٹ جاری کردئیے۔ مسلم لیگ ق نے حلقہ این اے 60پر سردار خرم نواب، پی پی 20پر چوہدری محمد علی،کو امیدوار نامزد کردیا ۔ ایک آزاد پینل جو سردار گروپ کے نام سے پہچانا جاتا ہے نے انتخابات میں بطور آزاد امیدوار حلقہ این اے 60اور پی پی 22پر سردار غلام عباس ، پی پی 20پر آزاد امیدار چوہدری اعجاز فرحت، پی پی 21پر ملک اختر شہباز، پہلوان گروپ کے حلقہ پی پی 20پر آزاد امیدوار شیخ وقار علی بھی میدان میںاتر چکے ہیں۔ کیونکہ مقامی ضلعی صدر اور موجودہ امیدوار صوبائی اسمبلی چوہدری لیاقت علی خان نے ان کوحلقہ پی پی 20کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ چکوال کی سیاسی صورتحال کو یکسر تبدیل کرنے کا فیصلہ صرف سابق ایم این اے چوہدری ایاز امیر کا فیصلہ ہے۔ کہ آیا وہ کس گروپ کی حمایت کرتے ہیں۔ جس گروپ کی بھی وہ حمایت کرینگے وہ گروپ ضلع بھر میںپی ٹی آئی کی حمایت کرے گا۔ ایاز امیر نہ صرف حلقہ این اے 60بلکہ این اے 61میں بھی مضبوط ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ 2010ء کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن نے ملک کبیر ایڈووکیٹ کو دیا تو چند دن کے بعد ہی میاں نواز شریف کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ وجہ یہ تھی کہ کبیر ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دینے کے بعد حمزہ شہبا ز شریف موضع دلہہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرنے کیلئے جب لاہور سے چکوال آئے تو سیاسی صورتحال کا اور زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیا ان کی رپورٹ پر میاں نواز شریف نے فوراً چوہدری ایاز امیر جو اس وقت ایم این اے تھے سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ اپنے تجویز کردہ نمائندے سردار ممتاز ٹمن سے رابطہ کریں اور ان کو آمادہ کریں کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں۔ ایاز امیر نے سردار ممتاز ٹمن سے رابطہ کر کے ان کو الیکشن میں حصہ لینے پرآمادہ کرلیا اور اس طرح سردار ممتاز ٹمن کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ایاز امیر نے میاں نوازشریف سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کیمپن کے دوران چکوال میں مجھے کسی صوبائی وزیروں کی فوج اور مشیروں کی فوج اپنے حلقے میں مداخلت برداشت نہیں کرونگا۔ اور جہاں تک سردار ممتاز ٹمن کو کامیاب کرنے کی بات ہے اس چیز کی میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ممتاز ٹمن کامیاب ہونگے اور واضح اکثریت سے ہونگے۔ اور اس طرح مسلم لیگ ن نے حلقہ این اے 61کی سیٹ 65000ووٹوں کی واضح برتری سے جیت لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہم شخصیات حلقے کی اہم شخصیات میں خان محمد ڈھرنال’آئی جی پنجاب ملک خان بیگ آف لاوہ
اہم شخصیات حلقے کی اہم شخصیات میں خان محمد ڈھرنال’آئی جی پنجاب ملک خان بیگ آف لاوہ’ملک فتخ خان چیئر مین این آر ایس پی’ملک طارق چیئر مین نادرا’جنرل ریٹائرڈ آصف چیئر مین پی آئی اے و سیکرٹری دفاع’ملک خلاص خان آف لاوہ سیاسی و سماجی شخصیت’مصنف و شاعر عبدالرحمن شاد ‘جنرل ریٹائرڈ صدیق’جنرل ریٹائرڈ اعجاز اکوال’ڈاکٹر نثار احمد ملک چائلڈ و جنرل فزیشن ایم ڈی الممتا ہسپتا ل’ائیر مارشل نور خان ‘ملک سلیم اقبال سابق صوبائی وزیر’ملک فلک شیر اعوان ،ڈاکٹر بشیر ا حمد ملک پچنند ،ملک ضمیر اعوان ،رئیس ا ف ملک ممتا ز حید ر ،ملک غلا م شاہ تھو ہا ،سر دار ذوالفقا ر دلہہ ،فا روق اعوان لا وہ ،ملک غلام محی الدین سماجی رہنما اور سردار محمد حیات ٹمن سابق وزیر ریلوے شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی برادریاں ضلع چکوال کی بڑی برادریوں میں جٹ’چوہدری’ملک ,سردار راجہ,بٹ,میر,خواجہ,شیخ ,بھٹی ,اعوان,انصاری,کھریال,اگرال,دھولہ,آرائیں,منہاس’سمسال’مستری’قاضی برادری شامل ہیں
بڑی برادریاں ضلع چکوال کی بڑی برادریوں میں جٹ,چوہدری’ملک ,سردار راجہ,بٹ,میر,خواجہ,شیخ ,بھٹی ,اعوان,انصاری,کھریال,اگرال,دھولہ,آرائیں,منہاس,سمسال,مستری,قاضی برادری شامل ہیں۔ یہ برادریاں ہمیشہ سے ہی مسلم لیگ ن کی حمایت کرتی آ رہی ہے۔ان کے علاوہ حلقے میں انصاری,اگرال,کھریال,جعفری’سمسال’قاضی برادریاں بھی بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے اورحلقے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ان برادریوں کی مشترکہ حمایت کسی ایک امیدوار کی جیت کو یقینی بنا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی پارٹیاں اور امیدوار قومی اسمبلی کے حلقے این اے 60 اور صوبائی حلقوں پی پی 20اور پی پی21میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ق، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بڑی پارٹیوں کے طور پر نمایاں ہیں
بڑی پارٹیاں اور امیدوار قومی اسمبلی کے حلقے این اے 60 اور صوبائی حلقوں پی پی 20اور پی پی21میں موجودہ صورتحال کے مطابق مسلم لیگ ن’ پیپلز پارٹی’مسلم لیگ ق’ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بڑی پارٹیوں کے طور پر نمایاں ہیں۔یہ پارٹیاں برادریوں کے علاوہ حلقے میں اپنا نظریاتی ووٹ بینک بھی رکھتی ہیں۔لہذا یہاں سے نہ کبھی کوئی پارٹی صرف برادریوں کو بنیاد بناکر الیکشن میں کامیاب ہو سکی ہے اور نہ ہی اکیلے اپنے ووٹ بینک پر انحصار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرسکی ہے۔پارٹیاں ہمیشہ سے جہاں اپنے امیدواروں کے انتخاب کیلئے برادریوں پر غورو فکر کرتی ہیں وہاں پر اپنے اپنے ورکروں اور نظریاتی حمایتیوں کی رائے کا بھی احترام کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منصوبہ سازی کے اثرات حلقہ این اے 60 میں تمام امیدواروں نے اپنی کامیابی کیلئے مختلف حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع کر رکھا ہے
منصوبہ سازی کے اثرات حلقہ این اے 60 میں تمام امیدواروں نے اپنی کامیابی کیلئے مختلف حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع کر رکھا ہے۔تمام امیدوار سیاسی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور جلسے ‘جلوسوں اور کارنر میٹنگز کے ذریعے اپنی پارٹی کے نظریات کو پھیلا رہے ہیں اس کے علاوہ حالیہ جاری ہونے والے منشور کی تشریح بھی کر رہے ہیں اور اپنی پارٹی قیادت کے خیالات سے آگاہ کر رہے ہیں۔مسلم لیگ ن کے امیدوارمیجر طاہر اقبال اپنے مد مقابل آزاد امیدوار سردار غلام عباس کے حوالے سے مختلف انکشافات سامنے لا رہے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کامیاب ہو کر مسلم لیگ ق کی جھولی میں سیٹ ڈال دینگے ۔ راجہ ثنا الحق کے حوالے سے ان کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی 5سالہ کارکردگی کو سامنے رکھا جا رہا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اپنے مد مقابل تمام لوگوں کو کرپٹ کہتے دکھائی دیتے ہیں اور نئے پاکستان کی نوید سنا رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ ثنا ء الحق بھی روز مرہ اخبار میں شائع ہونے والے اشتہارات سے گائیڈ لائن لیتے ہیں اور گڑے مردے اکھاڑنے میں مصروف عمل ہیں۔جبکہ حلقہ این اے 61 میں آئندہ 11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ اپنے ماضی کے دور اقتدار میں کرائے جانے والے ترقیاتی کاموں کو لیکر انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔اس کے علاوہ انہوں نے حلقے میں موجود اپنے سخت ترین مخالفین میں سے سردار فیض ٹمن کو بھی راضی کرلیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلقہ پی پی 20 2008 کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کی طرف سے مسز عفت لیاقت علی خان نے کامیابی حاصل کی تھی
حلقہ پی پی 20 2008 کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کی طرف سے مسز عفت لیاقت علی خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔حلقہ پی پی 20پر ڈور ٹو ڈور ، کارنر میٹنگز، جلسوں کی تقریبات اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری لیاقت علی خان ہونگے ان کے مقابلے میں تحریک انصاف حلقہ پی پی 20کے امیدوار علی ناصر بھٹی میدان میں اتر رہے ہیں۔ چوہدری علی ناصر بھٹی سابق چیئرمین بلدیہ ، سابق تحصیل ناظم چکوال چوہدری امیر خان بھٹی کے بیٹے ہیں اور چوہدری امیر خان بھٹی تحصیل چکوال میں اپنا مخصوص حلقہ احباب رکھتے ہیں۔ شہر کی پانچوں یونین کونسلوں میں ان کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہیں۔ ماضی میں بطور چیئر مین انہوں نے چکوال کی عوام میں اپنا نام پیدا کیا اور ان کی خدمت کرنا چوہدری امیر بھٹی کا مشن تھا۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے حلقہ کے عوام انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔آئندہ انتخابات میں ان کے فرزند چوہدری علی ناصر بھٹی کو اس حوالے سے ضرور فائدہ پہنچے گا۔ پی پی 20کے آزاد امیدوار اور سابق ایم پی اے چوہدری اعجاز فرحت بھی سردار عباس گروپ کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے اپنے حریف امیدواروں کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شاہجہان سرفراز راجہ حلقہ پی پی 20پر دھیرے دھیرے جلسے اور کارنر میٹنگ کررہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلقہ پی پی21 2008 میں اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے تنویر اسلم کامیاب ہوئے تھے
حلقہ پی پی21 2008 میں اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے تنویر اسلم کامیاب ہوئے تھے۔اس مرتبہ پی پی 21پر مسلم لیگ ن کے تنویر اسلم سیٹھی دوبارہ امیدوار ہونگے ۔ انہوں نے اپنے حلقے میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے۔ اپنے ووٹر کو جائز مقام دیا یہی وجہ ہے کہ انکی سیٹ کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ تحریک انصاف کے پیر شوکت کرولی اور آزاد گروپ کے ملک اختر شہباز دونوں اپنی پوزیشن کو روز بروز مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے حریف تنویر اسلم سیٹھی کودشواری کا سامنا کرانے کیلئے پوری کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلقہ این اے61 2008میں حلقہ این اے اکسٹھ میں چو ہدری پر ویز الہی ،سر دار فیض ٹمن ،سر دار منصو ر حیا ت ٹمن ا ورملک عر فان نے الیکشن میں حصہ لیا۔
ا زاد امید وار ملک عرفان مسلم لیگ ق کے امید وار چو ہدری پر ویز الہی کے حق میں دستبر دار ہو گئے تھے تحصیل تلہ گنگ کی اہم شخصیات نے چوہد ری پر ویز الہی کی الیکشن مہم کو کامیاب بنانے کیلئے سر توڑ جدو جہد کی لیکن الیکشن میں 91684ووٹ سے زیادہ نہ دلوا سکے۔جبکہ اس کے بر عکس مسلم لیگ ن کے امید وار سر دار فیض ٹمن پر عوام نے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں 91979ووٹ دیئے۔بلا شبہ یہ چو ہدری پر ویز الہی اور سردار فیض ٹمن کے مابین کانٹے دار مقابلہ تھا لیکن اس میں جیت سردار فیض ٹمن کے نصیب میں آئی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو 295ووٹ کے فرق سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔حلقہ این اے ا کسٹھ تحصیل تلہ گنگ کی 23،تحصیل کلر کہا ر 2 اور تحصیل چکو ال 8یو نین کو نسلز پر مشتمل ہے ۔ اس حلقہ میںاسوقت تک رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 4,38,624ہے۔ جبکہ پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 370اور پولنگ بوتھ کی تعداد 1,053 ہے ا س میں دو صو با ئی نشستیں ہے۔قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کے امید وار سر دار ممتا ز خا ن ٹمن ،مسلم لیگ ق کے چو ہد ری پر ویز الہی اورتحر یک انصا ف کے سر دار منصور حیا ت ٹمن کے درمیا ن کا نٹے دار مقا بلہ ہو گا ۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس نشست پر مسلم لیگ ق کے امیدوار پر اتفاق کرتے ہوئے اس کی حمایت کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔مسلم لیگ ن کے امید وارسر دار ممتا ز خا ن ٹمن کی گر فت مسلم لیگ ق سے زیادہ مضبو ط نظر ا رہی ہے۔جبکہ سر دار منصور حیا ت کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد تحریک انصاف میں 2دھڑے واضح طورپر سامنے آئے جس کو سردار منصور حیات نے غیر معمولی دلچسپی لیتے ہوئے تحریک انصاف کے نوجوان گروپ کو راضی کرکے تحریک انصاف کی کمزور ہوتی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کرلیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلقہ پی پی 22حلقہ پی پی 22پر 2008کے الیکشن میں چا رمضبوط امیدوار کے طور پرمید ان میں ا تر ے
حلقہ پی پی 22حلقہ پی پی 22پر 2008کے الیکشن میں چا رمضبوط امیدوار کے طور پرمید ان میں ا تر ے جن میں مسلم لیگ ق کے سر دار خر م نواب ،مسلم لیگ ن کے پیر نثا ر قا سم جو جی ۔پیپلز پا ر ٹی کے ڈاکٹر علی حسنین نقو ی اور ا زاد امید ورا ذوالفقا ر خا ن دولہہ نے حصہ لیا ۔مسلم لیگ ق کے امید وار سر دار خر م نو اب اور مسلم لیگ ن کے امید وار پیر نثا ر قا سم شا ہ کے مقا بلہ درمیا ن ہو ا جس میں سر دار خر م نو اب 42739اور پیر نثا ر نے 34663ووٹ حا صل کیے ۔سر دار خر م نواب نے ایک مقا بلہ کے بعد پیر نثا ر قا سم کو 7084ووٹو ں سے شکست دی اور ایم پی اے منتخب ہو ئے ۔یہ صوبائی حلقہ16یو نین کونسل پر مشتمل ہے ۔کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے حلقہ پی پی با ئیس پر سر دار غلا م عبا س آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں اور انہیں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور پاکستان مسلم لیگ ق کی بھی پوری طرح سے حمایت حاصل ہے ۔جبکہ ان کے مقابلے میں سید تقلید رضا شاہ آزاد امیدوار ‘ مسلم لیگ ن کے سر دار ذوالفقار دلہہ اور تحر یک انصا ف کے پیر نثا ر قا سم شاہ سا منے ا چکے ہیں ۔سر دار غلا م عبا س اور سر دار ذوالفقا ر دلہہ کے درمیا ن کا نٹے دار مقا بلہ ہوگا۔ دونو ںامیدواروں نے الیکشن مہم زور وشور سے جا ری کررکھی ہے ۔سر دار غلا م عبا س اور سر دار ذوالفقار دلہہ دونوں حلقے میں اپنا اپنا ایک مضبوط دھڑا رکھتے ہیں ۔ضلع چکو ال مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جا تا ہے ۔پیر نثا ر قا سم شاہ 2008میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے الیکشن لڑے اور کامیاب نہ ہو سکے ۔لیکن اب11مئی 2013کے انتخابات سے چند ما ہ قبل انہوں نے مسلم لیگ ق میں شمو لیت اختیار کرلی ۔2002اور 2008کے الیکشن میں سر دار غلا م عبا س کا حما یت یا فتہ امید وار ہی کا میا ب ہو اہے اور اس دفعہ سر دار غلا م عبا س خو د الیکشن لڑ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلقہ پی پی23 2008 میں حلقہ پی پی 23پر تین امید وار ں نے الیکشن میں حصہ لیا
حلقہ پی پی23 2008 میں حلقہ پی پی 23پر تین امید وار ں نے الیکشن میں حصہ لیا جن میں مسلم لیگ ق کے ملک ظہو ر انو ر اعوان ،مسلم لیگ ن کے کر نل (ر) سلطا ن سر خر و اور پیپلز پا ر ٹی کے سر دار مقصو د حیا ت ٹمن نے حصہ لیا ۔ ایک کا نٹے دار مقا بلہ کے بعد ملک ظہو ر انو ر اعوان نے کر نل (ر) سلطا ن سر خر وکو 3017ووٹو ں سے شکست دی اور پیپلز پا ر ٹی کے امید وار سر دار مقصو د حیا ت ٹمن نے 19189ووٹ حا صل کیے۔حلقہ پی پی 23تحصیل تلہ گنگ کی 17یو نین کو نسل اور حلقہ پی پی 22کے16یو نین کونسل پر مشتمل ہے ۔ صوبائی حلقہ پی پی 23میں رجسٹرڈ ووٹ 202407ہیں۔مسلم لیگ ن کے ملک ظہو ر انور اعوان،مسلم لیگ ق کے سر دار امجد الیا س ،جماعت اسلامی کے ڈاکٹر پر وفیسر حمید اللہ ملک تحر یک انصا ف کے کر نل (ر) سلطا ن سر خر و حتمی امیدوار کے طور پر میدان میں آچکے ہیں ۔جبکہ پیپلز پا ر ٹی مسلم لیگ ق کے امیدوار سردار امجد الیاس کی حمایت کریگی اور ڈاکٹر علی حسنین نقوی جو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ کے امیدوار تھے ان کی الیکشن مہم میں بھرپور حصہ لینگے ۔11مئی کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے امید وار کے درمیا ن انتہائی دلچسپ مقا بلہ ہو گا ۔ملک ظہور انو ر 2008میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے منتخب ہو کر فا روڈ بلا ک میں شا مل ہو گئے تھے جو مسلم لیگ ن کو سپو رٹ کر رہا تھا اور حکو مت پنجا ب نے ملک ظہور انو ر کو بھی اپنے حلقہ پی پی تیئس کے لیے سکو لو ں ،ہسپتا لو ں ،سڑ کوں اور دیگر کا مو ں کے لیے اربو ں روپوں کے فنڈ ز دیئے جن کو انہوں نے بر وقت استعمال کر کے ایک اپنا ایک سیا سی ووٹ بینک بنا لیا ہے۔ لیکن ان کے مد مقابل مسلم لیگ ق کے امید وار سابق ضلع نا ئب نا ظم سر دار امجد الیا س نے بھی سا بق ڈپٹی وزیر اعظم چو ہد ری پر ویز الہی کے تعاون سے اپنے حلقہ میں ترقیاتی کا مو ں کا جا ل بچھا نے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔