تحریر : راجہ وحید احمد ایک وقت آتا ہے کہ انسان اپنے معاملات زندگی سے تنگ آ کر سکون چاہتا ہے میں بھی جب لاہور کی شور شرابے کی زندگی سے اکتا جاتا ہوں تو اپنی جنم بھومی کی طرف رخ کرتا ہوں اور میر ی جنم بھومی ہے پھوٹاکی راجگان ضلع چکوال میں واقع ایک چھوٹا سا گائوں میرئے گائوں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے بارانی زمین ہونے کی وجہ سے صرف کھیتی باڑی سے اُن کا گزارا نہیں ہوتا اس لیے گھرکے کچھ لوگ ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ بھی پکی ملازمت اور اُن کی نظر میںپکی ملازمت ہے پاکستان آرمی میں نوکری اس لیے میرئے گائوں میںجو بھی آپ کو ملیں گے یا تو وہ پاکستان آرمی میں ہو گے یا آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد کھیتی باڑی کرتے ہوئے ملیں گے جس طرح چکوال کے لوگوں کو پاکستان آرمی سے عشق ہے اس طرح ہی وہ مسلم لیگ ن کے عشق میں گرفتار تھے مشرف دور میں جب ہر طرف ق لیگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا یہ اُس دور کی بات ہے چوہدری لیاقت مرحوم(اللہ اُن کے درجات بلند کریں) بی اے کی شرط کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے اُن کی زوجہ محترمہ عفت لیاقت اُن کی جگہ الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی تھی شام کا وقت تھا چوہدری لیاقت جن کے ساتھ ہمارئے گھریلو مراسم تھے کچھ لوگوں کے ساتھ ہمارئے گائوں میں تشریف لائے گائوں کے بیس کے قریب لوگ ہمارئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔
چوہدری لیاقت صاحب کہنے لگے الیکشن میں آپ کا تعاون درکار ہو گا میرئے ماموں (اللہ اُن کے درجات بلند کریں)نے چوہدری لیاقت کی طرف دیکھا اور کہا چوہدری صاحب اگر تو آپ میاں نواز شریف کی طرف سے الیکشن لڑئے تو پھر آپ کو ہم سے ووٹ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگر آپ بھی ہوا کے ساتھ چل رہے ہے تو پھر ہماری طرف سے پیشگی معذرت جناب ایاز امیر جن کی طبعیت سیاست سے مطابقت نہیں رکھتی مشرف دور میں جب مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم این اے کے امیدوار تھے تو این اے ساٹھ چکوال سے ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر پنجاب میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار قر ار پائے یہ سب میاں نواز شریف کے سا تھ چکوال کے لوگوں کی محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا اس دفعہ جب میں تین دن چکوال رہا تو چکوال میں پی پی بیس میں ہونے والے ضمنی الیکشن کی گہما گہمی عروج پر تھی چوہدری لیاقت علی کی وفات کے بعد خالی ہونے والی صوبائی اسمبلی کی اس سیٹ پر الیکشن نو جنوری کو ہور ہا ہے صوبائی اسمبلی کی اس سیٹ پر 2013میں جب الیکشن ہوئے تو چوہدری لیاقت علی خان مسلم لیگ ن کی طرف سے 62088 ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اُن کے مدمقابل آزاد امیدوار چوہدری اعجاز حسین نے 35570 پی ٹی آئی کے علی ناصر خان بھٹی 7 3282 آزاد امیدوارشیخ وقار علی 10931 پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار شا جہاں سرفراز راجہ8032 اور دیگر امیدوار 2866 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے لیکن اس دفعہ چکوال میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کچھ ڈانواں ڈول سی محسوس کی اس میں بہت سے عوامل کار فرماں ہیں۔
پی پی بیس زیادہ دیہی علاقے پر مشتمل ہے اور ہمیشہ اس حلقے میں تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کا تعلق چکوال شہر سے رہا لیکن پی ٹی آئی نے ایک اچھا فیصلہ کرتے ہوئے پہلی دفعہ اپنا امیدوار دیہی علاقے(لُنڈی پٹی) سے نامزد کیا لُنڈی پٹی کا علاقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن راجہ طارق افضل جن کا تعلق دیہی علاقے سے ہے اُن کے پی ٹی آئی کا امیدوار ہونے سے مسلم لیگ ن کو اس علاقے سے ایک بڑئے ووٹ بنک سے محروم ہونا پڑئے گاپی ٹی آئی کے نامزد امیدوار راجہ طارق افضل اور مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار چوہدری سلطان حیدر کا اگر موازنہ کیا جائے تو راجہ طارق افضل کو انداز گفتگو، اخلاق ،شرافت اور کردار میں چوہدری سلطان حیدر پر برتری حاصل ہے چوہدری سلطان حیدر جو چوہدری لیاقت علی کے فرزند ہے چوہدری لیاقت کی زندگی میں بھی چکوال کی سیاست میں اُن کا بھرپور کردار رہااُن کے انداز سیاست اور اُن پر لگنے والے الزامات سے بھی لوگ بد ظن ہے چکوال جو پڑھے لکھے لوگوں کا علاقہ ہے اُس میں بسنے والے لوگ جاگیردرانہ سٹائل کی سیاست کو بھی ناپسند کرتے ہیں اور چوہدری حیدر سلطان کی اس طرح کی اداوں سے بھی لوگ متنفر ہیں۔
یہ عنصر بھی اس الیکشن میں ایک اہم کردار ادا کرئے گا چوہدری لیاقت علی خود ایم پی اے تھے تو اُن کی بیگم عفت لیاقت ایم این اے ہے لیکن یہ بات بھی لوگوں کی نظروں میں اس وقت اہمیت کی حامل ہے کہ ان کے دور حکومت میں چکوال میں اور خا ص کر کے اس حلقے میں ترقیاتی کاموں کو ترجیح نہیں دی گئی جس کی وجہ سے بھی مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک متاثر ہو سکتا ہے لُنڈ ی پٹی میں راجپوت برادری کا بھی ایک بڑا ووٹ بنک ہے اس ووٹ بنک کا بھی راجپوت ہونے کی وجہ سے راجہ طارق افضل فائدہ آٹھا سکتے ہے پیپلز پارٹی جو 2013کے الیکشن میں 8032ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی تھی اُس نے بھی اپنا امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار کر لیا ہے جس کا فائدہ بھی پی ٹی آئی کو جائے گااس ضمنی الیکشن میں سب سے اہم بات مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت کی ایک دوسرئے کے ساتھ سیاسی رنجشیں ہیں این اے ساٹھ چکوال میں مسلم لیگ ن میںدو گروپ ہیں میجر طاہر اقبال گروپ اور سردار عباس گروپ سردار عباس جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کا بھی حصہ رہے ہے 2013 کے الیکشن میں این اے ساٹھ میں وہ آزاد امیدوار کے طور پرمیجر طاہر اقبال کے مدمقابل تھے دونوں گروپ بلدیاتی الیکشن میں بھی ایک دوسرئے کے مدمقابل تھے سردار عباس کے مسلم لیگ ن میں شمولیت کے بعد دونوں گروپوں میں سیاسی رقابت اور گہری ہو چکی ہے۔
سردار عباس گروپ جس کا اس حلقے میں ایک مضبوط ووٹ بنک ہے اُن کا کردار بھی اس ضمنی الیکشن میں اہم ہوگا سردار عباس گروپ کے کچھ سرکردہ لوگ اس وقت پی ٹی آئی کی سپورٹ کررہے ہیںحالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کی طرف سے ناموس رسالت کے قوانین میں کی جانے والی تبدیلی اور میاں نواز شریف کا پانامہ کیس میں نام اور عدلیہ کی طرف سے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دینا ان تمام عوامل کی وجہ سے بھی چکوال کی عوام مسلم لیگ ن سے فاضلے پر کھڑی نظر آرہی ہے حالانکہ پاکستان تحریک انصاف کی مین قیادت اس لیکشن میں ابھی تک بھرپور کردار ادا کرتی نظر نہیں ا رہی اگر ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو پی پی بیس میں ہونے والا ضمنی الیکشن مسلم لیگ ن کے قلعے چکوال میں دڑاڑیں ڈالتا ہوا نظر آر ہا ہے اس الیکشن میں اگر یہ قلعہ زمین بوس نہ بھی ہوا تو لگتا اس طرح ہے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار راجہ طارق افضل اور اُن کے ساتھی فوزیہ بہرام،راجہ یاسر نواز ،علی نواز بھٹی 2018کے الیکشن میں اس قلعے کو زمین بوس کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گے۔