چکوال کی خبریں 21.07.2013

شام میں حضرت بی بی زینب کے مزار مقدسہ پر راکٹ حملہ کے خلاف شیعہ علمائ

چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر) شام میں حضرت بی بی زینب کے مزار مقدسہ پر راکٹ حملہ کے خلاف شیعہ علماء کونسل اور جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے احتجاجی ریلی نکالی جو امام بارگاہ مہاجرین سادات سے شروع ہوئی۔ ریلی میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ باب چکوال کے سامنے ریلی احتجاجی جلسہ کی شکل اختیار کرگئی۔ جہاں پرخطاب کرتے ہوئے شیعہ رہنمائوں احمد علی شاہ، مولانا امداد حسین صابری اور سید قمر عباس نقوی نے کہا کہ پاکستان میں ہونیوالے مزاروں پر حملے عراق میں امام حسن عسکری کے مزار مقدس کو شہید کیا جانا اور اب شام میں مظلوم کربلا کی بہن کے روضہ اقدس کو تباہ کرنے کی سازش کرنا ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ آل محمد ۖ کتنے مظلوم ہیں کہ انہیں زندگی میں بھی چین سے نہ رہنے دیا گیا اب چودہ سو سال بعد ان پاک ہستیوں کو مزاروں میں بھی چین سے نہیں رہنے دیا جا رہا۔مقررین نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور دھمکی دی کہ اگر فوری طورپر اصل محرکات کا سراغ نہ لگایا گیاتو ملک بھر کی شیعہ کمیونٹی شام کی طرف احتجاجی مارچ کرنے پر مجبور ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چکوال غلامی سے آزادی کی طرف کا سفر بڑا سخت،صبرآزما اور طویل ہوتا ہے
چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر) چکوال غلامی سے آزادی کی طرف کا سفر بڑا سخت، صبرآزما اور طویل ہوتا ہے اس سفر میں امید ہی واحد سہارا ہوتی ہے جس کی بدولت قوم غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتی رہتی ہے اس جدوجہد میں کبھی تیزی آجاتی ہے اور کبھی کبھار یہ سست روی کا شکار ہو جاتی ہے یہ سفر اپنے مقصد کے حصول پر ہی آکر ختم ہوتا ہے اور جاندار قومیں آزادی حاصل کرنے کے بعد اس کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت چوکس اور مستعد رہتی ہیں پاکستانی قوم کا بھی یہ سفر بڑا طویل اور کٹھن ہے اور اس کی منزل ابھی دور ہے اس قوم نے پہلے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور پھر قیام پاکستان کے بعد سے لیکر اب تک جمہوریت کے قیام کے لیے سرگرم رہی ہے کیونکہ آج کے جدید دور میں جمہوریت ہی کسی قوم کی آزادی کی علامت سمجھی جاتی ہے اور پاکستانی قوم آج تک حقیقی جمہوریت سے کوسوں دور ہے لہذا اسے ہم ابھی تک مصروف سفر ہی کہیں گے۔ پاکستانیوں کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ انہوں نے طویل آمریت کے ادوار دیکھے ہیں اور ماضی میں جو جمہوریت کے کچھ دن ان کو دیکھنے نصیب ہوئے ہیں وہ بھی سازشوں اور بحرانوں سے بھر پور تھے گویا یہ قوم کبھی بھی جمہوریت سے فیض یاب نہ ہو سکی اور اس کے ثمرات اس تک نہ پہنچ سکے آمریت اور ملوکیت نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے انداز کو بدلا ہے اور وہ بھی جمہوریت کے لبادے میں آج پاکستانی قوم کا استحصال کرنے میں مصروف ہے ملک میں جمہوریت کا گیت گانے والا درحقیقت یہ وہ طبقہ اشرافیہ ہے جو اس قوم کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے آج ملوکیت نے جمہوریت کا لباس زیب تن کر رکھا ہے طبقہ اشرافیہ اپنے سرمائے اور طاقت کے زور پر عوام کو یہ باور کروانے پہ تُلا ہواہے کہ ملک میں اس وقت جمہوریت ہے اور عوام ہی کی حکومت ہے جبکہ عوام اہم قومی اور ملکی معالات سے کوسوں دور ہیں ان کی تقدیر کے فیصلے اب بھی اشرافیہ اور مقتدرہ کے ہاتھ میں ہیںاس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے روز مرہ کے مسائل کے لیے بھی انہی کے دروازوں پر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اس وقت ملک کے جمہوری اداروں پر سرمایہ داروں ،جاگیرداروں اور صنعت کاروں کا قبضہ ہے اور وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وہاں بیٹھے ہیں انہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے یہ لوگ اپنے سرمائے اور طاقت کے بل بوتے پر ان اداروں پر قابض ہو جاتے ہیں اور عام آدمی کو ان اداروں تک پہنچنے سے محروم رکھا جا تا ہے عام آدمی صرف اسی صورت میں اوپر آسکتا ہے جب وہ بلدیاتی نظام سیاست میں حصہ لے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں بلدیاتی نظام رائج ہو یہی وجہ ہے کہ خود کو جمہوریت کے علمبردار کہنے والوں نے گزشتہ پانچ سالوں سے ملک میں بلدیاتی نظام کو معطل کر رکھا ہے بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی روح کہا جاتا ہے اور بد قسمتی سے ملک میں بغیر روح کے جمہوریت ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم اپنے حق کے لیے آج بھی سر گرم عمل ہے لوگ اپنے اس حق کے لیے سپریم کورٹ میں گے عدالت نے ماضی میں بھی حکومتوں سے کہا کہ وہ ملک میںجلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروائیں مگر حکومتیں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی اب آکے عدالت نے واضح حکم جارہی کر دیا ہے کہ ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کروا دیے جائیں عدالت میں سماعت کے دوران سوائے کے پی کے کی حکومت کے باقی تینوں صوبوں کی حکومتیں پس و پیش سے کام لیتی رہی اور ان انتخابات کے التوا کے لیے تاخیری حربے اختیار کرتی اور بہانے بناتی رہی مگر عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 32اور140 A میں بلدیاتی نظام کو جمہوری نظام کا جزو لازم قرار دیا گیا ہے لہذا بلدیاتی انتخابات نہ کروانا غیر آئینی قدم ہو گا عدالت نے آئین کے عین مطابق حکم جاری کیا ہے جسے پاکستانیوں نے ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے بڑا قدم قرار دیا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان ملوکیت کے علمبرداروں کے ہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور اب وہ اس نظام کو بھی اپنے تابع کرنے کے خواہاں ہیں اور اب قانون سازی کے ذریعے عام آدمی کو اس نظام میں بے بس کر دینا چاہتے ہیں پنجاب سے ایک تجویز یہ بھی آئی ہے کہ ان اداروں میں ارکان اسمبلی کا بھی کردار ہو گا جو کہ سراسر غلط اور آئین کے روح کے منافی ہے ایک شخص کس طرح دو اداروں میں بیک وقت کردار ادا کر سکتا ہے درحقیقت یہ لوگ بلدیاتی اداروں پر بھی اپنی گرفت رکھنا چاہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ قوم آہستہ آہستہ حقیقی جمہورت اور آزادی کی منزل تک نہ پہنچ سکے پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات تو غیر جماعتی بنیادوں پر کروانا چاہتی ہے مگر ان اداروں کے سربراہوں کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر کروانے کا ارادہ رکھتی ہے یہ دوہرا معیار عوام کے ساتھ کسی مذاق سے کم نہیں ہے ایسا کرنے سے یہاں سیاسی کرپشن میں اضافہ ہو گا پنجاب،سند اور بلوچستان کی حکومتیں بلدیاتی انتخابات عدالتی حکم کی وجہ سے کروانے پر مجبور ہیں مگر وہ اب ان اداروں کو بھی اپنے زیر تسلط رکھنے کے لیے اپنی پسند کا نظام لانے کے خواہش مند ہیں اس کے بر عکس صوبہ کے پی کے کی حکومت نے عدالتی فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا ہے اور عدالت میں بھی کہا ہے کہ وہ فوری طور پر صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتے ہیں ان کے اس موقف کو نہ صرف عدالت نے سراہا ہے بلکہ اپنے فیصلے کی ایک وجہ بھی قرار دیا ہے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی وہاں ایک منظم اور وسیع تر عوامی اختیارات کا نظام لانا چاہتے ہے اور اس سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ایک مثالی بلدیاتی نظام قوم کے سامنے پیش کریں گے الیکشن کمیشن نے بھی کہا ہے کہ چاروں صوبے یکساں بلدیاتی نظام رائج کریں ایسی صورت میںاب دیکھنا یہ ہو گا کہ تحریک انصاف کس طرح پوری قوم کو ملوکیت کے چنگل سے نجات دلانے میں کامیاب ہو تی ہے یا پھر وہ بھی اس طبقے کی سازش کا شکار ہو جاتی ہے یہ قوم جو ہمیشہ سے ظلم کو نذرانے دیتی چلی آئی ہے بلدیاتی انتخابات کے اعلان پر خوشی سے رقصاں ہے مگر وہ اب بھی ملوکیت اور سیاسی آمریت کے زنجیروں میں بندھی ہوئی ہے اسے خوشی کے اس رقص میں ان زنجیروں کو توڑنا ہے اس کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے سفر طویل ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی طرف تو پہلا قدم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتا زیمکو موٹر سائیکل سنٹر پراپرٹی مقدمہ میں بیوہ کنیز اختر نے موقف اختیار کیا ہے
چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر) داتا زیمکو موٹر سائیکل سنٹر پراپرٹی مقدمہ میں بیوہ کنیز اختر نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ مذکورہ پراپرٹی کے مالک ہیں اور چوہدری محمد حسنین ان کا کرایہ دار ہے۔چوہدری محمد حسنین نے دکان کرایہ پر حاصل کر رکھی تھی۔جس کا معاہدہ دو سال پہلے ختم ہو گیا تھا۔اور عدالت نے فیصلہ ان کے حق میں دیا تھا۔بعد ازاں محمد حسنین نے بعدالت جناب سہیل اکرام ایڈیشنل سیشن جج مہلت مانگی دو سال کا معائدہ کیا گیا۔جو اکتیس مارچ کو ختم ہوا اور حسنین نے پراپرٹی انہیں واپس کر دی۔بعد ازاں محمد حسنین نے تیرہ جولائی کو حملہ آور ہو کر مذکورہ دکان پرقبضہ جما لیا۔اور یہ تاثر دیا کہ ہم نے حملہ کر کے دکان پر قبضہ کیا ہے بیوہ کنیز اختر نے محمد حسنین کے تمام الزامات رد کر دئیے اور کہا کہ ہمیں کوئی سیاسی پشت پناہی حاصل نہیں بلکہ اللہ کی مدد حاصل ہے اور اللہ ضرور انصاف کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چکوال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ایک منظم اور قواعدو ضوابط کے تحت کام کررہا ہے
چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر) چکوال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ایک منظم اور قواعدو ضوابط کے تحت کام کررہا ہے۔ اس ادارے میں فرد واحد کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایگزیکٹو کمیٹی پالیسی ساز ادارہ ہے اور چیمبر آف کامرس کی ایگزیکٹو باڈی اور ممبران کے اندر باہمی تعاون کی فضاء موجود ہے۔ تمام فیصلے مشاورت کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ لہذا اس ضمن میں پھیلائے جانیوالے پروپیگنڈہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ بات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر صاحبزادہ عبدالقدوس نقشبندی، ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران قاضی محمد اکبر، اور حاجی نذیر سلطان نے چکوال چیمبر آف کامرس کے دفتر میں میڈیا کے نمائندگان کے اعزاز میں دئیے گئے افطار ڈنر کے موقع پر بریفنگ کے دوران بتائی۔ چکوال چیمبر آف کامرس چکوال کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا۔ جس کی شروع ہی سے کارکردگی بہترین ہے۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ چیمبر کا اپنا آئین ہے جو انڈسٹریز آف پاکستان کے تحت موجود ہے۔اور اس آئین کے تحت ہر سال آڈٹ ہوتا ہے صاحبزادہ عبدالقدوس نقشبندی اور دیگر کا کہنا تھا کہ چکوال کو چیمبر آف کامرس کی بدولت کاروباری دنیا میں تحفظ ملا انہوں نے تمام الزامات کو رد قرار دیااور کہا کہ چیمبر کے سابق سیکرٹری جنرل کا انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور تبادلہ ہوا جس کی وجہ سے انہیں چکوال چھوڑنا پڑا۔ اور انہوںنے اپنی نشست سے استعفیٰ دیا۔ ان کے تمام معاملات واضح اور کلیئر ہیں۔ انڈیا دورے کے بارے میں صاحبزادہ عبدالقدوس نے واضح کیا کہ حالات کے کشیدہ ہونے پر منسٹری نے ہمیں دورہ کرنے سے روکا جس کی تمام ممبران کو باقاعدہ تحریری طور پر اطلاع دی گئی۔ کئی ممبران نے جمع کرائی گئی رقم واپس بھی لے لی۔ ڈی پی ایس کے نام پر کوئی رقم نہیں بٹوری گئی۔ اس کا پراجیکٹ انچارج ڈی سی او تھے۔ لہذا ان الزامات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ قاضی محمد اکبر کا کہناتھا کہ چیمبر آف کامرس کے باقاعدہ قواعد و ضوابط ہیں۔ اور دو سال مسلسل ممبر رہنے والا ووٹ پول کر سکتا ہے۔جبکہ صدر ایک ہی بار بن سکتا ہے۔ افطار ڈنر میں خرم کامران، شفیق الزمان، چوہدری شہزاد سعادت ایڈووکیٹ، خواجہ عارف، کامران ،راجہ نسیم، یاسین چوہدری،اور دیگر ایگزیکٹو
باڈی کے ممبران نے شرکت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان القرآن کے پہلا پروگرام اسلامیہ ہائی سکول کے گرائونڈ میں منعقد ہوا
چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر) تحریک منھاج القرآن کے زیر اہتمام رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں مسلسل چھٹا سا لانہ روزہ دروس عرفان القرآن کے پہلا پروگرام اسلامیہ ہائی سکول کے گرائونڈ میں منعقد ہوا جس کے عنوان تھا اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ محمد افضال قادری نے کہا کہ شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کر نا ہی ایک مسلمان کا وطیرہ اور طرہ امتیاز ہے اور شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کیے بغیر ایمان کی بنیاد ہی نہیں بنتی اور یہ اسی وجہ سے ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا ہی ایمان کی اساس ہے لیکن خود آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں ہے کہ وہ جس چیز میںبھی چاہیں اپنے اختیارات کا استعمال کرسکتے ہیںجس چیز کی چاہیے جسے اجازت دے سکتے ہیںاور منع کر سکتے ہیں جس کی مثالیں علامہ محمد افضال قادری نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں واضح کیں جس پر حاضرین عش عش کر اٹھے پروگرام میں مردوں اور خواتین کی ایک بڑی تعدا د کے علاوہ علمائے کرام کی بھی کثیر تعداد میں شرکت کی پروگرام کی نقا بت حافظ محمد خان صاحب نے سرا نجام د ی یاد رہے کہ یہ پروگرام 21سے25جولائی تک بعد نماز فجر اسلامیہ ہائی سکوال گرائونڈ میں منعقد ہورہے ہیں ہر روز نیا موضوع اور نیا مقرر ہوگا
چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر)ڈنڈوت میںملنے والی سر کٹی لاش کا سر بھی مل گیا اور لاش کی شناخت بھی کر لی گئی مقتول مسر ت اقبال کی لاش جس کا سر تن سے جدا تھا دو روز قبل ٹی ایم اے چوآ سیدن شاہ نے ناقابل شناخت قرار دیکر مقامی قبر ستان میں دفن کر دیا تھا اتوار کے روز مقتول کا سر بھی مل گیا اور قبر کشائی کے بعد میت ڈنڈوت لیجائی گئی جسے نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کردیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام میں حضرت زینب سلام اللہ علہیا  کے مزار مقدسہ پر راکٹ حملہ کے خلاف شیعہ علما
چکوال(اعجاز بٹ) شام میں حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہ کے مزار مقدسہ پر راکٹ حملہ کے خلاف شیعہ علماء کونسل اور جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے احتجاجی ریلی نکالی جو امام بارگاہ مہاجرین سادات سے شروع ہوئی۔ ریلی میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ باب چکوال کے سامنے ریلی احتجاجی جلسہ کی شکل اختیار کرگئی۔ جہاں پرخطاب کرتے ہوئے شیعہ رہنمائوں احمد علی شاہ، مولانا امداد حسین صابری اور سید قمر عباس نقوی نے کہا کہ پاکستان میں ہونیوالے مزاروں پر حملے عراق میں امام حسن عسکری کے مزار مقدس کو شہید کیا جانا اور اب شام میں مظلوم کربلا کی بہن کے روضہ اقدس کو تباہ کرنے کی سازش کرنا ایک ہی سلسلہ کی کڑیاںہیں۔ آل محمد ۖ کتنے مظلوم ہیں کہ انہیں زندگی میں بھی چین سے نہ رہنے دیا گیا اب چودہ سو سال بعد ان پاک ہستیوں کو مزاروں میں بھی چین سے نہیں رہنے دیا جا رہا۔مقررین نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور دھمکی دی کہ اگر فوری طورپر اصل محرکات کا سراغ نہ لگایا گیاتو ملک بھر کی شیعہ کمیونٹی شام کی طرف احتجاجی مارچ کرنے پر مجبور ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام میںنواسی رسول اور علی کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علہیا کے مزار اقدس پر حملے کی شدید مذمت کی گئی
چکوال( ) تحریک منھاج القرآن کیجانب سے شام میںنواسی رسول اور علی کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علہیا کے مزار اقدس پر حملے کی شدید مذمت کی گئی اس موقع پرحاجی عبد الغفور شیخ نے کہا کہ یہ ایک بزدلانہ اور یزیدی کاروائی ہے جس پر جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنڈوت میںملنے والی سر کٹی لاش کا سر بھی مل گیا اور لاش کی شناخت بھی کر لی گئی
چکوال( ) ڈنڈوت میںملنے والی سر کٹی لاش کا سر بھی مل گیا اور لاش کی شناخت بھی کر لی گئی مقتول مسر ت اقبال کی لاش جس کا سر تن سے جدا تھا دو روز قبل ٹی ایم اے چوآ سیدن شاہ نے ناقابل شناخت قرار دیکر مقامی قبر ستان میں دفن کر دیا تھا اتوار کے روز مقتول کا سر بھی مل گیا اور قبر کشائی کے بعد میت ڈنڈوت لیجائی گئی جسے نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کردیا گیا۔