بے جا تنقید تو ہر جگہ ہوتی ہے۔پہلے یہ تنقید گلی، محلوں اور دکانوں میں ہوا کرتی تھی۔دنیا میں سوشل میڈیا کا استعمال بڑھتے ہی، یہ تنقید تیزی سے پھیلنا بھی شروع ہوگئی۔ایسی ہی تنقید پاکستان کے زیر سمندر گیس اور معدنیات کے ذخائر کی دریافت میں ناکامی کے باعث بھی سامنے آئی۔کیکڑا ون کے مقام پر5560 میٹر زیر سمندر خودائی پر چودہ ارب روپے خرچ ہوئے۔ مخالفین نے حکومت کو اس ناکامی پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔اسی طرح چندریان ٹو کی ناکامی پر انڈین حکومت کو بھی مخالفین کی تنقید کا سامنا ہے۔دنیا میں تحقیقات پر بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ پہلی ہی کوشش میں کامیابی ملے۔بہت سے سائنسدانوں نے ناکامیوں سے سیکھا۔تھومس ایڈیسن نے ہزار کے قریب کوششوں کے بعد بلب ایجاد کیا۔تحقیق نہ ہو تو دریافت و تخلیق کیسے ہو۔تحقیقات جدت کو رائج کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ،تحقیقات پر خرچ کرنے والے آج دنیا میں سرفہرست ہیں۔ بھارت نے ’چندریان‘ نامی منصوبہ کے تحت اکتوبر 2008 میں اپنا پہلا سیارا چاند پر بھیجا۔یہ سیارا چاند پر لینڈ تو نہ کر سکا۔البتہ چاند کے مدار میں چاند سے 200کلومیٹر اونچائی پردس ماہ تک گردش کرتا رہا۔جس نے چاند پر معدنیات کا جائزہ لیا۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے بعد میں ان معلومات سے چاند کے قطب جنوب پر موجود گڑھوں پرپانی کوبرف کی شکل میں دریافت کیا۔جس سے انسان کے چاند پر قدموں کے امکانات ظاہر ہونے لگے۔ ان معلومات کو بنیاد بنا کر مزید تحقیقات جاری ہیں۔
اسی ضمن میں بھارت نے’چندریان ٹو‘ کے نام سے چاند کے قطب جنوب پر اترنے کا منصوبہ بنایا۔’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائیزیشن‘نے اسے ترتیب دیا۔جس پر 140ملین ڈالر کا خرچ ہوا۔جو ’سری ہاری کوٹا اسپیس سینٹر‘ سے22جولائی2019کو چاند پر جانے کے لئے’جیو سنکرونس سیٹلائیٹ لانچ وہیکل مارک3‘کے زریعے لانچ کیا گیا۔چندریان ٹو ایک ’لونار آربیٹر‘،’لینڈر‘ اور’روور‘ پر مشتمل تھا۔ان تمام مشینوں کو بھارت میں ہی تیار کیا گیا۔اس سیارہ کا اہم سائنسی مشن نقشہ تیار کرنا اور چاند پر پانی تلاش کرنا تھا۔’لینڈر‘ اور’روور‘ نے چاند پر اتر کر وہاں موجود کیمیاء کا جائزہ لینا تھا۔’آربیٹر‘ اور’لینڈر‘نے زمین پر معلومات بھیجنا تھیں۔اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا، تو چاند کے قطب جنوب پراترنے کی پہلی مثال ہوتا۔
گزشتہ روز معلوم ہوا کہ سیارہ اپنے مطلوبہ حدف سے محض 2.1کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا کہ، اچانک اس کا زمین پر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔چاند زمین سے 384800کلومیٹر کی دوری پر ہے۔یعنی بھارتی سیارہ اپنے ہدف سے 0.000546فیصد دوری پر تھا۔بعض کے نزدیک سیارہ چاند کے مدار میں داخل ہونے کے بعد اپنی رفتار برقرار نہ رکھ سکا۔ جس کے باعث وہ چاند سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔تاہم اصل حقائق تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔’بھارتی اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘ کے چیف ناکامی کے باعث اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہوگئے۔وہاں موجود بھارتی وزیر اعظم انہیں دلاسہ دیتے رہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ، وہ ایسے پروگرام پر فخر محسوس کرتے ہیں جو چاند پر تحقیقات کے بالکل قریب آچکا تھا۔مزید کہا کہ ایسے مواقع دوبارہ بھی آئیں گے۔جہاں اس ناکامی کی خبریں دنیا بھر میں گردش کرنے لگیں۔وہیں خود بھارت اور پاکستان میں اس منصوبے کی ناکامی پر تنقید سامنے آنا شروع ہوگئی۔بھارتی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر لونے راجر کے مطابق یہ منصوبہ صرف خلائی ملبے میں اضافے کا سبب بنا۔اس سے بھارت اپنے سماجی مسائل پر قابو پا سکتا تھا۔ روایتی حریف پاکستان کا تو اس منصوبے میں بظاہر کوئی عمل دخل نہیں۔تاہم پاکستانیوں نے بھی بھارتی ناکامی کو آڑے ہاتھوں لیا۔پاک فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے کہا کہ، کیا بھارت دیگر الزامات کے طرح اس ناکامی کا ملبہ بھی آئی ایس آئی اور معصوم کشمیریوں پر ڈالے گا؟
معاملہ سوشل میڈیا پر شدت اختیار کر گیا جب فواد چوہدری نے بھارتی ناکامی کا تمسخرا اڑاتے ہوئے کہا کہ، جو کام آتا نہیں پنگا کیوں لیتے ہو۔چاند کی بجائے ایک کھلونا زمین پر اتر گیا۔مزید انہوں نے مودی کو خلا نورد سے تشبیہ دی اور لوک سبھا سے مودی سے جواب طلبی کا مطالبہ کیا۔وغیرہ وغیرہ۔ان کی تنقید پر زیادہ ردعمل اس وجہ سے آیا کہ یہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں۔ ان کا چاند کو دیکھنے متعلق علماء سے تناؤ بھی چلتا رہا۔ایک سوشل میڈیا صارف کے مطابق،وہ قوم چاند پر جانے والوں پر تنقید کر رہی ہے، جو آج تک چاند کو دیکھنے پر متفق نہیں۔ ماضی میں انہوں نے زبانی تخمینہ بھی لگایا کہ، ہیلی کاپٹر 55روپے میں کلومیٹر کی مائلیج دیتا ہے۔ ماضی میں انہیں بے جا تنقید کے باعث ہی وزرات اطلاعات سے ہاتھ دھونا پڑھا۔اور ایسی وزرات ان کا مقدر بنی،جس کو پاکستان میں رجحان کم ہونے کی بنا پر کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹ بے روزگا ر ہیں۔فواد چوہدری کو جہاں بھارتی صارفین نے تنقید کا نشانہ بنایا۔وہیں بعض پاکستانیوں نے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک صارف نے کہا کہ پاکستان نے فواد چوہدری کی قیادت میں پہلا قدم زمین پر رکھ دیا ہے،اب ہم چاند سے محض 384800کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔
پاکستان خلائی تحقیقی ادارہ’سپارکو‘ چین کی مدد سے دو ہی موسمی سیارچے خلا میں بھیج سکا ہے۔جبکہ بھارتی خلائی ادارہ اکیلے ہی 104سیٹلائٹس لانچ کر چکا ہے۔اگر آج چین کے مفادات بدل جائیں،تو ہمیں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کس کی حمایت حاصل ہوگی؟کیا ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں خودمختار بن پائیں گے؟ہمارے ہاں تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والوں کامستقبل کیا ہے؟سوچنا ہوگا! پاکستان میں بڑا طبقہ(انہیں پڑھا لکھا کہنا شاید درست نہ ہو) یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ،چاند پر لینڈنگ محض افسانہ ہے۔تو عرض ہے کہ، کیا دنیا میں امریکہ کی تحقیق کی بنا پر برتری بھی محض ڈرامہ ہی ہے؟متعدد تحقیقی مرکز،بڑی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بھی محض افسانہ ہی ہیں کیا؟اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں سیٹلائٹ کے نظام سے بھی منحرف ہونا چاہئے۔حتی کہ ہمیں پھر فنی و تکنیکی علم کی جستجو ہی نہیں کرنی چاہئے۔
ایسے لوگ صدیوں پہلے موبائل فون اورہوائی جہاز کو بھی افسانہ ہی سمجھتے ہوں گے۔مگر وقت کے ساتھ تحقیقات سے حاصل ہونے والی جدت سے مستفید ضرور ہوتے ہوں گے۔ اللہ تعالی نے دنیا میں انسانی عقل اور حیرت کے لئے بہت کچھ بنایا ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ، ہم اللہ کی تخلیقات کی خوج کریں۔یا پھر منکر ہوکر غور و فکر ہی چھوڑ دیں۔پنجابی کا محاورہ ہے کہ،’عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں،عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں‘۔ ہم مسلمان قوم تحقیقات سے بہت دور ہو چکے ہیں۔جبکہ مسلم تاریخ میں کئی سائنسدان گزرے ہیں۔جو تحقیق کی دنیا میں آج بھی زندہ ہیں۔یورپ نے تحقیق کی بدولت ہی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ امریکہ دنیا کے زہین دماغ استعمال کرتا ہے۔پڑھے لکھے لوگوں کو اچھا معاوضہ دے کر تحقیقات کرا تا ہے۔ وہی قومیں دنیا کی دوڑ میں شامل رہیں گی،جو جدت کو ساتھ لے کر چلیں گی۔جس کو خود کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو،وہی دوسروں کی ناکامیوں پر خوش ہو سکتا ہے۔ مگرہم تو ایسے نہیں ہیں۔ ہر گز نہیں!