پاکستان میں تبدیلیوں کا مینابازار لگا ہے لیکن عقل کے اندھوں کو کہیں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ یہ تبدیلی تو 2014ء سے ہی شروع ہو گئی تھی جب ریحام خاں سے شادی کے بعد کپتان نے ڈی چوک اسلام آباد میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا ”کون کہتا ہے تبدیلی نہیں آئی، میرے گھر میں تو تبدیلی آگئی ہے”۔ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد جب عمران خاں نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو تبدیلیوں میں تیزی آگئی۔ پنجاب کے تبدیلی بازار میں صرف 2 سالوں میں 5 چیف سیکرٹری اور 5 آئی جی تبدیل ہوئے۔ 9 ہائر ایجوکیشن سیکرٹری، 4 سیکرٹری تجارت اور 3 سیکرٹری خزانہ تبدیل ہوئے۔ اِس کے علاوہ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے 4 چیئرمین، ایف بی آر کے 4 چیئرمین، ایس ای سی پی کے 3 چیئرمین بھی اِدھراُدھر ہوئے۔ 3 فوڈ سیکیورٹی وزیر، 3 وزیر اطلاعات ونشریات اور 3 انڈسٹری کے وزیر بھی گھر کو سدھارے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بیچارے کس کھیت کی مولی۔ مشیران اور معاونینِ خصوصی کی فوج ظفرموج میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن سب سے بڑی تبدیلی سیاست میں رقیق زبان کا استعمال ہے جو ”اوئے نواز شریف” سے شروع ہوکر گالی گلوچ تک آن پہنچی ہے۔
کسی کو اچھا لگے یا برا، سیاست میں غیرپارلیمانی زبان کے موجد ہمارے وزیرِاعظم ہیں جن کی پیروی فیاض چوہان جیسے لوگ کرتے ہوئے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ جماعت اسلامی سے نکلا ہوا وہی فیاض چوہان ہے جس نے ہندوؤں کو گائے کا پیشاب پینے والے کہہ کر مخاطب کیا۔ وہ کسی کو ”خلائی کھوتا” کہتا ہے تو کسی کو ”مونچھوں والا بندر”۔ اُس نے تو اپنی ہی جماعت کے وزیر فوادچودھری کے بارے میں بھی کہہ دیا ”فوادچودھری کے دماغ میں بھوسہ بھراہے”۔ تحریکِ انصاف والے خود ہی فیصلہ کرتے پھریں کہ کس کے دماغ میں بھوسہ بھراہے ”سانوں کی”۔ ہم تو تبدیلی سرکار کے کارنامے گنوانے بیٹھے ہیں۔
تبدیلی سرکار کا تازہ ترین کارنامہ ملاحظہ ہوکہ سی سی پی او لاہور اور آئی جی پنجاب کے اختلافات سامنے آنے پر آئی جی پنجاب کو تبدیل کردیاگیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جب عمرشیخ کوسی سی پی او لاہورتعینات کیا گیا تو اُس نے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے خلاف کچھ باتیں کیں جس پر شعیب دستگیر نے نہ صرف اپنے آفس آنا چھوڑ دیا بلکہ وزیرِاعلیٰ پنجاب سے سی سی پی او کے رویے کی شکایت بھی کی۔ معاملہ جب وزیرِاعظم کے علم میں آیا تو اُنہوں نے عمرشیخ کو اپنے عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے شعیب دستگیر کی جگہ 21 ویں گریڈ کے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب انعام غنی کو نیا آئی جی مقرر کر دیا۔ نئے آئی جی کی تقرری پر پنجاب پولیس کے افسران کا ہنگامی اجلاس ہواجس میں ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود نے نئے آئی جی کے ماتحت مزید کام کرنے سے انکار کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کسی جونیئر کی سربراہی میں کام نہیں کر سکتے۔ ہنگامی اجلاس (جس میں پولیس کے تقریباََ تمام اعلیٰ افسران شامل تھے) میںمطالبہ کیاگیا کہ سی سی پی او لاہور عمرشیخ کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے۔ اعلیٰ افسران ہنگامی اجلاس میں آئی جی پنجاب کے اِس انداز میں تبادلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ آئی جی کو حکومت کی مخالفت کرنے والے سیاستدانوں کو حکومت کے انتقامی ایجنڈے کا حصہ نہ بننے پر ہٹایا گیاہے۔ سی سی پی او لاہور عمرشیخ وہی شخص ہیں جن کی کارکردگی کی منفی رپورٹ آنے پر لگ بھگ 2 ماہ پہلے وزیرِاعظم نے پروموشن روک دی تھی۔اب پتہ نہیں عمرشیخ کے ہاتھ کون سی گیدڑسنگھی آگئی کہ اُنہیں لاہور میں اہم ترین سیٹ پر تعینات کر دیاگیا۔ اِسی لیے اپوزیشن شور مچا رہی ہے کہ موجودہ حکومت ہر ادارے میں سیاسی مداخلت کر رہی ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے بھی کیاہے۔
موٹروے پرخاتون کے ساتھ زیادتی کے شرمناک واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ پنجاب پولیس میں ہونے والے تبادلے سیاسی مداخلت کی علامت ہیں۔ گزشتہ روز لاہورمیں کمرشل کورٹس کے ججز کی ٹریننگ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ ایسا لگتاہے محکمہ پولیس کا کنٹرول نااہل لوگوں کے پاس ہے جس نے ملک کا امن وامان تباہ کر دیاہے۔ حالیہ شرمناک واقعہ بھی اِسی کا نتیجہ ہے۔ حکومت محکمہ پولیس کی ساکھ بحال کرے اور کسی بھی سیاسی شخص کی مداخلت کا راستہ روکے۔ اُنہوں نے فرمایا ”ہم دیکھ رہے ہیں پولیس سیاسی ہو چکی ہے۔ پولیس کے سیاسی ہونے سے ملک میں لوگوں کے جان ومال محفوظ نہیں رہے اور ہائی وے پر معصوم مسافروں کی زندگیاں محفوظ نہیں رہیں”۔ یہ الفاظ چیف جسٹس آف پاکستان کے ہیں، اپوزیشن کے نہیں۔ اِس لیے تبدیلی سرکار کو اپنی اداؤں پر غور کرنا ہوگا۔
نئے سی سی پی او عمرشیخ کے تازہ ترین بیان نے نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی حلقوں میں بھی ہلچل مچادی ہے۔ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ اندوہناک زیادتی کے واقعے پر مذمت کی بجائے سی سی پی او نے کہا کہ خاتون رات کے وقت باہر کیوں نکلی؟۔ خاتون نے پٹرول چیک کیوں نہیں کیا؟۔ خاتون کے ساتھ ڈرائیور کیوں نہیں تھا؟۔ سی سی پی او نے یہ بھی کہا کہ خاتون موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ پر کیوں نہیں گئی؟۔ عمرشیخ نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کو فرانس سمجھ کر نکلی ہوگی جہاں خواتین محفوظ ہیں۔ عمرشیخ کے اِس بیان کے بعد لوگوں میں یہ تاثر جنم لینے لگاہے کہ اُنہیں پولیس جیسے اداروں سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور کسی خوش فہمی میں مبتلاء ہونے کی بجائے اپنی حفاظت کے لیے متبادل حفاظتی انتظامات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
سوال مگر یہ ہے کہ جب عوام نے اپنی حفاظت خودہی کرنی ہے تو پھر عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والا محکمہ پولیس کیوں؟۔ شاید ہمارے سی سی پی او نہیں جانتے کہ اسلام میں خواتین کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے اپنی جان تک قربان کر دینے کا حکم ہے۔ اگر اُنہیں علم ہوتا تو کبھی فرانس کا حوالہ نہ دیتے۔ جتنا تحفظ اسلام نے عورت کو دیاہے، اُتنا ادیانِ عالم یا کسی معاشرے نے نہیں دیا۔ اگر چودہ سو سال پہلے زیورات سے لدی اکیلی عورت مکّہ سے مدینہ تک بغیر کسی خوف کے سفر کر سکتی تھی تو آج اکیلی عورت سڑک پر کیوں نہیں نکل سکتی؟۔ تسلیم کہ اِس میں اُس خاتون کا قصور بھی ہوگا جس نے گاڑی کا پٹرول چیک نہیں کیا لیکن اُس وقت ہماری پولیس کہاں سوئی ہوئی تھی جب وہ خاتون بار بار پولیس کو کال کر رہی تھی اور پولیس اِس جھگڑے میں کہ وہ علاقہ کس کی عملداری میں آتاہے۔ کیا انسانیت کا تقاضہ یہ نہیں تھا کہ پولیس عملداری کے جھگڑے میں پڑے بغیر فوری طور پر مدد کو پہنچتی لیکن جہاں تقرریاں سیاسی ہوں، وہاں ایسا تو ہونا ہی تھا۔