دنیا میں جمہوریت پسندوں کی یہ عمومی روائت ہے کہ عوام ظلم و جبر اور نا انصافی کے خلاف اپنے جذبات کے اظہارکی خاطر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔جمہوریت نہ صرف اس کی اجازت دیتی ہے بلکہ اس کیلئے قوائد بھی مدون کرتی ہے ۔بد قسمتی سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں احتجاج کرنے والوں کو غدار اور ملک دشمن کہ کر پکارا جاتا ہے اور ان کے احتجاج کو ملک کے خلاف سازش سے تعبیرکر کے زند انوں میں پھینکا جاتا ہے ۔پوری دنیا میں اس وقت عوام کا احتجاج اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ہانگ کانگ میں عوامی احتجاج کو کئی مہینے گزر گئے ہیں،فرانس میں پیلی جیکٹ احتجاج نے ساری دنیا کو بیدار کر دیا ہے جبکہ چلی میں عوامی احتجاج ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
احتجاج کا حق نہ ہوتا تو پھر عوامی شکائیات کو حکمرانوں کے گوش گزار کیسے کیا جاتا۔؟پاکستان میں جولائی ٢٠١٨ کے انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی پہلے دن سے ہی دھاندلی کے الزامات کی زد میں ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس بیانیہ میں شدت آتی چلی گئی کہ اس دھاندلی زدہ اسمبلی کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے ۔حکومت کی برخاستگی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ملک کی ساری اپو زیشن جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موجو دہ حکومت کے بر سرِ اقتدارہوتے ہوئے ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا لہذا اس کی رخصتی ملکی مفاد میں ہے۔عوام پچھلے چودہ ماہ میں اس حکومت سے تنگ اور بیزار نظر آتے ہیں کیونکہ مہنگائی اور لا قانونیت نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے ۔ دروغ گوئی،ملمع سازی اور جھوٹ کی گردان میں یہ حکومت نئے معیار قائم کر رہی ہے۔اپنی کہی ہوئی باتوں سے مکر جانا کوئی موجودہ حکومت سے سیکھے۔اگست ٢٠١٤ میں جو دھرنا دیا گیا اور اس میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی اب بھی عوام کے اذہان میں محفوظ ہے۔
ریاست سے بغاوت کی کال ، پارلیمنٹ پر حملہ،ٹیلیویژن پر قبضہ،بجلی کے بلوں کو جلانا،جاتی امراء کا گھیرائو اور وزیرِ اعظم کاا ستعفے پی ٹی آئی کامطا لبہ تھا ۔ قبریں کھود نا اور کفن باندھ کر احتجاج کرنا مذہبی وابستگی کا اظہار تھا۔اسلام آباد کا لاک ڈائون اور لاہور شہر کو بند کرنا احتجاج کی جان تھے۔یہ وہ مناظر تھے جو پوری دنیا نے ٹیلیو یژن کی سکرینوں پر دیکھے اور ان سے اظہارِ بے زارگی کیا۔وقت بدل گیا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت خود نشانہ پر ہے اور اپوزیشن کے حقِ احتجاج کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔اپوزیشن اسلام آباد کی جانب مارچ کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت خندقیں کھود رہی ہے ،کنٹینروں سے ساری اہم شاہرائوں کو بند کر رہی ہے۔کارکنوں کی گرفتاریاں اور ان کے گھروں پر چھاپے جاری ہیں لیکن اپوزیشن کسی خوف کا شکار ہونے کی بجائے اپنے لانگ مارچ پر بضد ہے۔مولانا فضل الرحمان کا لانگ مارچ ا حکومتی اعصاب پر بری طرح سے سوار ہے کیونکہ عوام موجودہ حکومت سے نالاں ہیںاور اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔،۔
اس ملک میں لانگ مارچوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔اپوزیشن نے وقفوں وقفوں سے حکومتوں کے خلاف لانگ مارچ کئے اور انہی لانگ مارچوں کی بدولت حکومتوں کی ر خصتی عمل میں آتی رہی۔اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو،میاں محمد نواز شریف،قاضی حسین احمد،علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے لانگ مارچو ں نے بڑی شہرت پائی۔کسی زمانے میں آئین میں دفعہ ٥٨ ٹو بی ہوا کرتی تھی جس کے زور پر صدر اسمبلیاں تحلیل کر دیا کرتے تھے ۔ جنرل ضیا الحق ،غلام اسحاق خان اور سردار فاروق احمد لغاری نے قومی اسمبلیوں کو تحلیل کیا۔آئینی ترمیم کے بعد ٥٨ ٹو بی آئین سے خارج کر دی گئی تو پھر حکومتوں کی برخاستگی کی بجائے وزیرِ اعظم کی رخصتی سکہ رائج الوقت بنی ۔سید یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف اس کی واضح مثا لیں ہیں۔ اب سب کی نظریں عمران خان کی وزارتِ عظمی پر جمی ہوئی ہیں اور اپوزیشن ان کے استعفے سے کم پر راضی ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز، اسفندیار ولی خان اور مولانا فضل الرحمان وزیرِ اعظم کے استعفے کیلئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا عزم اور ان کے کارکنوں کی ثابت قدمی حکومت کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔حکومت جمہوری روش کو مضبوط کرنے کی بجائے اسے پامال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔پر امن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن اس کے باوجود حکومت احتجاج کے اس حق کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ایک زمانہ تھا کہ عمران خان اپو زیشن کو کنٹینر دینے،کھانا دینے اور اپنے کارکن دینے کا وعدہ کرتے رہے لیکن جب اپوزیشن احتجاج کیلئے کمر بستہ ہوئی تو عمران خان اپنے وعدے سے مکر گے ۔اس وقت حا لات انتہائی کشیدہ ہیں۔حکومت کو چاروں طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔اس کے اپنے حمائتی بھی دم سادھے بیٹھے ہیں۔وہ بھی حکومت کے بے رحمانہ اقدامات کا دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
امریکہ کے جلسہ عام میں اپوزیشن کو سبق سکھانے کے اعلانات سے ذاتی انتقام کی بو آتی ہے۔جس نے جو جرم کیا ہے اسے اس کے مطابق سزا دی جائے لیکن ذاتی انتقام میں اپنے مخالفین کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی اجا زت نہیں دی جا سکتی۔میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور دوسرے سیاسی زعماء اگر کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تو انھیں عدالتیں سزا دیں لیکن جرم کے نام پر اپنے سیاسی مخالفین کی زندگی کا چراغ گل کرنا اور انھیں اذیت دینے کی کوئی ذی شعورانسان حمائت نہیں کر سکتا۔اپوزیشن کی گرفتاریوں کومہینے گزر گئے ہیں لیکن کسی کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا اور نہ ہی انھیںکسی الزام میں عدالتوں میں پیش کیا گیا ۔آصف علی زرداری،شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل، رانا ثنااللہ ،خورشید شاہ اور فریال تالپور ابھی تک اپنے خلاف الزام کے انتظار میں ہیں لیکن الزامات کی بجائے انھیں قیدو بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
ساری پی ٹی آئی پاکیزہ،دیانتدار،ایماندار اور فرشتہ صفت ہے جبکہ مخالفین شیطان کے ساتھی ۔حکومت کو دوسرں کی چھوٹی سی چھوٹی لغزش نظر آرہی ہے جبکہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آ رہا ۔ میاں محمد نواز شریف کے خلاف ریاستی انتقام کی جو انتہا دیکھی گئی ہے وہ اس ملک میں نئی نہیں ہے۔ہر ڈکٹیٹر اور طالع آزما ایسے ہی رویوں کا اظہارکرتا ہے۔عمران خان طالع آزمائوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے کیلئے بیتاب ہیں ۔تاریخ کسی کے ساتھ کوئی رو رعائت نہیں کرتی وہ سچ کو اگل کر رہتی ہے۔میاں محمد نواز شریف کے ساتھ جس طرح کی جبریت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ تاریخ کے سینے میں محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔
نواز شریف زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ان کے ساتھ روا رکھے گے سلوک پر دنیا تڑپ اٹھی ہے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی لہذا عدالتوںکو آگے بڑھ کر ریلیف دینا پڑ ا۔پاکستان بے رحمی اور سفاکیت کا استعارہ بنتا جا رہا ہے کیونکہ حکمران مخالفین کو زندہ در گور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مشیرِ اطلاعات نے میاں نواز شریف کی بیماری پر جس طرح کی عامیانہ زبان استعمال کی اس پر ہر ذی شعور انسان کا سر شرم سے جھک گیاہے۔سیاسی مخالفوں کے خلاف قانون کو ضرور حرکت میں لائیں لیکن انھیں ذاتی حواہشات کی قربان گاہ میں قربان نہ کریں۔اقتدار سدا کسی کے گھر کی لونڈی نہیںرہتا یہ گھر بدلتا رہتا ہے لہذا ہر حکمران کیلئے ضروری ہے کہ وہ قانون و انصاف کے مطابق فیصلوں کو یقینی بنائے اور اپنے مخالفین کو زندہ رہنے کا حق تفویض کرے۔اگر کسی کو میری بات کا یقین نہیں تو وہ جنرل پرویز مشرف کی زندگی کو سامنے رکھ لے سب کچھ واضح ہو جائیگا۔،۔