وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان مشکل دور سے گز رہا ہے انشاء اللہ یہ گذر جائے گا انشا ء ا للہ یہ ملک تیزی سے اوپر اٹھے گا انھوں نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز لاہور میں آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی کے وفد سے ملاقات کے دوران کیایقینی طور پر ملک ایک مشکل دور سے گذر رہا ہے خاص طور پر قومی معشیت بڑی مشکلات سے دوچار ہے اس قت پاکستان پر تیس ہزار ارب ڈالرز کے قرضوں کا بوجھ ہے جس کے نتیجے میں عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں عوام کو نئی حکومت سے بہت زیادہ توقعات کیساتھ یہ امید تھی کہ انھیں مہنگائی سے کسی نہ کسی طور کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملے گالیکن ایسا نہیں ہوسکا بلکہ الٹا پٹرول،سوئی گیس کے نرخوں سمیت دیگر کئی اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں جبکہ بجلی کے نرخ بڑھنے کا بہت زیادہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حکمران اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں قومی خزانہ خالی ہے پچھلی حکومت نے معشیت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے وطن عزیز میں ہر آنے والی نئی حکومت ہمیشہ سے یہی رونا روتی آرہی ہے کہ خزانہ خالی ہے ملک مشکل حالات سے گذر رہا ہے ماضی کی طرح اب یہی سب کچھ پی ٹی آئی کی حکومت بھی کر رہی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ قومی معشیت تباہی کے دہانے پر ہے اور یہ بات الیکشن سے پہلے بھی پوری طرح عیاں تھی جس کا علم عوام کیساتھ پاکستان تحریک انصاف کو بھی تھاکہ حکمرانوں کی لوٹ مار کیوجہ سے قومی خزانہ خالی ہے قومی معشیت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے اور پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے ایسے ہی نازک حالات میں پی ٹی آئی نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو کر نہ صرف کرپشن کرنے والوں کا احتساب کریں گے اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلائیں گے اب جب عمران خان وزیراعظم بن گئے تو عوام یہ توقع کررہے تھے کہ حکومت برے حالات میں بھی عوام کو مہنگائی سے کسی نہ کسی طور تھوڑا بہت ریلیف دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا جس سے عوام میں مہنگائی کیوجہ سے پریشانی ہوئی ہے۔
حکومت ملک کی معشیت کو بہتر بنانے کے لیے دیگر اقدامات کے علاوہ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے اس کے لیے وزیراعظم نے وسیع و عریض وزیراعظم ہائوس میں رہنے کی بجائے چھوٹے گھر میں رہائش اختیار کی ہے وزیراعظم ہائوس کے سینکڑوں ملازمین کو واپس ان کے محکموں میں واپس بھیج دیا ہے انھوں نے اپنے لیے دو گاڑیاں اور چند ملازم رکھے ہیں وزیراعظم ہائوس میں درجنوں قیمتی گاڑیوں اور بھینسوں کو فروخت کردیا گیا ہے غیرملکی دوروں میں بڑے بڑے وفود کی بجائے وزراء کیساتھ متعلقہ چند لوگ ہی جاتے ہیںاس طرح کے کئی اقدامات بھی حکومت کررہی ہے جس سے معشیت کی بہتری میں مدد ملے گی جس میں ابھی وقت لگے گا عوام کو اس کے نتائج یا ثمرات کم ازکم ایک دو سال بعد ملیں گے لیکن عوام یہ چاہتی تھی کہ اسے پی ٹی آئی کی حکومت سے سب سے پہلے کسی طرح مہنگائی سے ریلیف ملے لیکن ایسا نہیں ہوسکا مہنگائی کم ہونے کی بجائے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھی ہے۔
پی ٹی آئی کو حکومت میں آئے ابھی پچاس دن ہوئے ہیں انھوں نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں کا روڈ میپ دیا ہوا جس پر عملدرآمد سے یہ واضح ہوگا کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کیسے کام کریں گے اس روڈ میپ کی کارگردگی سامنے آنے میں ابھی پچاس دن باقی ہیں جس کے بعد ہی اس پر کوئی بات کی جا سکتی ہے لیکن عوامی حلقوں میں یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ حکومت کے پہلے50 دنوں میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جسے اپوزیشن کیطرف سے بھی بہت زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔
نئی حکومت کے ترجمان مہنگائی بڑھنے کا سبب سابقہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیاں بیان کرتے ہیںیہ سب باتیں درست ہوسکتی ہیں لیکن عوام تو حکومتوں کی ان باریک بین معاشی پالیسیوں کے گورکھ دھندوں کو نہیں سمجھتی انھیں تو یہ غرض تھی کہ نئی حکومت مہنگائی کے طوفان میں غریب آدمی کوکیا ریلیف دے گی عام آدمی کے نزدیک حکومتی کارکردگی جانچنے کا سیدھا سادہ سا ایک فارمولہ ہے کہ آٹا، دال، چینی،گھی وغیرہ کے نرخ اور بجلی گیس کے بلوں میں کمی ہوئی ہے کہ نہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت فوری طور پر عوام کو فوری طور پر کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔اس میں حکومت کی نیت پر کوئی شک کیے بغیر یہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
حکومت کے معاشی ماہرین پہلے100 روزہ کارگردگی میں بھی طویل مدتی منصوبوں پر کام کررہے ہیں حکومت چاہتی ہے کہ ایسے منصوبے بنائے جائیں جس کے مستقبل میں دور رس نتائج برآمد ہوں حکومت کو برسراقتدار آتے ہی سب سے پہلے معاشی بحران کے چیلنج کا سامناکرنا پڑھ رہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے پی ٹی آئی حکومت کو اپنے دعوئوں کے برعکس بادل نخواستہ بیل آئوٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے تاکہ ملک کسی طور وقتی طور معاشی بحران سے باہر نکل سکے اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط بھی ماننا پڑیں گی جس کے تحت بجلی، گیس وغیرہ کے نرخ مزید بڑھانے کے علاوہ کئی مزید ٹیکسز بھی لگانا ہوں گے جس کے نتیجے میں لازمی طور پر ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی جس سے عام آدمی جو مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی عاجز نظر آتا ہے اس کے گرد مہنگائی کا شکنجہ مزید سخت ہو گا۔
اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان سے نبردآزما ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں ۔ جیسا کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک پر مشکل وقت ہے اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرنے اور نمٹنے کے لیے پوری قوم کو تیا رہنا چاہیے ۔اسی کیساتھ جناب وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ ملک کی ترقی ، تبدیلی اور خوشحالی کے لیے لانگ ٹرم منصوبے ضرور بنائیںلیکن سب سے پہلے عوام کے لیے ایسا منصوبہ بنائیںجس سے غریب آدمی کو دو وقت عزت کی دال روٹی نصیب ہو سکے وہ بآسانی بجلی اور گیس کا بل ادا کرسکے کسی بھی ترقی اور خوشحالی سے پہلے پیٹ کی بھوک مٹنا ضروری ہے وزیراعظم صاحب آپ پاکستان کے عوام اور تبدیلی کی امید ہیں امید کا یہ دیا بھجنے نہ پائے ورنہ لوگ آئندہ سیاستدانوں کے وعدوں،نعروں اور امیدوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیں گے۔