پچھلے چند عشروں میں سب سے بڑی جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ما دیت پرستی کی عالمگیر تحریک ہے جس نے طلسم ہو شربا کی طرح آج کے انسان کو اپنے سنہری جال میں جکڑ رکھا ہے ‘ مادیت پرستی کے اِس ہو شربا رنگ نے انسان کے ظاہر و باطن کو اپنی لپیٹ میں لے کر اُس سے مذہبی رنگ بلکہ خدا کا رنگ بھی چھین لیا ‘ انسانوں کے اس ہجوم میں بلا شبہ وہی فاتح ہے جس نے خو د کو الٰہی رنگ میں ڈھال کر خدا کی مر ضی کے مطابق اپنی زندگی کے معمو لات کو ڈھال لیا ہے لیکن ما دیت پرستی کا رنگ اتنی زیادہ کشش رکھتا ہے کہ آج کا انسان خدا کے رنگ اور عشق کو پو ری طرح بھول چکا ہے ‘ مادیت پر ستی نے مو جو دہ دور کے انسان کے ہوش و حواس کو اپنی گرفت میں لے کر اسے خدا سے بیگانہ کر دیا ہے اِس طرح حضرت انسان ایک ما دی جانور کا روپ دھا رچکا ہے جس کو اقتدار اور دولت کا چسکا اِس حد تک لگ چکا ہے جو اِس کی رگوں میں دوڑتے خو ن اور ہڈیوں کے گو دے کو بھی اپنے رنگ میں رنگ چکا ہے۔
اِس طرح انسان اپنی حقیقت اور مقام سے بے خبر ہو چکا ہے جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے اِس نقصان کا سب سے زیا دہ نقصان وہ اپنا یہ کر بیٹھا ہے کہ خدا کے رنگ سے محروم ہو کر وہ حقیقی اورباطنی سکون کی دولت سے بھی محروم ہو چکا ہے کیونکہ حقیقی سکون کا رنگ تو صرف خدا کے عشق کا رنگ ہے جس انسان کے ظاہر و باطن میں خدا کا رنگ راسخ ہو جائے وہ حقیقی باطنی مسرت سے سرشار ہو جا تا ہے وہ باطنی خو شی کے جس احساس کو انجوائے کر تا ہے دنیا دار اُس رنگ کی مہک سے بھی کو سوں دور ہو تے ہیں خدا کے رنگ کے بعد انسان ہر حال میں خو ش رہنے کا آرٹ سیکھ لیتا ہے ایسا ہی انسان بندگی کے ذوق سے واقف ہو تا ہے حضرت عمر بن خطاب 86لاکھ مر بع میل کی حکومت اور حضرت سلیمان جن و انس کی لازوال حکو مت کے بعد بھی خدا کے بندے ہی رہے ایسے ہی حضرت یو سف حسن کی لازوال دولت پھر کنویں کے اندھیرے اور بعد میں جیل کی کو ٹھڑی میں بھی یاد خدا سے غافل نہ ہو ئے ‘ حضرت عمر حضرت سلیمان مسند اقتدار پر متکبر نہ ہو ئے اور حضرت یو سف جیل کو ٹھڑی میں بھی متشکر ہی رہے ‘ بڑے لو گ وہی ہو تے ہیں جو بڑے عہدوں پر براجمان ہو کر بھی ہو ش و حواس کا دامن نہ چھو ڑیں ایسے لوگ نہ تو بڑا عہدہ پا کر پھول جاتے ہیں اور نہ ہی غم یا محرومی میں خدا کو بھو ل جاتے ہیں بندے کی شان یہی ہے کہ وہ ہر حال میں مسند اقتدار یا جیل کی کو ٹھڑی میں خدا کی بندگی کو ترجیح اول رکھے۔
حضرت داود کے ہاتھ میں بے پناہ طاقت تھی کہ لو ہا بھی آکر مو م ہو جا تا لیکن اتنی طاقت کے بعد بھی وہ خود کو خدا کا حقیر غلام ہی سمجھتے رہے اور کبھی بھی خدا کی بندگی سے غافل نہ ہو ئے حضرت ایوب علیہ اسلام برسوں بسترِ علالت پر بیمار یوں کی آما ہ جگا ہ بنے رہے لیکن شدید بیما ری میں بھی خدا کی یاد سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہوئے اور جب اپنے جسم میں پلنے والے کیڑوں کو بھی اٹھا کر دوبارہ جسم پر رکھ دیا تو جوشِ رحمت کا پیمانہ چھلکا اور صحت کی نعمت سے سرفراز ہو ئے ‘ غربت میں خدا کو یاد رکھنا اور دولت کی جھنکار سن کر فرعون بن جانا یہ انسان نہیں بونے ہو نے کی علامت ہے ۔ بڑا انسان وہی ہے جوزندگی کے نشیب و فراز میں خدا کی یاد کو ترجیح اول رکھتا ہے عزت دولت شہرت اقتدار طاقت چاہ منصب شان و شوکت کو ٹھیاں زمینیں محلات گاڑیاں ہوا ئی جہاز ہیلی کا پٹر بحری جہاز ہیرے جواہرات فیکٹریوں کی لمبی قطار غلاموں کے لشکر مسند اقتدار اور اقتدار کی غلام گردشیں یہ سب اللہ کے انعام اور نعمتیں ہیں جوحق تعالیٰ ہزاروں سالوں سے انسانوںمیں بانٹتا آرہا ہے اور یہ سلسلہ روزمحشر تک جا ری و ساری رہے گا۔
یہ ساری چیزیں پانی کے بلبلے ہیں جو چند ساعتوں کے لیے وجود میں آکر پانی کا حصہ بن جا تے ہیں ہم اِن کو مستقل چیزیں سمجھ کر گردنوں میں لو ہے کے سرئیے فٹ کر کے دوسروں کو کیڑے مکو ڑے سمجھ لیتے ہیں اور یہی انسان کی بہت بڑی غلطی ہے جو ہر دور کا انسان کر تا آرہا ہے آجکل پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے ممبران کو طاقت اقتدار شہرت اور غرور کا بخار چڑھا ہوا ہے اِس بخا ر کا مظاہرہ ہم روزانہ دیکھ رہے ہیں ‘ شیخ رشید صاحب کا مست سا نڈ کی طرح گلیوں میں عوام کو روندنا ‘ ریلوے میں گالیوں اور بد تمیزی کے تحفے بانٹنا ‘ فیاض الحسن چوہان صاحب کا اخلاق و تہذیب کو جوتے کی نوک پر رکھ کر فرعونیت کا مظاہرہ کر نا ‘ فواد چوہدری صاحب کا حقارت پر مبنی رویہ ‘ ہیلی کاپٹر پچپن روپے فی کلو میٹر فی گھنٹہ کہنا اور بھی اُس غلطی پر قائم رہنا ‘ عمران شاہ کا شریف شہری کو جانوروں کی طرح مارنا ‘ وزیر اعلی صاحب کا جہاز کو ٹریکٹر کی طرح اپنے رشتہ داروں میں تعارف اور شوخیاں کر نا اور وزیر اعظم صاحب کا خا موش رہنا اور چیلوں کا ہر حماقت پر اپنا دفاع کر نا اور طاقت کے نشے میں دھاڑتے ہو ئے کہنا کو ئی ہم پر تنقید کی جرات نہ کر ے ہم آسمانوں سے اترے ہیں ہمیں مو قع دیں یہ سارے لوگ خدا کو بھو ل چکے ہیں جو اِس کائنات کا اکلوتا وارث ہے۔
اِس سے پہلے بھی بادشاہ اور ان کے وزیر گزرے ہیں جن پر خدا کا رنگ ہی غالب تھا بادشاہ طغرل تاریخ کا ایسا کر دار جس کے چہرے پر ہر وقت غصے کے شعلے رقص کر تے نظر آتے ‘ جلال کا یہ عالم کے لوگوں کی سانسیں رک جاتیں کسی کو غصے سے دیکھ لیتا تو وہ بے ہو ش ہو جا تا ‘ بڑے بڑے دیو ہیکل انسان اُس کے سامنے بونوں کی طرح سر جھکائے نظر آتے ‘ ایک دفعہ اُس نے قاصد کو حکم دیا کہ جا کر وزیر ابو منصور کو بلا لائے اور حکم دیا کہ ابو منصور جس حالت میں بھی ہو فوری حاضر ہو ‘ غلام پہنچا تو وزیر نماز میں مشغول تھا قاصد نے جلدی سے پیغام دیا اور کہا جلدی چلیں تو ابو منصور نے بے نیازی سے کہا آتا ہوں اور پھر نماز میں مشغول ہو گیا جب کا فی دیر ہو گئی اور ابو منصور دربار میں نہ پہنچا تو سلطان کی پیشانی شکن آلود ہو نا شروع ہو گئی ‘ آتش جلال کا رنگ سرخ ہو نے لگا ‘ جسم آتش فشاں کی طرح غصے سے پھٹنے لگاتو مخالفین اور حاسدین خوش ہونے لگے کہ آج تو وزیر کی خیر نہیں۔
آج ابو منصور کی بے عزتی کا تما شہ خوب لگے گا ابو منصور نے آرام سے نماز ادا کی اوردربار میں حاضر ہو گیا وزیر کو دیکھتے ہی سلطان دھاڑتے ہو ئے بو لا تمہاری یہ جرات ڈھٹائی اور گستاخی کہ تم نے میرے حکم کو جو تے کی نو ک پر رکھ کر اڑا دیا جلدی کیوں نہیں آئے ایسی لا پرواہی برداشت نہیں کی جا ئے گی ‘ ابو منصور بو لا جناب میں آپ سے پہلے خدا کا بندہ ہوں بعد میں آپ کا نو کر ‘ خدا کی بندگی سے فارغ ہو کر ہی آپ کی نو کری میں حاضر ہو نا تھا جہاں پنا ہ آج اگر میںآپ کی نظر میں معتبر ہوں یا آپ کا قرب مجھے ملا ہے دربار شاہی کا اہم رکن ہوں یہ سب خدا کا کرم انعام اور عطا ہے اگر میں اُسی خدا کے انعام و اکرام کو بھول جائوں تو مجھ سے بڑا نا شکرا کون ہو گا اِس لیے میں ہمیشہ دنیا کی نو کری پر خدا کی بندگی کو ترجیح دیتا ہوں اگر میں اُس خدا کو بھو ل جائوں تو آپ کی نو کری کے قابل بھی نہیں رہوں گا سلطان نے سنا تو غضبناک ہو نے کی بجائے غمناک ہو گیا لہجے میں غضب کی جگہ شفقت سمٹ آئی اور دھیرے سے بو لا ابو منصور عبادت اور قرب کے ان لمحوں میں مجھے بھی یاد رکھا کر و کہ خالقِ کائنات مجھے لوگوں کی حقیقی خدمت خلق کا مو قع دے اور مجھے بھی اپنے خاص بندوں میں شامل کر لے جس میں تم شامل ہو۔