ادارے حکومت کی کارکردگی کا آئینہ ہوتے ہیں اور ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد اپنے اخلاق اور کردار سے اسے دھندلا یا صاف شفاف بناتے ہیں جسکے بعد عوام اپنے ذہن میں حکومت کی اچھائی یا برائی کا خاکہ بنا کر گلی ،محلوں ،تھڑوں ،نائی کی دوکان اور چائے کے ہوٹلوں پر زیر بحث لاتے ہیں اور پھر برسراقتدار حکمرانوں کا چہرہ نکھر کر سامنے آتا ہے ہمارے ملک کے تقریبا ہر ادارے میں عوام کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور پھر وہاں پر موجود سرکاری ملازمین اور افسران کے رویے کی وجہ سے کبھی سائل خوشی خوشی واپس آتا ہے تو کبھی کبھی وہاں پر فرعون نما افراد کے حاکمانہ رویوں سے تنگ آتے ہوئے انہیں اور انکو لگانے والوں کو برا بھلا کہتا ہوا جا رہا ہوتا ہے۔
ہماری پولیس ابھی تک نہیں بدلی عمران خان نے کئی بار خیبر پختون خواہ طرز کی پولیس لانے کا کہا مگر ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوسکا ہمارے پہلے والے خادم اعلی نے اسی پولیس کے رویہ سے تنگ آکر اسکی وردی تبدیل کی کہ شائد اس وردی کے اندر بھیڑے نما انسان بھی تبدیل ہوجائیں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت نے پولیس کی تبدیل شدہ وردی کو ایک بار پھر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر جب تک تبدیلی انسان کے اندر سے نہیں ہوگی اس وقت تک کپڑے تبدیل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بعض اداروں میں تو کچھ افراد اچھے ہوتے ہیں تو کچھ برے مگر ہماری پولیس میں اچھے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے جو ہیں وہ گوشہ نشینی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
پولیس کلچر کے حوالہ سے ایک بہت ہی اچھے ،بھلے مانس اور ناقابل یقین حد تک پولیس والے نہ لگنے والے ایک سابق ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ طاہر انور شاپا صاحب سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے بھی میری اس بات کی تائید کی کہ وردی تبدیل کرنے سے اس کے اندر کا انسان تو تبدیل نہیں ہوگا اگر اس بار بھی پولیس کلچر میں تبدیلی نہ آئی تو پھر کیا سب پولیس والوں کو احرام باندھ دیا جائیگا اس لیے وردی کے اندر انسان کو تبدیل کیا جائے جس طرح کے پی کے میں ناصر درانی نے محنت کرکے پولیس کو غیر سیاسی بنا کر انکے رویوں کو تبدیل کیا ہے بلکل اسی طرح پنجاب میں بھی کسی ایسے ہی آئی جی کو تعینات کیا جائے جویہ سب کچھ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو ورنہ تو ہمارے تھانے اور تھانیدار عوام کو موجودہ حکومت سے متنفر کرنے کے لیے ہی کافی ہیں اگر آئی جی کو تبدیل کرنا ناممکن ہے تو پھر محکمہ پولیس ڈاکٹر یاسمین راشد کو ہی دیدیں جس نے اسی پرانے کلچر میں رہتے ہوئے ہسپتالوں کا نظام بہتر کردیا ہمارے سرکاری اداروں میں ہسپتال وہ واحد ادارہ ہے جہاں 24گھنٹے عوام کا آنا جانا لگا رہتا ہے عدالتوں میں تو زندگی اور موت کے فیصلوں کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں مگر ہسپتالوں میں ڈاکٹر کی معمولی سی غفلت پر ایک منٹ میں انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے یا پھر موت کے منہ سے واپس آجاتا ہے اور اس وقت ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی وردی تبدیل کیے بغیر ہی ڈاکٹر یاسمین راشد ایک خوبصورت تبدیلی لے آئی ہیں اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ آج ہی چپکے سے لاہور کے دل میں موجود گنگا رام ہسپتال میں چلا جائے وہاں کی ایمرجنسی سے لیکر وارڈز تک میں آپ کو تبدیلی کے جھونکے محسوس ہونگے وہاں کے ایم ایس ڈاکٹر فیاض بٹ کا دروازہ کھولیں اور بلا جھجک اندر داخل ہوجائیں وہ ہر وقت آپکی خدمت کو تیار ملے گا۔
اگر ایم ایس کے دستخط سے کام ہونے والا ہوگا تو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کردے گا اگر ٹیلی پر کسی کو کہنے سے کسی مریض کا مسئلہ حل ہوسکتا ہو تو وہ فٖون کریگا اور اگر اسکے جانے سے کسی مریض کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو وہ بلا تاخیر مریض کے ساتھ اٹھ کر چلا جائیگا یہ ہوتی ہے تبدیلی جو آپ کو گنگا رام سمیت مختلف ہسپتالوں میں نظر آئے گی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس تبدیلی کے پیچھے عمران خان کا وژن تو ہے ہی مگر ڈاکٹر یاسمین راشد کی محنت بھی ہے کہ جنہوں نے ڈاکٹر فیاض بٹ جیسے گوہر نایاب کو چن چن کر اہم ذمہ داریاں دی اور پھر انہوں نے واقعی اس تبدیلی کا حق ادا کردیا جو پولیس کی بار بار وردیاں تبدیل کرنے سے بھی نہیں ہوسکیں اس لیے پنجاب حکومت اگر باقی اداروں میں بھی تبدیلی کے زریعے عوام کو مشکلات سے بچانا چاہتی ہے تو ان اداروں میں اچھے ،ملنسار اور محنتی افراد کو ڈھونڈ کر اہم ذمہ داریاں دے اور اس سلسلہ میں پی ٹی آئی کے نوجوان بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں حکومت نوجوان نسل کو ان سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ پر لگائے بلخصوص پولیس کلچر کو اگر تبدیل کرنا ہے تو پھر یہاں پر کے پی کے پولیس ماڈل کو رائج کرنا ہوگا اور تھانہ کی سطح پر ایسے افراد کو تعینات کیا جائے جو دیہاڑیاں لگانے کی بجائے دیانت داری سے اپنا کام سر انجام دیں۔
اگر یہی نظام چلنے دینا ہے تو پھر تھانوں کو ٹھیکہ پر دیدیا جائے اس سے حکومت کو اچھی خاصی آمدن بھی ہوگی اور اخراجات میں خاطر خواہ کمی بھی کیونکہ ایک تھانے کا ایس ایچ اور ہر ماہ لاکھوں روپے اوپر تقسیم کرتا ہے اور کروڑوں روپے خود اکھٹے کرتا ہے اسی لیے تو آج گلی محلوں میں منشیات پی اور فروخت کی جارہی ہے کرکٹ میچوں سمیت بات بات پر جوا ہو رہا ہے اور جو حصہ نہیں دیتا پولیس اسے پکڑ کر اپنا حساب بھی برابر کرلیتی ہے اور پھر اسکے خلاف مقدمہ درج کرے اپنے نمبر بھی ٹانک لیتی ہے ہر تھانہ میں مقدمات درج کرنے کے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں اور عام انسان کی عزت نفس ویسے ہی مجروع کی جارہی ہے جیسے آج سے پہلے پچھلی حکومتوں میں ہوتی تھی اس لیے تبدیلی کے نام پر اس طرح تبدیلی نہیں آئے گی جب تک ہر ادارے میں ڈاکٹر فیاض بٹ جیسے محنتی ،دلیر اور فرض شناس افسر موجود نہ ہوں اور ایسے افراد کو ڈھونڈنے کا گر ڈاکٹر یاسیمین راشد سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔