تحریر : شاہد شکیل انسان کی مختصر زندگی میں کبھی کبھی اسکی سوچ سے بڑھ کر بہت کچھ رونما ہوتا ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے لیکن زندگی اسی کا نام ہے اور انسان کبھی کبھی کٹھ پتلی بن کر رہ جاتا ہے یہ ضروری نہیں کہ ایک عورت پر ہی ظلم و ستم ہو اور وہ کٹی پتنگ بن جائے بلکہ کئی مردوں کے ساتھ بھی ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے اور وہ بھی اپنے اندر نہ کوئی امنگ اور نہ کوئی ترنگ رکھتے ہوئے کٹی پتنگ بن جاتے ہیں انہیں جب جی چاہے ریموٹ کنٹرول کی طرح استعمال کیا جاتا ہے یہ بھی ضروری نہیں کہ عورت کمزور ہو تو حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لیتی ہے بلکہ بہادر اور طاقتور مرد بھی معمولی بات کو دل پر لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔اس دنیا میں ایسے بھی انسان ہیں جو جذبات ایک طرف رکھ کر سچائی اور حقائق سے ہر شے کی پرکھ کرنے کے بعد زندگی سے قدم ملا کر چلتے ہیں اور ایسے حالات سے نبٹنے کیلئے بہت بڑا جگر اور لامحدود ہمت و برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
دل برداشتہ ہو کر کئی انسان اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں یادیں انہیں ایسے گھاؤ لگاتی ہیں کہ ہر سانس سے ایک ہوک اٹھتی ہے انہیں کچھ اچھا نہیں لگتا لیکن خود کشی کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دل کے کسی کونے سے ایک آواز نکلتی ہے رک جاؤ صبر کرو برداشت کرو سب ٹھیک ہو جائے۔کئی لوگوں نے مختلف اطوار سے زندگی بسر کی دل برداشتہ ہوئے لیکن ہمت نہ ہاری اور ایک نئی زندگی کا آغاز کیا انہیں تفریح گاہ یا پارک میں جاتے ہوئے، ہمسایوں سے گفت و شنید کرتے ہوئے ، جوب پر ،بسوں ٹراموں میں حتیٰ کہ جہاں سے بھی گزر ہوا میل ملاقات ہوئی اچھا نہیں لگا سب کچھ اچانک بدل گیا وہ سب کچھ بھول گئے کیونکہ گھاؤ کے شکار تھے،کئی لوگوں نے اپنی ملازمت تبدیل کرنے کا سوچا کئی لوگوں نے ملک چھوڑ دینا چاہا کسی نے نئی دنیا بسانے کی ٹھانی ،کسی نے لائف پارٹنر سے کنارہ کشی کرنا چاہا سب کچھ ممکن تھا لیکن وہ کچھ نہ کر سکے کیونکہ ایسے عوامل کے لئے ان میں ہمت نہیں تھی اور جذبات راستے میں حائل تھے۔
کہتے ہیں تبدیلی لانے کیلئے خود کو تبدیل کرنا پڑتا ہے سبیلے ٹوبلر نفسیات کی ماہر ہیں اور کہتی ہیں کہ نئی زندگی یا تبدیلی کیلئے پہلے انسان اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ وہ کیا تبدیل کرنا چاہتا ہے خود کو ، لوگوں کو ، سسٹم کو اور کیوں ؟ تبدیلی کیوں ضروری ہے آیا تبدیلی کے بعد میری خواہشات پایہ تکمیل پہنچ جائیں گی یا مٹی میں مل جائیں گی ؟ کیا مجھے تبدیلی سے خوفزدہ ہونا چاہئے یا خوش ہونا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا،فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی منزل اور مقاصد پر ایک گہری نظر ڈالنے کے بعد پر عزم طریقے سے ابتدا کی جائے کہ میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جاؤں گا بھلے ناکوں چنے چبانا پڑیں،کئی لوگ شکوک و شبہات ، توہم کا شکار ہو جاتے ہیں نہ جانے کل کیا ہو گا اور تبدیلی جیسے لفظ کو ذہن سے نکال دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ میرے اندر سیلف کونفیڈینس نہیں میں کسی دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتا اپنی بیوی کو نہیں چھوڑ سکتا وغیرہ اور تبدیلی کو خرافات و مضحکہ خیز لفظ سمجھ کر بھول جاتے ہیں کہ جیسی بھی زندگی گزر رہی ہے گزرنے دو۔
ٹوبلر کا کہنا ہے دیکھا جائے تو زندگی نام ہی رسک ہے جسے کبھی ہم محسوس کرتے ہیں تو کبھی نہیں،ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم ایسے بچے ہیں جو گرتا ہے اٹھتا ہے پھر گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک دن اپنے پیروں پر کھڑا ہو ہی جاتا ہے ، ٹھوکر سب کو لگتی ہے کوئی سنبھل جاتا ہے تو کوئی دوسروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جاتا ہے۔ستائیس سالہ جیسیکا میونخ میں فری لانسر صحافی کے طور پر کام کرتی ہے اس کا کہنا ہے میری جوب کسی جیل سے کم نہیں تھی ،پوسٹ گریجویٹ ، جرنلزم، ایڈونچر اور مستقل پوزیشن حاصل کرنے کیلئے بہت پاپڑ بیلے اور آخر کار ایڈیٹر کا عہدہ مل گیا ،صبح دس بجے سے شام آٹھ بجے تک بغیر وقفے کے اٹینشن رہنا پڑتا سال میں پچیس دنوں کی تعطیلات ایسے میں محسوس ہوا کہ میں جرنلسٹ نہیں بلکہ قیدی ہوں اور ایک دن میری ملاقات سارہ سے ہوئی جو بیکری میں ملازمت کرتی تھی اس نے بتایا کہ بیکری کا جوب آسان نہیں ہوتا صبح تین بجے سے چھ بجے تک کان کھجانے کی فرصت نہیں ملتی مختلف اقسام کی بریڈ بنانا ،کیک کی تیاری اور دیگر لوازمات کے بعد سات بجے ہی لوگوں کا جھمکٹھا لگ جاتا مصروفیت مزید بڑھ جاتی دن ایک بجے چھٹی کے بعد گھر واپسی پر ایسا محسوس ہوتا کہ ہوا میں اڑ رہی ہوں ٹانگیں بھاری اور شل ہو جاتیں نیند سے بوجھل گھر آتے ہی فرج سے گرم سرد جو بھی ملا پیٹ پوجا کی اور سونے چلی جاتی ہوں نہ دنیا کی فکر نہ کسی کا غم قید تو یہ ہوتی ہے اتوار کو بارہ گھنٹے سونے کے بعد نیند پوری ہوتی ہے۔
سارہ کی تما \م باتیں سننے کے بعد سوچا کہ واقعی میرے جوب کے مقابلے میں اسکا کام تو پتھر توڑنے کے مترادف ہے اور اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اپنے آپ کو بدلی کرنا ہوگا زندگی میں آرام ہی سب کچھ نہیں ہوتا کیونکہ راحت پانے کیلئے ہارڈ ورک بہت ضروری ہے۔پچاس سالہ ہنس نے آخر پیانو بجانا سیکھ ہی لیا،اسکا کہنا ہے چھ سال کی عمر میں پہلی بار ریڈیو پر پیانو کی مدھر دھن نے کانو ں میں رس گھولا اور میں مد ہوش ہو گیا،ہم چار بہن بھائی تھے میرا والد ایک فیکٹری میں ہیلپر تھا کم آمدنی تھی اور پیانو خریدنا ناممکن تھا میں اکیلے میں روتا کہ میں کیوں پیانو نہ بجا سکتا ہوں نہ خرید سکتا ہوںصرف اس لئے کہ ہم غریب ہیںانہیں سوچوں کے دھارے خاموشی سے زندگی بسر کی کہ کبھی نہ کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب میں اپنی بنائی دھن پر پیانو بجاؤں گا کیونکہ مجھے میوزک سے عشق تھا۔
کئی برسوں بعد میری ملاقات مارک وینز سے ہوئی جو میوزک سکول میں ٹیچر تھا اسکے سکول میں ستر برس کے افراد بھی میوزک سیکھنے آتے تھے،مارک کے سکول میں داخلہ لینے کے بعد روزانہ اپنے ذاتی الیکٹرک پیانو پر گھر میں پریکٹس کرتا اور جب تک دونوں ہاتھ جواب نہیں دے جاتے محنت کرتا اور آخر وہ دن بھی آگیا جب اپنی ترتیب دی گئی دھن مارک کو سنائی اس نے سراہا اور ایک بینڈ سے رابطہ کرنے کے بعد مجھے پیانو بجانے کیلئے چن لیا گیا آج میں اپنے جوب کے ساتھ ساتھ بینڈ میں پیانو بجاتا ہوں شہروں میں کنسرٹ ہوتے ہیں اور میری بنائی ہوئی دھنوں پر لوگ مدہوش ہوتے ہیں۔نئی زندگی شروع کرنے کیلئے اگر انسان یہ سوچے کہ لوگ کیا کہیں گے ، مجھے اس کی اجازت نہیں ہے ،میں آزاد نہیں ہوں ، ہمت نہیں ہے وغیرہ تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔زندگی ایک موسم ہے جو ہر پل رنگ بدلتی ہے ،لیکن انسان موسم نہیں بلکہ آل راؤنڈر ہے وہ چاہے تو سب کچھ تبدیل کر سکتا ہے، لیکن کیسے؟۔