ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمار ے وزیراعظم تبدیلی لا رہے ہیں جن کے اثرات واضح نظر آ رہے ہیں اور اس تبدیلی میں شریک ہونے والوں میں سے ایک میں بھی خوش قسمت ہوں جنہوں نے اپنا قیمتی ووٹ ہنڈسم وزیراعظم کو تھما دیا تھا تاکہ نیا پاکستان بن جائے۔ ہمارے کئی وزراء کافی پیشن گویئاں کر رہے ہیں۔ اللہ کرے سچ ثابت ہو جائے ۔ایک ایسا وفاقی وزیر جوکبھی گن پتلون میں رکھ کر چینی قونصلیٹ پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی تباہ شدہ طیاروں کے پاس جا کر سیلفیاں بناتے ہیں ، کبھی کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکل لے کر نکل پڑتے ہیں ، فرماتے ہیں۔
‘اتنی زیادہ چیزیں اچھی ہونے والی ہیں، اسٹاک ایکسچینج، انڈسٹری، پراپرٹی، میڈیا میں اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ خوشحالی آجائے گی، پان والا، ٹھیلے والا کہے گا مجھ سے ٹیکس لے لو، اگر ایسا نہ ہوا تو میری تکہ بوٹی کردینا”۔ ۔ ان کے منہ میں گھی شکرکہ ایسا ہو جائے۔ایک مسلمان کو گمان بھی اچھا رکھنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ بھی ہواتو فکرنہیں کیونکہ تبدیلی آ رہی ہے۔
چند ہفتے ایک وزیر جو پی ٹی آئی کے تو نہیں ہاں البتہ ان پر بھی رنگ انہی کا ہے، فرما رہے تھے کہ دو کے بجائے ایک روٹی کھاؤ، جب حالات ٹھیک ہوجائیں تو ڈھائی کھا لینا، زیادہ بھی کھا سکتے ہیں۔ انہوں نے خوشحالی کیلیے تین چار ہفتے نہیں دو سال کا وقت مانگا۔ وہ روز کوئی نہ کوئی لارا لگاتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ایک مہینہ اہم ہے ، کبھی کہتے ہیں چند ہفتوں کی گیم ہے۔ہماری خاتون وزیر موسمیات نے تو حد کردی۔ فرماتی ہیں کہ یہ جو بارشیں ہورہی ہیں یہ ہمارے وزیراعظم کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ اب ان کی بات سے انکاری بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ تبدیلی آرہی ہے۔
ہمارے وزیرخزانہ وقت کے ارسطو ہیں۔ جب ان سے معیشت کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو گھر کی باتیں کرتے ہیں ، سکول کا بتاتے ہیں یا بزنس کی باتیں کرتے ہیں۔ خیر مایوس تو نہیں کرتے خواب تو یہ بھی دکھاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو بھی لگتا ہے تبدیلی آرہی ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق رواںسال مہنگائی کی شرح تقریباََََ10 فیصد بڑھی۔ کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمت تقریباََ 6 فیصد بڑھی۔ بچوں کے ڈائپرز سے لے کر ادویات ، سب کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ گیس، تیل، بجلی سب مہنگے ہوئے۔ لیکن کیا ہوا؟ تم کیوں پریشان ہو؟ تم اس بحث میں نہ پڑو کیونکہ یہ سب پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے ، تھوڑا سا وقت دے دیں کیونکہ تبدیلی آرہی ہے۔
سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاؤن ، کراچی میں آئے روز پولیس مقابلے اور انصاف کے لیے دہائی دیتے شہری۔ بس تھوڑا سا وقت دیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ تبدیلی آرہی ہے۔
اب آئیں 100 روزہ پلان کی جانب کہ پاکستان کو مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنائیں گے۔ فاٹا کو خیبرپختوخواہ میں ضم کیا جائے گا، ایک کروڑ نئی نوکریاں پیدا کی جائیں گی، ملک بھرمیں درخت لگائے جائیں گے، بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔اداروں میں میرٹ لایا جائے گا۔ خارجہ پالیسی میں اصلاحات لائی جائیں گی۔اداروں کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ بجلی اور گیس کی قیمت کو کم کیا جائے گا۔وزیراعظم اسکیم کے تحت 50 لاکھ سستے گھر بنائے جائیں گے۔ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے گا۔نئے سیاحتی مقامات کا اعلان کیا جائے گا ، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کی بارے میں نہیں پوچھنا کیونکہ یہ تو 5 سال کے لیے ہیں ہم نے تو صرف مذاق میں سو دنوں کا کہا تھا۔گند صاف کرنے کے لیے تھوڑا سا وقت تو چاہیے کیونکہ تبدیلی آرہی ہے۔
توڑ دیں گے، قرض نہیں کھائیں گے، ملک کو مقروض نہیں کریں گے۔ جب وزیر اطلاعات سے پوچھا گیا کہ وہ اربوں ڈالر کہاں ہیں جو لوٹ کر باہر بھیجے گئے۔ ہینڈسم وزیر سعودی عرب سے آئے مہمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے “آتوگئے ہیں” ہم نے تو ان “عربوں ” کی بات کی ہے۔ ان کے رویوں کو چھوڑیں جب لیڈر اچھا ہو تو سب ٹھیک ہوجاتا ہے کیونکہ تبدیلی آرہی ہے۔
یقین مانیے میں نے تو یہی سوچ اپنے ذہن میں رکھ لی ہے کہ تبدیلی آرہی ہے۔ کیونکہ اب دور بدل چکا ہے نسل بدل چکی ہے ، پرانا نہیں نیا پاکستا ن ہے اور اب تو تبدیلی بھی آرہی ہے آپ بھی 5 سال کے لیے یہی تبدیلی والی سوچ رکھیں۔ سکون ملے گا۔