پاکستان تحریک انصاف نے ہرطرف میدان مار لیا عمران خان نے وزارت اعظمی کا حلف اٹھایا تو پنجاب میں وزیراعلی کے حوالہ سے ہر چینل اور اخبار نے اپنی اپنی مرضی اور پسند کے نام چلانا شروع کردیے مگر جب عمران خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں سردار عثمان بزدارکو وزیراعلی نامزد کیا تو ہر طرف ایک شور شروع ہوگیا کسی نے عثمان بزدار کی پرانی ایف آئی نکال کر چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اسے نیب زدہ قرار دیدیا مگر عمران خان نے واضح کردیا کہ میں نے ایک ایسے فرد کو وزیراعلی نامزد کیا ہے جو پسماندہ علاقے کا رہنے والا اور جسکے گھر میں پانی ہے بجلی ہے اور نہ ہی گیس ہے اور پھر آخر کار اپوزیشن اور انکے حواریوں کے بھر پور احتجاج کے باوجود وزیراعلی پنجاب منتخب ہوگئے جنہوں نے منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ پنجاب کا ہر رکن اسمبلی اپنے علاقے کا وزیراعلی ہوگا اور عثمان بزدار نے اپنی وزارت اعلی کے صرف پہلے چند ایام میں ہی ثابت کردیا کہ وہ واقعی کپتان کا صحیح انتخاب ہیں بزدار کے وزیراعلی بننے سے انکے علاقے خاص کر جنوبی پنجاب میں خادم اعلی نے جو اپنا ایک حصار بنا رکھا تھا وہ ٹوٹ گیا۔
شہباز شریف کے دور میں وزیر بے وقت تھے تو افسران من مانی کررہے تھے غریب انسان صرف ایک درخواست دینے راجن پور سے جب لاہور میں خود ساختہ خادم اعلی کے نام نہاد شکایت سیل کلب روڈ پر واقع دفاتر جاتا تو انتہائی مایوس ہو کرواپس لوٹتا تھاجبکہشہباز شریف اور انکے سارے چہیتے عوام کی پہنچ سے دور تھے اب عثمان بزدار عوام کی پہنچ میں بھی ہیں اور افسران کو بھی عوام کے سامنے جواب دہ بنانے میں مصروف ہیں پنجاب میں عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلی بنا کرایک ایسی تبدیلی کردی ہے جو آج تک کوئی نہ کرسکا اور یہ ایک مشکل کام تھا جو انتہائی آسانی سے طے ہوگیا وزیراعلی کے بعد عمران خان نے پنجاب میں چوہدری سرور اور سندھ میں عمران اسماعیل کو گورنر کے لیے نامزد کردیا عمران اسماعیل بھی عثمان بزدار اور چوہدری سرور کی طرح عوامی انسان ہیں سندھ کے نامزد گورنر عمران اسماعیل جب اسٹیج پر تبدیلی آئی رے گا رہے تھے تو اس وقت انکا اسٹائل اور انداز بہت ہی پیارا تھا۔
پارٹی کی خاطر انکی قربانیاں بھی بہت زیادہ ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی طرف سے عمران اسماعیل کی بطور گورنر سندھ تعیناتی بھی ایک اچھا اور احسن اقدام یہ تینوں ایسے افراد ہیں جن سے ملنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہوگا یہ عام انسان ہیں اور عام انسانوں میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں گورنرز والا یہ مرحلہ بھی آسانی سے طے ہوجائیگا جسکے بعد ملک میں صدارتی الیکشن ہوگا جو اپوزیشن کے بھر پور مخالفت کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی آسانی سے جیت جائیں گے میں یہ بات اتنے وثوق کے ساتھ کیسے کہہ رہا ہوں اس کے لیے صدر کے الیکشن کے حوالہ سے طریقہ کار اور پھر پارٹی پوزیشن کو سمجھنا ضرورہے صدارتی انتخاب کے لیے دستور میں ایک الیکٹورل کالج تشکیل دیا گیا ہے ۔ اس میں قومی اسمبلی کے ہر رکن، سینٹ کے ہر رکن اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کو ایک ایک ووٹ حاصل ہے جبکہ دیگر تین صوبائی اسمبلیوں کو سب سے چھوٹی اسمبلی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعدد برابر یعنی 65، 65 ووٹ ملتے ہیں۔
یوں ان اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد کو 65 پر تقسیم کرنے سے جو نمبر نکلتا ہے ، ان تین اسمبلیوں کے اتنے اتنے ارکان مل کر ایک ووٹ رکھتے ہیں۔ گویا پنجاب اسمبلی کے 5.70 ارکان، سندھ کے 2.58 ارکان، کے پی کے 1.90 ارکان کو ایک ووٹ حاصل ہے اس طرح قومی اسمبلی کے 342، سینٹ کے 104 اور چار صوبائی اسمبلیوں کے 652354 ارکان کا مجموعہ 706 نکلتا ہے جو کہ الیکٹورل کالج کا مجموعی نمبر ہے ۔قومی اسمبلی میں اس وقت 342 میں سے 330 ارکان موجود ہیں اور 12 سیٹیں خالی ہیں۔ 330 میں 176 ارکان پی ٹی آئی الائنس، 150 اپوزیشن الائنس اور 4 آزاد ارکان ہیں۔
سینٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن الائنس سے ، 25 کا تعلق پی ٹی آئی الائنس سے ، 11 آزاد ارکان.یوں وفاقی پارلیمان میں پی ٹی آئی الائنس کو 201، اپوزیشن الائنس کو 218 ووٹ حاصل ہیں۔ 15 آزاد ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کا سکور کچھ یوں ہے :۔پنجاب اسمبلی 371 247 65 : حکومتی ارکان : 189 247 5.70 (33 ووٹ)اپوزیشن الائنس : 171 247 5.70 (30 ووٹ)آزاد : 5 247 5.70 (1 ووٹ)سندھ اسمبلی 168 247 65 : پی ٹی آئی الائنس : 65 247 2.58 (26 ووٹ)اپوزیشن الائنس : 98 247 2.58 (38 ووٹ)تحریک لبیک : 3 247 2.58 (1 ووٹ)کے پی اسمبلی 124 247 65 :حکومتی الائنس : 852471.90 (45 ووٹ) اپوزیشن الائنس : 332471.90 (18 ووٹ)آزاد : 32471.90 (2 ووٹ)بلوچستان اسمبلی 65 : حکومتی اتحاد : 41،اپوزیشن 16،آزاد : 4 ،اب کرتے ہیں گرینڈ ٹوٹل پی ٹی آئی اتحاد :20122833228262284522841236346،اپوزیشن الائنس : 21822830228382281822816236320 ،آزاد و دیگر: 15228122812282228423623،گویا پی ٹی آئی کو 346، اپوزیشن کو 320 ارکان کی حمایت حاصل ہے ۔
بالفرض اپوزیشن کسی طرح تمام آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل کرلے (جو کہ ناممکن ہے )، تب بھی پی ٹی آئی کو ہرانا ممکن نہیں۔ اور حالات کو دیکھتے ہوئے غالب امکان یہی ہے کہ کم از کم 20 آزاد ووٹ پی ٹی آئی کی حمایت کریں گے اس لیے پی ٹی آئی دوستوں کے لیے خوشخبری ہے کہ صدر تحریک انصاف کا ہی ہو گا۔ آخر میں کے پی کے پولیس کو ماڈل پولیس اور حقیقی معنوں میں عوامی خدمت گاربنانے والے ناصر درانی نے پنجاب پولیس میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی ہر قسم کا وی وی آئی پی پروٹوکول ختم کر دیا ہے ساڑھے چھ ہزار پولیس والے جو جاتی عمرہ کی سکیورٹی پر معمور تھے ، ان سب کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے ، ڈیڑھ سو کے قریب ان رہائشی پولیس آفیسرز کو بھی وی وی آئی پی پروٹوکول سے ہٹا کر پروفیشنل ڈیوٹیز پر لگا دیا گیا ہے ، جنکا رینک انسپکٹر سے اوپر تھااور خاص کر ماڈل ٹاؤن کا وہ علاقہ جہاں شریف فیملی آباد تھی اس جگہ کو پولیس نے نو گو ایریا بنا رکھا اور شریفوں کے سارے گھروں کے باہر ایسے پولیس کے بنکر بنے ہوئے تھے جیسے یہ رہائشی علاقہ نہیں بلکہ پاک انڈیا بارڈر ہے مگر ناصر درانی کے آتے ہی پولیس اپنی پروفیشنل ڈیوٹیز پر چلی گئی ہے ، لہذا دیکھتے ہیں جاتی عمرہ یا ماڈل ٹاؤن کو کوئی جیب میں ڈال کر لے جاتا ہے یا یہ تما م جگہیں وہیں رہتی ہیں اگر ان شریفوں کی جان کو خطرہ ہے تو یہ اپنی جیب سے پرائیویٹ گارڈز رکھ سکتے ہیں۔