تبدیلی کے کنٹینر سے۔۔۔ جو ذہن سازی ہوئی۔۔۔اس سے تبدیلی کی جو فضا بنی۔۔۔ تبدیلی کے لیئے جوخون رنگ جدوجہد ہوئی۔۔۔ اس سے تبدیلی کے جو رنگ نکھرے۔۔۔ اقتدار کی قوس قزا سے۔۔۔ جو دھنک رنگ بکھرے۔۔۔ تبدیلی سے اُمیدوں کے جو گلاب مہکے۔۔۔ اُمیدوں کی خوشبو سے فضا جو معطر ہوئی۔۔۔ جو حوصلے بلند قامت ہوئے۔۔۔ عوامی خواہشوں نے انگڑائی لی۔۔۔ لیکن تبدیلی کی طلمساتی منزل پہ ۔۔۔جب یقین کے پہلے قدم کا تجربہ کیا گیا ۔۔۔ تو یو ٹرن کی فلاسفی موضوع بحث بن گئی۔۔۔
تبدیلی کے ارتقائی سفرکی آڑ۔۔۔ زیادہ دیر تک جواز نہیں بنائی جا سکے گی۔۔۔ اور نہ ہی فواد چوہدری کے کھردرے لہجے۔۔۔ تبدیلی کی خواہش کو دبا سکیں گے۔۔۔ اقتدار کی زبا ن کے لہجے ۔۔۔پہلے ادوار میں بھی عوامی نہ تھے۔۔۔اب بھی حکمرانہ۔۔۔اور متکبرانہ ہیں۔۔۔ عوامی کنٹینر پر سب ۔۔۔آپ کو اپنے لگتے تھے۔۔۔اب نہ جانے۔۔۔ آپ کو سب نواز شریف کیوں دکھتے ہیں؟؟؟ حوصلہ رکھیں سب آپ کے اپنے ہیں۔۔۔اور آپ کے ہی منتظر ہیں۔۔۔آپ کا موقف اپنی جگہ صحیح۔۔۔کہ داخلے والے دن ہی نتیجہ کیسے مل سکتا ہے۔
لیکن کیا کریں۔۔۔صاحبو۔۔۔ بار با ر دھوکھے۔۔۔ اعتبار کو شک میں بدل دیتے ہیں۔۔۔حوصلوں کو کمزور۔۔۔کر دیتے ہیں۔۔۔ شریف برادران،سعد رفیق اور احسن اقبال۔۔۔کو ضرور مخاطب کریں۔۔۔لیکن کنٹینر کے سامنے کھڑے ہونے والوں۔۔۔اور دعاووں میں یاد رکھنے والیوں۔۔۔کے سامنے اختیاراتی کنٹینر نہ لگائیں۔۔۔ اقتدار کی مجبوریاں۔۔۔اور ضرورتیں۔۔۔جب اصولی موقف سے یو ٹرن لیتی ہیں۔۔۔تو آپ کے مخلص۔۔۔آپ کے خیر خواہ دکھی ہو جاتے ہیں۔۔۔ اُن کے دکھ کو۔۔۔سازش نہ کہیں۔۔۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے۔۔۔ایک ہی گھر اور خاندان پر وزارتوں کی نو ازش۔۔۔اورایسے سیاست دانوں کو اقتدار کی طاقت کی کرسی پر بیٹھا دینا۔۔۔جن کے چہرے اب بھی خون آلودہ ہیں۔۔۔جنہیں اپوزیشن بھی بے نقاب کر رہی ہے۔۔۔اور ٹی وی چینلز اُن کی کرپشن بے لباس کر رہے ہیں۔۔۔لیکن وئہ اپنی پوری طاقت اور کروفر سے مسلط ہیں۔۔۔کرپشن پر سزائے موت کے قانون سے پہلے۔۔۔اقتدار سے کرپشن ز دہ اور نیب زدہ سیاست دانوں کو۔۔۔اقتدار بدر کرنا زیادہ آسان ہے۔۔۔ کہیں کہیں آپ کے حکومتی پارٹنر۔۔۔ بہت جلدرنگ دکھانے والے بھی ہیں۔۔۔ اور رنگ جمانے والے بھی ہیں۔۔۔شریف برادان کے ادوار میں۔۔۔ ظلم و جبرکی اہلیت والا مافیا۔۔۔نئے روپ ۔۔۔اورنئے انداز میں۔۔۔شامل اقتدار ہو چکا ہے۔۔۔کچھ دنوں بعد ناجائز تجاوزات کے خاتمے کی مہم کا جائزہ لیں۔۔۔کہ کس ضلع میں۔۔۔کس طاقت والے نے ۔۔۔تجاوزات والوں کو تحفظ دے رکھا ہے۔۔۔
ایک ضلع میں تو صرف فضائی تجاوزات کاخا تمہ ہو سکا۔۔۔دوکانوں کے شٹر ہٹا کر۔۔۔سرکاری زمینوں کو واگزار کرانے سے روک دیا گیا۔۔۔ اگر صرف ناجائز تجاوزات کا خاتمہ ہو جاتا تو۔۔۔تبدیلی میں نکھار آ جاتا۔۔۔اور ١٠٠ دنوں کی کارکردگی کے سوال کو جواب مل جا تا۔ تبدیلی اور یو ٹرن پرصرف۔۔۔ حکومت کا ہی حق نہیں ہوتا۔۔۔اسے میڈیا بھی انجوائے کر سکتا ہے۔۔۔ نوازشریف کے بعد۔۔۔ عوامی جنگل میں میڈیا ہی واحد شیر بچا ہے۔۔۔جو من مرضی والا ہے۔۔۔اس کی صو ابدید پر منحصر ہے۔۔۔چاہے تو وطن پر قربان ہونے والوں کو گمنام کر دے۔۔۔ اور چاہے تو کمانڈو کو اعزاز دلا دے۔۔۔
کراچی چائینہ قونصل خانے پر دہشت گرد حملے۔۔۔کوناکام بناتے ہوئے۔۔۔ جن پولیس اہلکاروں نے اپنے سینے پیش کیئے۔۔۔اور ناموس وطن کی عالمی ساکھ میں اضافہ کیا۔۔۔پولیس کی پیشہ وارانہ قابلیت و اہلیت کو اُجاگر کیا۔۔۔زندگی کی قربانی دینے سے بڑی کوئی سچائی نہیں ہوتی۔۔۔ مادر وطن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔۔۔چاہے سرحد کے اوپر ہو ں یا سرحدکے اندر۔۔۔ایک جیسے قابل فخر ہوتے ہیں۔۔۔ بحیثیت ادارہ پولیس کو بھی اپنے شہدا کو۔۔۔قابل تکریم بنانے کی ضرورت ہے۔۔۔خاتون کمانڈو آفیسر کو لیڈ کرنے پر۔۔۔ ضرور میڈل دیں۔۔۔لیکن لیڈ کرنے والوںکو۔۔۔ شہید ہونے والوں کی میتوںپر کھڑا کرکے۔۔۔ تمغے دینے کی رو ایت نہ ڈالیں۔ تاکہ اپنے لہو سے دہشتگردی کی آگ بجھانے والے۔۔۔اس ملک کو میسر رہیں؟؟؟