تبدیلی سرکار کی حقِ حکمرانی کا تقریباََ ایک تہائی گزر چکا لیکن تاحال خزاؤں کے ڈیرے۔ جس بہار کی آمد کے چرچے اکتوبر 2011ء میں شروع ہوئے، وہ گم کردہ راہ ہوئی اب یہ طفل تسلیاں کہ” گھبرانا نہیں”۔ جو زیادہ گھبرائے اُس کے لیے یہ مشورہ” سکون صرف قبر میں ملتا ہے”۔ اب سکون کے متلاشی یا تو طبعی موت کی دعا کریں یا پھر حرام موت گلے لگا لیں۔ تبدیلی سرکار کا نعرہ مگر اب بھی ریاستِ مدینہ کی تشکیل۔ وہ ریاستِ مدینہ جس میں دریائے فرات کے کنارے مر جانے والے کتّے کی روزِ قیامت پُرسش سے امیرالمومنین لرزہ بَراندام لیکن ہماری ریاستِ مدینہ کی یہ حالت کہ چین میں کورونا وائرس پھیلنے پر تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نے چین سے اپنے شہریوں کو نکال لیا، کچھ ممالک نے تو اپنے خصوصی طیارے بھی بھیجے لیکن تبدیلی سرکار خوفزدہ کہ اگر چین میں پھنسے پاکستانیوں کو نکال لیا تو کہیں یہ وائرس اُن تک بھی نہ پہنچ جائے۔
یہ بجا کہ چینی حکومت پاکستانی بچوں کی بھرپور دیکھ بھال کر رہی ہے لیکن اُن بچوں کے والدین کے دردناک اضطراب کی کسی کو خبر بھی ہے؟۔ یہ درد تو صرف وہ ماں جانے جس کا جگرگوشہ چین میں ہے، وہ باپ جانے جسے ہر لمحہ اپنی لاٹھی ٹوٹنے کا دھڑکہ لگا رہتا ہے۔ چلیں مان لیا کہ قوم پیٹ پر پتھر باندھ لے اور گھبرائے نہیں لیکن کیا اپنوں کی کسمپرسی پر بھی نہ گھبرائے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جن ممالک نے چین سے اپنے شہریوں کا انخلا کیا، کیا اُنہیں اپنے ممالک میں کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ نہیںہے؟۔ اگر وہ خطروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنے شہریو کو نکال لائے تو پاکستانی شہریوں کو بے سروسامانی کی حالت میں کیوں چھوڑا جا رہا ہے؟۔
ریاستِ مدینہ میں تو امیرالمومنین حضرت عمراپنے کندھے پر اناج کی بوری اٹھا کر غریب بیوہ کے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو غلام عرض کرتا ہے ”لائیے آپ کا یہ بوجھ میں اٹھا لوں”۔ امیرالمومنین فرماتے ہیں ”کیا روزِ قیامت بھی میرا بوجھ تم اٹھا لوگے؟”۔ جدید ریاستِ مدینہ کے ”امیرالمومنین” کا فرمان ”گھبرانا نہیں”۔ سوال یہ کہ جب قوم نانِ جویں کی محتاج ہو کر رہ جائے تو پھر گھبرانا تو بنتا ہے۔ آخر قوم کب تک اِس لولی پاپ کے سہارے زندہ رہے کہ بہار کی آمد آمد ہے۔ جب ادارہ شماریات کہے کہ جنوری میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں 14.6 فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے 12 سالوں میں سب سے زیادہ ہے تو پھر گھبرانا تو بنتا ہے۔ جب سٹیٹ بینک یہ کہے کہ پچھلے 15 ماہ میں قرضوں نے 11ہزار 610 ارب روپے کا اضافہ ہوا تو پھر گھبرانا تو بنتا ہے۔ جب وزیرِاعظم خود کہے کہ اِس تنخواہ میں اُس کا چولہا نہیں جلتا تو پھر گھبرانا تو بنتا ہے۔ جب ارکانِ قومی اسمبلی و سینٹ اپنی تنخواہوں میں 400 فیصد اضافے کا مطالبہ کریں تو پھر گھبرانا تو بنتا ہے۔
سوچوں کا محور یہ کہ وزیرِاعظم کی تنخواہ لگ بھگ 2 لاکھ روپے اور گھر کے افراد صرف 2 ۔ ارکانِ اسمبلی کروڑوں روپے انتخابات پر صرف کریں لیکن گزارہ اُن کا بھی نہیں ہوتا تو پھر اُس مجبور کی کیا حالت ہو گی جس کی ایک بڑے کنبے کی کفالت کے لیے تنخواہ محض 15 سے 20 ہزار۔ ماسی مصیبتے لاکھ کہے کہ مہنگائی کی وجہ وہ ڈاکو ہیں جو لندن میں عیاشیاں کر رہے ہیں، قوم ماننے کو تیار نہیں۔ اسے آتشِ شکم کی سیری چاہیے جس کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔ حکومتی وزیر اسد عمر کہتے ہیں کہ مہنگائی سے لوگوں کی زندگیاں مشکل میں ہیں۔ یہ مہنگائی مافیاز اور ذخیرہ اندوز کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ گندم اور چینی سپلائی میں کسی نے خلافِ قانون کام کیا ہے تو عمران یہ نہیں دیکھیں گے کہ وہ اُن کا ساتھی ہے۔ کیا اسد عمر بے خبر کہ مافیاز تو وزیرِاعظم کے دائیں بائیں، لیکن اُن پر ہاتھ ڈالنا ناممکن کہ وہی تو خاںصاحب کے اے ٹی ایم۔ وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ”مہنگائی کے مجوزہ اعداد وشمار میں کوئی سیاسی حکومت نہیں چل سکتی۔ مہنگائی کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہے۔ اِس کے خاتمے کے لیے فوری ایکشن کی ضرورت ہے”۔ لال حویلی والے نے بھی کہا کہ اپوزیشن عمران خاں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی البتہ حکومت کی اپوزیشن مہنگائی ہے جس کا تدارک ضروری۔ سوال یہ ہے کہ جب مہنگائی کے ہاتھوں اونچے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہے اور کپتان یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس کا ذمہ دار کون ہے تو پھر تمامتر طاقت رکھنے کے باوجود وہ اُن پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے؟۔ کیا وہ صرف اِس وجہ سے خاموش ہیں کہ یہ مافیاز اُن کے اے ٹی ایمز ہیں۔ اگر اِس پر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو تحریکیوں کو کہے دیتے ہیں ”تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں”۔
گزشتہ 6 ماہ کے دوران اِسی مافیا نے آٹے اور چینی کی قیمتوں کو آسمانوں تک پہنچا دیا۔ اب پیپلزپارٹی کی حکومت ہے نہ نوازلیگ کی۔ نواز، شہباز اور زرداری کی شوگر ملیں تو بند ہیںپھرچینی کس نے مہنگی کی؟۔ اگر کوئی اینکر اِس پر زبان کھولے تو اُسے دھمکیاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب کے لبوں پر چور، چور اور ڈاکو، ڈاکو کی تکرار لیکن چور اور ڈاکو تو اُن کی چھتری تلے پناہ لیے۔ گویا ”بچہ بغل میں، ڈھنڈورا شہرمیں”۔ ہمارے کپتان کے پاس تو ڈاکٹر عاصم، جس کے پاس حوروں والا ٹیکہ لیکن بھوکوں مرتی قوم کو تو یہ ٹیکہ بھی میسر نہیں۔ قوم کے لیے تو بجلی کا ٹیکہ، گیس کا ٹیکہ، ڈیزل کا ٹیکہ، پٹرول کا ٹیکہ، ٹیکس کا ٹیکہ، مہنگائی کا ٹیکہ اوربے روزگاری کا ٹیکہ۔ یہ ایسے سریح الاثر ٹیکے جنہیں لگانے سے مجبور کو حور کی جگہ لنگور نظر آنے لگے۔ اب کپتان کو کون سمجھائے کہ کَٹوں وَچھوں، گائے بھینسوں، بکرے بکریوں، مرغیوں اور انڈوں سے معیشت بہتر ہوتی ہے نہ قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔
داخلی صورتِ حال یہ کہ حکومت اور اپوزیشن ہمہ وقت باہم جوتم پیزار اور بین الاقوامی تعلقات کا کوئی سرپیر نہیں۔ اقبال نے کہا
مشامِ تیز سے ملتاہے صحرا میں سراغ اِس کا ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری
خارجہ تعلقات کے لیے جس مشامِ تیز کی ضرورت، وہ ہمارے ہاں مفقود۔ ہم صرف ظن وتخمیں سے کام لیتے ہیںیا پھر جھوٹ کی آڑھت سجاتے ہیں۔ جب 5 اگست 2019ء کو بھارتی وزیرِاعظم نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرکے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی تو پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں شورِ قیامت اُٹھا۔ وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے فخر سے یہ بیان داغا کہ اُنہوں نے کشمیر کے مسٔلے پر 50 ممالک کی حمایت حاصل کر لی ہے (یہ حمایت صرف چین، ترکی، ملائشیا اور ایران نے کی، وہ بھی اپنی مرضی سے، وزیرِ خارجہ کی کوششوں سے نہیں)۔شاہ محمود قریشی کے جھوٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے تب پھوٹی جب سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرنے کے لیے صرف 16 ممالک کی ضرورت تھی لیکن شاہ صاحب وہ حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے۔
اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقعے پر پاکستان، ترکی اور ملائشیا نے باہمی تعلقات کو فروغ دینے اور اپنا مشترکہ چینل کھولنے کا قصد کیا۔ ہمارے کپتان اِس کامیابی پر اتراتے پھرتے تھے لیکن جب ملائشیا کے شہر کوالا لمپور میں اِسی سلسلے میں کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا تو وزیرِاعظم صاحب نے اِس میں شرکت سے نہ صرف معذرت کرلی بلکہ شاہ محمود قریشی کو بھی شرکت سے روک دیا۔ پچھلے دنوں ملائشیا کے دورے پر خاںصاحب نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ کچھ دوستوں کو اِس پر اعتراض تھا۔ ترکی کے صدر طیب اردوان تو پہلے ہی بتا چکے تھے کہ ہمارے وزیرِاعظم کو کس نے اور کیوں روکا۔ بات اگر گومگو میں ہی رہتی تو اچھا تھا لیکن وزیرِاعظم کے بیان نے سب کچھ عیاں کر دیا۔ کیا وزیرِاعظم کے اِس اقراری بیان کے بعد وہ ”دوست” ناراض نہیں ہوں گے؟۔
کشمیر مودی ہڑپ کر گیااور ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی پر نازاں حالانکہ خود کشمیریوں کو بھی یہ ثالثی قبول نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جیسا امن منصوبہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین پر پیش کیا، ویسا ہی منصوبہ کشمیر کے بارے میں اُن کے ذہن میں ہوگا جو پاکستانیوں کو قبول ہے نہ کشمیریوں کو۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ کہ وہ بار بار ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں لیکن ہماری حکومت کو بصد ادب معذرت کر لینی چاہیے کیونکہ اِس پیشکش میں فائدے کی بجائے اُلٹانقصان کا احتمال زیادہ ہے۔
5 فروری کو ہم نے یومِ یکجہتی ٔ کشمیر بھرپور طریقے سے منایا۔ جلسے کیے، ریلیاں نکالیں، جذباتی تقریریں کیں اور ہاتھوں کی زنجیریں بنائیں۔ اب اگلے سال 5 فروری کا انتظار کریں جب ہم پھر سے یومِ یکجہتی ٔ کشمیر منائیں گے۔ رہی بین الاقوامی برادری میں مسلۂ کشمیر کو اجاگر کرنے کی بات تو یہ ہمارے بس کا روگ نہیں کیونکہ کوئی بھی ہماری باتوں پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں۔ اِس معاملے میں نریندرمودی کا شکریہ کہ وہ خود ہی حماقتوں پر حماقتیں کرکے اِس مسٔلے کو اجاگر کر رہا ہے۔ ہمارے کپتان کو تو صرف جذباتی تقریریں کرنے کا شوق ہے جن سے پوری قوم ہر روز مستفید ہوتی رہتی ہے۔ گویا ”صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا، بارہ آنے”۔ اب وزیرِاعظم فرماتے ہیں کہ خود نریندرمودی کی حماقتوں سے ہی کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ اگر ہم نے خونم خون کشمیر کی دِل جوئی کے لیے صرف جذباتی تقریریں ہی کرنی ہیں اور ہاتھوں کی زنجیر بنانی ہے تو پھر کیا ہم نے ایٹم بم شب برات پر پھلجھڑیوں کی جگہ چلانے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ یاد رکھیں کہ جتنی ضرورت کشمیریوں کو پاکستان کی ہے، اُتنی بلکہ اُس سے بڑھ کر پاکستان کو کشمیر کی ضرورت ہے کیونکہ قائدِاعظم کشمیر کو پاکستان کی شہ رَگ قرار دے چکے ہیں۔ اگر یہ شہ رَگ دشمن کے ہاتھ میں آگئی تو کیا وہ اِسے کاٹنے سے گریز کرے گا؟۔