کپتان کی 22 سالہ جدوجہد رنگ لا رہی ہے اور تبدیلی کے واضح آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جس کا بیّن ثبوت ڈسکہ میں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ڈسکہ میں کچھ نامعلوم افراد سارا دن مختلف پولنگ سٹیشنز پر فائرنگ کرتے رہے جس میں 2 سیاسی کارکنوں کی ہلاکت کے علاوہ 10 افراد زخمی بھی ہوئے لیکن اُن کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ کارکنان کی ہلاکت پر تحریکِ انصاف اور نوازلیگ ایک دوسرے پر الزام دھر رہی ہیں۔ ہلاک ہونے والے کارکنان میں سے ایک کا تعلق تحریکِ انصاف اور دوسرے کا نوازلیگ سے تھا اِس لیے دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزام لگانے کا موقع مل گیا۔ جب ووٹوں کی گنتی کی باری آئی تو 337 پولنگ سٹیشنز کے غیرحتمی نتائج کے مطابق نواز لیگ کی سیّدہ نوشین افتخار 97588 ووٹ لے کر آگے تھیںاور تحریکِ انصاف کے علی اسجد ملہی کے 94541 ووٹ۔ پھر تبدیلی نے رنگ دکھانا شروع کیا اور 23 پولنگ سٹیشنوں کا عملہ پولنگ بیگز سمیت ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ چیف الیکشن کمشنر، آئی جی اورڈپٹی کمشنر کو عملے کی بازیابی کے لیے فون کرتے رہے لیکن کسی نے فون تک اُٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ نوازلیگ کی مریم اورنگ زیب کہتی ہیں ”تاریخ میں پہلی بار صرف ووٹ ہی نہیں، الیکشن کا عملہ بھی چوری ہوگیا۔ آٹا، چینی، دوائیاں اور ووٹ چوری کرنے والوں نے الیکشن کا عملہ بھی چوری کر لیا”۔
لگ بھگ 12 گھنٹوں کے بعد عملہ بازیاب ہوااوراِن گمشدہ ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ اب فردوس عاشق اعوان اور شہبازگِل دعویٰ کر رہے ہیں کہ علی اسجد ملہی 7827 ووٹوں کی برتری سے جیت گیاہے۔ ہم ٹھہرے تھوڑے حسابی کتابی، اِس لیے کیلکولیٹر لے کے بیٹھ گئے اور اپنے ارسطوانہ ذہن کو فُل سپیڈ سے بھگانا شروع کر دیا۔ ہم نے جو نتیجہ اخذ کیا اُس کا ذکر بعد میں، پہلے تبدیلی سرکار سے ہمدردی کے کچھ بول کہ ضمنی انتخابات میں وہ کسی کو مُنہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ سندھ میں ضمنی انتخابات کا میدان پیپلزپارٹی پہلے ہی مار چکی۔ خیبرپختونخوا کے نوشہرہ میں جو ہمارے سابق وزیرِاعلیٰ اور موجودہ وزیرِ دفاع پرویز خٹک کا گھر ہے، وہاں بھی حکمران جماعت کو شدید دھچکا لگا۔ نون لیگ کے اختیار ولی نے 21 ہزار سے زائد ووٹ لیے اور تحریکِ انصاف کے میاں عمر نے 17 ہزار سے زائد۔ یوں نون لیگ لگ بھگ 4 ہزار ووٹوں کی برتری سے جیت گئی۔
یہ (پی کے 63) وہی حلقہ ہے جہاں سے 2018ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے جمشید الدین نے نون لیگ کے اِسی اختیار ولی کوساڑھے 10 ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی تھی، وہی اختیار ولی اڑھائی سال بعد 4 ہزار ووٹوں کی برتری سے جیت گیا۔ اب اگر نوازلیگ یہ کہتی ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں ”فرشتوں” نے ووٹ ڈالے تھے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ فاٹا کی کرم ایجنسی میں تحریکِ انصاف کا اُمیدوار بہت کم ووٹوں کی برتری سے جمیعت علمائے اسلام کے اُمیدوارسے جیت گیا۔ جمیعت علمائے اسلام ”رَولا” ڈال رہی ہے کہ اُس کا اُمیدوار جیت رہا تھا لیکن گڑبڑ کرکے ہرا دیاگیا اِس لیے وہ نتائج کو تسلیم نہیں کرتی لیکن ہمارا خیال ہے کہ اتنے سارے ضمنی انتخابات میں سے ”تبدیلی سرکار” کوکم از کم ایک سیٹ تو ملنی چاہیے تاکہ اُس کے کچھ ”کَکھ” رہ سکیں۔پنجاب میں PP-51 وزیرآباد کے غیرحتمی نتائج کے مطابق نوازلیگ کی بیگم طلعت محود 53900 سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئی جبکہ تحریکِ انصاف کے چودھری یوسف کے حصّے میں 48 ہزار سے کچھ زائد ووٹ آئے۔
اب آئیے ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کی طرف جس کے 360 پولنگ سٹیشنز میں سے 337 پولنگ سٹیشنز کے غیرحتمی نتائج کے مطابق سیدہ نوشین افتخار 3 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے جیت رہی تھی لیکن شہبازگِل اور فردوس عاشق اعوان کے مطابق گمشدہ 23 پولنگ سٹیشنز کی گنتی کے مطابق علی اسجد ملہی 7827 ووٹوں کی برتری سے جیت گیا۔ گویا اِن 23 حلقوں میں اسجد ملہی نے سیدہ نوشین افتخار سے تقریباََ 11 ہزار ووٹ زائد لیے۔ ہم نے جب حساب لگایا تو 337 حلقوں کے تناسب کے مطابق 23 پولنگ سٹیشنوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد تقریباََ وہی بنتی ہے جس برتری کا دعویٰ تبدیلی سرکار کے 2 بزرجمہر کر رہے ہیں۔ اگر فردوس عاشق اور شہبازگِل کے دعوے کو مدِنظر رکھا جائے تو صورتِ حال یوں بنتی ہے کہ اِس حلقے میں کم وبیش 30 فیصد پولنگ تو 337 پولنگ سٹیشنز پر ہوئی جبکہ گُمشدہ 23 پولنگ سٹیشنز پر 88 فیصد پولنگ ہوئی۔ فردوس عاشق کہتی ہے کہ وہ سیٹ جیت چکے لیکن احسن اقبال، جاوید لطیف اور عطاء اللہ تارڑ نے ریٹرننگ آفیسر کو یَرغمال بنا رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ تو تبدیلی سرکار کی ہے پھر کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ بزدار حکومت اتنی ہی کمزور ہوچکی کہ نون لیگ کے 3 رَہنماؤں نے ریٹرننگ آفیسرز کو یرغمال بنا لیا اور حکومت مُنہ دیکھتی رہ گئی۔فردوس عاشق کو کوئی جا کر بتائے کہ اب ”غیبی قوتوں” کا ہاتھ حکمرانوں کے سر پر نہیں رہا اِس لیے وہ تسلیم کر لے ”ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کَسے”۔
ڈسکہ کے حلقہ NA-75 کے ضمنی انتخاب پر الیکشن کمیشن کا اعلامیہ بھی ”تبدیلی سرکار” کو ننگا کر گیا۔ اِس اعلامیے کے مطابق ریٹرننگ آفیسر کو 20 پولنگ سٹیشز کے نتائج میں رَدوبدل کا خدشہ ہے اِس لیے مکمل انکوائری رپورٹ کے بغیر نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ڈی آراو مکمل انکوائری رپورٹ الیکن کمیشن کو ارسال کر رہے ہیں۔ تب تک NA-75کے نتائج کے اعلان سے ریٹرننگ آفیسر کو روک دیا گیاہے اور ذمہ داران کے تعین کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ صوبائی اور جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر کو ڈی آر او اور آر او کے دفتر پہنچنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ اعلامیے میں مزیدکہا گیا کہ NA-75 کے نتائج غیرضروری تاخیر سے موصول ہوئے۔ متعدد بار پریذائیڈنگ آفیسرز سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے۔ آئی جی اور ڈپٹی کمشنر سے رابطے کی کوشش کی گئی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ چیف سیکرٹری نے گمشدہ آفیسرز اور پولنگ بیگز کو ٹریس کرکے رزلٹ کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی لیکن3 بجے کے بعد چیف سیکرٹری نے اپنے آپ کو عدم دستیاب کر دیا۔ صبح 6 بجے پولنگ آفیسرز مع پولنگ بیگز حاضر ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے اِس اعلامیے کے بعد ہم شہبازگِل اور فردوس عاشق کو یہی کہہ سکتے ہیں ”کوئی شرم ہوتی ہی، کوئی حیا ہوتی ہے”۔
تبدیلی سرکار کو یہ سمجھ آ جانی چاہیے کہ جب وہ 2023ء کے انتخابات میں اُترے گی تو ”فرشتے” ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے بلکہ عوام کے نزدیک اُس کی کارکردگی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ اڑھائی سالوں میں تبدیلی سرکار نے کیا کارکردگی دکھائی؟۔ کیا مہنگائی کے عفریت پر قابو پایا؟۔ کیا کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ سامنے آیا؟۔ کیا بیروزگاروں کو روزگار دیا؟۔ کیا پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڈ نوکریاں دیں؟۔ کیا موٹرویز، ہائی ویز بنائیں؟۔ کیا بیرونِ ملک پڑا اربوں روپے کا کالا دھن واپس آیا؟۔ کیا بجلی وگیس کی فراوانی ہوئی؟۔ کیا معیشت میں بہتری آئی؟۔ بات طولانی مگر مختصر یہ کہ اگر یہ حکومت 2023ء تک برسرِ اقتدار رہتی بھی ہے تو پھر بھی اِس کے دفترِعمل میں کچھ بھی نہیں۔