تحریر : میاں وقاص ظہیر واقعہ تو بہت پرانا لیکن موجودہ حالات کے عین مطابق ہے کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں کسی گائوں کے کنویں میں ایک کتا گر گیا ، گائوں کے تمام مکین پریشان ہوئے کیونکہ تمام لوگ پینے اور نہانے کیلئے کنویں کا پانی ہی استعمال کرتے تھے ،وہ تمام اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ صلاح ومشورہ کرنے لگے کہ کنویں کو کتے سے پاک کس طرح کیا جائے چنانچہ تمام افراد کی مشترکہ رائے سے فیصلہ یہ طے پایا کہ گائوں کے مولوی کے پاس جا کر اس کا حل پوچھتے ہیں تمام لوگ اکٹھے ہوئے اور گائوں کے مولوی کے پاس چلے گئے مولوی اس وقت مسجد کے صحن میں بیٹھے قرآن کی تلاوت میں مشغول تھے لوگوں نے اپنا مسئلہ مولوی کو بیان کیا تو مولوی نے حکم صادر فرما یاکہ فوری طور پر کنویں سے 50ڈول پانی نکالو گائوں کے تمام لوگ واپس آئے
انہوں نے فوری طو ر پر مولوی کی بات پر عمل کیا لیکن کنویں کے پانی سے بدبو ختم نہیں ہوئی وہ دوبارہ مولوی کے پاس گئے اور کہا کہ ابھی تک کنویں کے پانی سے بدبو ختم نہیں ہوئی مولوی نے دوبارہ حکم دیا کہ کنویں سے 100ڈول پانی نکالو تو پانی سے بدبو ختم ہوجائے ہوکر کنواں پاک ہوجائے گا۔ گائوں والے دوبارہ کنویں پر پہنچے اور 100ڈول پانی نکالا لیکن اب کے بار پانی کی بدبو مزید بڑھ گئی بلکہ اردگرد تعفن بھی پھیلنے گئے اس بار تو گائوں والے نہایت پریشان ہوئے تیسری بار مولوی کے پاس گئے اور کہا کہ اب تو بدبو پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے تو اس بار مولوی نے لوگوں نے پوچھا کہ کتے کو کنویں سے نکالا ہے تو تمام لوگوں نے یک زبان کہا نہیں جناب ۔۔!!!کتا کنویں سے نہیں نکالا مولوی کے کہا کہ پہلے کتا کنویں سے نکالو بعد میں پانی نکالنے کا عمل دوہرانا وہ تمام واپس آئے تو انہوں نے پہلے کتے کو کنویں سے نکالاپھر پانی نکالنے کا عمل دوہرا تو کنویں سے تعفن اور بدبو ختم ہوئی گئی۔
میرا یہاں واقعہ سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہماری پوری قوم اس وقت احتساب ۔۔۔۔ احتساب کا ورد کررہی ہے۔۔۔۔ تبدیلی ۔۔۔۔ تبدیلی کے کھوکھلے نعرے تو لگا رہی ہے لیکن گرمی کے اس موسم میں ٹھنڈی جگہ بیٹھ کر کم ازکم ایک جگ ٹھنڈے مشروب کر پی کر کبھی باریک بینی سے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ جس احتساب اور تبدیلی کی ہم بات کررہے ہیں وہ کس طرح ممکن ہے ،یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایشو میڈیا میں آتا ہے چند دن شور مچایا جاتا ہے پھر اگلا ایشو اس کی جگہ لیتا ہے تو پہلا ہمارے کمزور دماغوں سے نکل جاتا ہے۔
Imran Khan
ہم ہیں کہ وہاں ہی احتساب ۔۔۔۔ احتساب ۔۔۔۔ تبدیلی ۔۔۔۔تبدیلی کھیل کر خاموش ہوجاتے ہیں ، آپ کے پاس کسی ایسے شخص کا ڈیٹا موجود جس نے عوام کے ٹیکسوں سے اداکی گئی قومی رقم کو لوٹا سوئس بینک میں جمع کروائی ، بیرون ممالک جائیدادیں خریدی دوسرے ممالک میں کاروبار کئے ،اولادوں کو بیرون ممالک کے سکولوں ،کالجوں ، یونیورسٹیوں میں تعلیم دلائی جب اس کا سکینڈل منظر عام پر آیا تو اسے عبرت ناک سزا ملی تو مجھے بتائیں ، ہمار ا تو قوانین اتنے کمزور ہیں کہ جسے پھنسانا ہو اسے سائیکل چوری کے کیس میں سخت سے سزا سنائی جاتی ہے جسے بچانا ہے وہ چاہئے منی لانڈرنگ کرے ،ناجائز مراعات وصول کرے جائیداروں پر بڑے پیمانے پر قبضے کرے تو تو راتوں رات معتبر پارلیمنٹ میں قانون میں ترمیم کرکے اسے بچالیا جاتا ہے۔ عمران خان نے بھی لفظ احتساب اور تبدیلی کا بے دریغ استعمال کیا ہے ، ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا مسلم لیگ ن کی حکومت برسراقتدار آئے کتنے بڑے مگرمچھ ہیں جنہیں عوامی حقوق اور پیسہ غرق کرنے پر قرار واقعی سزا ملی کوئی ایک شخصیت ، کوئی ایک سیاستدان کا نام نہیں بتا دیں۔
میرا مطلب قرار واقعی لفظ کے استعمال کا صرف اتنا ہے کہ آپ انہیں عوام کے سامنے لائیں ،پھر سرعام تختہ دار پر لٹکا دیں ،یہاں سزا ملی تو صرف اسے جس کے پاس پیسہ اور تگڑی سفارش نہیں ہیں ، تگڑے بندے کیلئے تو قانون گھر کی لونڈی اور پولیس چوکیدار ہے ،پانامہ ایشو کو ہی دیکھ لیں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوںکہ اس سے کچھ نہیں نکلے گا ، آف شور کمپنیاں جنہوں نے بنائی یاجن کی ہیں ، وہ آپ میرے جیسے عام انسان نہیں ان کا شمار اشرافیہ میں ہوتا ہے ،پھر یہ کیسے ممکن چاہئے پیپلزپارٹی ہو،اے این پی ، مولانا فضل الرحمن گروپ اور حکومت کی دیگر جماعتیں جن میں کرپٹ افرادقطار اندر قطار باہر موجود ہیں ،ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہو ایسے قطعی تو ممکن نہیں،یہاں سب خانہ پری ہوتی ہے۔
ترکی پوری دنیاکیلئے مثال بنا ہے تو وہاں کے لیڈر اور عوام دونوں محب الوطن اورایک دوسرے سے مخلص ہیں ، یہاں نہ تو ہمارے لیڈر مخلص اور نہ ہی عوام خود اپنے آپ سے مخلص ہیں ، سیکڑوں بار لکھ چکا کہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر احتساب کی باتیں اور تبدیلی کا نام لینے والے گفتار کے غازی تو ہیں کردار کے نہیں چاہئے عمران خان ہو یا دیگرافراد ۔۔۔۔ کشمیر میں ٹیکنکل دھاندلی نے ثابت کردیا ہے کہ یہ حکمران مزید سو سال ہم پر بادشاہت کے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں ، آپ واقع ہی محب الوطن قوم ، احتساب اور تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ملکی نظام کے کنویں نے کرپشن کے غلیظ کتے کو باہرنکال کر بلا امتیاز احتساب کرو، ورنہ وہی مریم نواز شریف ، حمزہ شہباز ، بلاول بھٹو ہمیں اس طرح لٹتے اور پھٹتے رہیں گے۔