آو تبدیل ہو جائیں کہ تبدیلی کو موسم آ گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ستر سالہ عرصہ میں وطن عزیز کو مفادات کی دیمک نے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ہمارے بزرگوں نے جیسے تیسے کرکے اپنے ادوار میںغلامی کے عفریت کا مقابلہ کیا اب ذمہ داریاں ہمارے ناتواں کندھوں پر آچکی ہیں اس دھرتی پر اس وقت تیسری نسل جوان ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ ہم پر کوئی ٹیکنالوجی ،کوئی ڈگری، کوئی نصاب کسی کا بھی کچھ اثر نہیںہورہا۔ہم اپنی سوچ کے محدوددائرے میں رہ کر چند خاندانوں کی غلامی میں عافیت تلاش کررہے ہیں یہ وہ خاندان ہیں جن کے نزدیک انسانیت یا انسانی اقدار کی کچھ ویلیو نہیں رہی انہیں اپنے اقتدار کے سوا کچھ عزیز نہیں ۔انہیں اقتدار چاہئے خواہ وہ کسی طریقہ سے بھی حاصل ہو ۔ہم جنہیں اپنا رہنما رہبر سمجھتے ہیں وہ درحقیقت مسیحائوں کا بہروپ دھارے ایسے رہزن ،لٹیرے اور ڈاکوہیں جو موقع ملنے پر شکار کے کپڑے بھی اتار لیتے ہیںاور جاتے ہوئے اسی کے آزار بند سے باندھ کر ویرانے میں پھینک جاتے ہیں۔ آج جنہیں ہم لیڈر سمجھتے ہیں ان کے کرتوتوں پر جہالت کی عینک اتار کر اک نظر ڈالی جائے تو کیا ہمیں یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ حقیقی طور پر لیڈر ایسے نہیں ہوا کرتے مگر ہم اس قدر ذلالت اور گمراہی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں کہ بے بسی جیسے عالم سے اب ہم باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے یہ تک کہ دیتے ہیں کیا ہوا۔
” کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے!۔تف ہے ہماری عقل مندی ، ہماری سیانف اور ہماری قابلیت پر ۔ہمارے نام نہاد لیڈر خود کو بلند پایہ مخلوق تصور کرتے ہیں جن کے نزدیک ہمارا درجہ نالی کے گندے کیڑے سے بھی زیادہ کا شاید نہ ہو لیکن ہم انہیں ہی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ان کے اولادوں کے گن گاتے ہیں انہیں ذرا سی تکلیف پہنچے تو ہمیں گھربیٹھے اپنے والدین، بہن بھائیوں یا معاشرے کے دیگر مصیبت زدوں کی تکالیف بھول جاتی ہیں مگر دل لیڈروں کی تکالیف پر خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ہم اپنے پرلے درجے کے کرپٹ لیڈروں کے قانون کی پکڑ میں آنے پر قوانین کے نفاذ کرنے والے اداروں پر لعن طعن کرنے لگتے ہیں۔مقتدرشخصیات کی ثناء خوانی ہم نے اپنے اوپر فرض کرلی ہے اور دوسری جانب ہمارے لیڈر۔۔واللہ کیا کہنے۔۔۔! اقتدار کی ہوس میں اقدار کی پامالی جن کا وتیرہ ہے کوئی انوکھی ہی مخلوق۔قدم قدم پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی یہ چرب زبان اقتدار کی رسیا مخلوق جس وقت سیاسی دنگل میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہی ہوتی ہے اشرافیہ کے ایک ہی گروہ سے تعلق رکھنے والے طے شدہ حریف اور حلیف (فرضی فریقین) بن کر ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری کرتے ہیں اور ہم باہر بندر کا کھیل تماشہ دکھانے والے مداری کیساتھآئے اس جمورے جیسا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جس کا کام مداری کی ہرہاں میں ہاں ملانے سے سوا کا نہیں ہوسکتااور ہم میں سے اور بھی گھٹیادرجے کی جہالت کا مظاہرہ کرنے والے تو اس بندر جیسے ہوتے ہیں جس نے ڈنڈے سے ڈر کر اور اپنے پیٹ کی خاطر مداری کے کہنے پر ہر طرح کے فن کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے جو کبھی سسرال جاتا ہے تو کبھی منہ بسور کر مجمع پر غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ہمارے ان مداری معزز لیڈروں کے عزائم کیا ہیں؟ ان کی زبان اور ان کے کردار کا تضاد ان کی عملی زندگیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ،ان کے سبھی کرتوت عیاں ہیں۔
درویشانہ روپ اختیار کئے دھوکے فریب اور جھوٹ کی سیاست کو ختم کرکے نظام عدل لانے کے بلند وبانگ دعوے کرنے والے لیڈر توسب سے بڑے رنگ باز ثابت ہوئے ہیں جن کی رنگ بازیوں میں پھنسے عقیدت مند وں کی عقلوں پر بھی تالے پڑچکے ہیں۔یہ لیڈرجنہیں چور ڈاکو کہہ کران کی طرفداری کرنے پرہمیں جہنم رسید ہونے کی رسیدیں کاٹ کردیتے رہے ہر بار ذاتی مفادات کی خاطر انہی سے جا لپٹے اور اپنی محبت اور ہمدردیوں کی یقین دہانیاں کرواتے رہے۔ ”اس بار دیانتدار” کا جو نعرہ لگا یا تو آخر میں انہی سیاستدانوں کو جن کے بارے ہمیں رسہ گیر چور ڈکیت بدعنوان بتایا جاتا رہا انہیں گلے لگا لیا نتیجہ کیا نکلا کہ درویشوں کے نزدیک ان کی زبانی جنہیں چور ڈکیت ٹھہرایا جاتا تھا انہیں اب کی بار دیانتداری کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔اور ہم ۔۔۔ ہماری کیا ہی بات ہے کہ اپنے لیڈروں کی پارسائی کے دعووں میں ایک دوسرے کو کافر بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔اس عہد میں جبکہ ہم خود کو بڑے تیس مار خاں سمجھتے ہیں ہم سمجھتے ہیںپرانے وقتوں کے لوگ جو بادشاہوں ، جابروں کے زیر تسلط زندگیاںگزارہ کرتے تھے ان کی حالت بڑی قابل رحم تھی صرف اس وجہ سے کہ انہیں اپنے حقوق کی پہچان نہیں تھی وہ بادشاہوں ، جابروں کے احکامات کی پیروی میں جانوروںجیسی زندگیاں گزارہ کرتے تھے وہ جانورجن کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی جو بس حکم کے غلام ہوتے ہیں اور تابع فرمانی ہی ان کی کل زندگی کا روح رواں ہے ۔ان سب کے باوجود پرانے وقتوں کے لوگ ہم سے ہزار درجہ بہتر تھے کہ وہ اسیری /غلامی کے عالم میں ہونے کی وجہ سے مجبور اور بے بس تھے۔
آج ہم ہیں کہ ہمیں آزادی میسر ہے، اپنے تئیںذاتی حقوق کی مکمل پہچان ہے مگر اپنے حقوق اور سب کچھ ہم نے نام نہاد جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی جھولیوں میں ڈال دیئے بلکہ ان پر وار دیئے ہیں ہم اپنی نسلوں کو اپنی اولادوں کو ان خاندانوں کی نسلوں اور اولادوں کا جمہوریت کے نام پر غلام بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم پر کوئی ڈگری کوئی نصاب ،تعلیم وتربیت حتی کہ ٹیکنالوجی کی جدت کا بھی کچھ اثر نہیں ہورہا میں سوچتا ہوں کہ جتنا وقت پاکستانیوں کواپنا آپ سنوارنے کو ملاہے جنگل کے بندروں کو دوسری مخلوقات سے بغیر خوف اور آزادی کے ملتا وہ اپنا آپ تبدیل کرلیتے ،شایدوہ اپنالائف اسٹائل ہم پاکستانیوں سے بھی بہتر بنالیتے وہ اپنے حقوق کیلئے کھڑے ہوتے تو کسی شیر کسی لگڑ بگڑ ،کسی کتے ، لومڑ جیسے درندوں سے نہ ڈرتے انہیں اپنا بادشاہ نہ مانتے کسی کی بے جا خوشامداور چاپلوسیاں نہ کرتے وہ یہی کہتے کہ ہم بھی اللہ کی مخلوق ہیں کیا ہوا کہ تمہارے پاس طاقت ہے وسائل ہیں تو زندہ رہنے کا ہمیں بھی حق ہے ۔ مگر کیا ہے کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں اور پھر پاکستانی اشرف المخلوقات جن میں سے کسی کامردہ ابھی زندہ ہے تو کوئی ہیرپھیر کیلئے اک واری فیر کے نعرے لگاتا ہے ان نعروں کے پیچھے نعرے لگانے والوں کو صرف ایک نشست کا کھانا اور چند ٹکوں کے سوا کچھ میسر نہیں آتا مضر صحت پانی بھی کئی مرتبہ قریبی نل سے خود جا کر منہ لگا کر پینا پڑتا ہے جبکہ نعرے مار ٹیم کو نعروں پر اکسانے والے پالتو ایجنٹ اس کے علاوہ دیگر مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ضرور رہتے ہیں جو لیڈروں کی نمک حلالی کے عوض اپنی اولادوں کے بحثیت جثہ روزگار حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ا س کیساتھ مختلف ترقیاتی منصوبوں میں اپنے ٹھیکیدار کھڑے کرکے لیڈروں کا اور اپنا حصہ کھرا کرلیتے ہیں، مختلف اداروں کو ذمہ داروں کو بلیک میل کرتے اور اپنے جائز ناجائز دھندوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔
یہی وہ امور ہیں جو اقتدار کیساتھ منسلک ہیں( ورنہ ملک میں کہاں آج تک انقلاب برپا ہوا ہے صحت، تعلیم ، انصاف ہر جگہ بربادیوں کے قصے ہیں)ایک چین بنی ہوئی ہے جس کی ہرپانچ سال بعد عوام کی ایک پرچی سے تجدید ہوتی ہے عوام کی پرچی سے بات آگے نکلتی ہے تو ہمارے یہ نام نہاد خادم اپنے اپنے مفادات کے مطابق وزارتوں اور سیٹوں کی بندر بانٹ میں مگن ہوجاتے ہیں کھلے عام جوڑتوڑ ہوتے ہیں کل تک ایک دوسرے کے دشمن ظاہر ہونے والے اب ایک دوسرے کے سسر داماد، سالے بہنوئی جیسے مقدس رشتوں کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔اقتدار، اقتدار اور فقط اقتدار ۔۔۔اور اس اقتدار کے پیچھے لوٹ مار یہی ہمارے لیڈروں کی منشاء ہے اسی کا نام ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور اس جمہوریت کو بچانے کیلئے اقتدار کا ہونا ضروری ہے اقتدار نہ ہو تو پھر ہر ایرا غیر ملکی قوانین کا سہارا لیکر یا تو اپنا حصہ طلب کرتا ہے یا پھر انصاف قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جیلوں میں بند کرنے کی بات کرتا ہے۔ جیلوںمیں بند ہونے سے بچنے کیلئے شوروغوغا سے کام لیا جاتا ہے پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے دھمکیاں دی جاتی ہیں اپنے مقدس اداروںپر حملوں کی اوریہ کس زعم میں ۔۔۔ ہم جیسی بھیڑ بکریوں ،عقل کے اندھوں کو اپنے لئے استعمال کرنے کے زعم میں۔۔۔( اس طرح کے دعوے کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وقت کے فرعونوں، نمرودسب کا انجام ہمارے سامنے ہے کہ جب قدرت کی مار پڑتی ہے تو اقتدار، طاقت، عیش و عشرت، حاکمیت اور فرعونیت کاسہ گدائی میں بدل جاتی ہے ۔ وطن عزیز میں بھی عدالتوںکے بہترین فیصلوں پر مجرم ثابت ہونے والوں کے پیچھے اپنا وقت ضائع نہ کریں انہیں سکون سے سزا پوری کرنے دی جائے)عرصہ سے بس یہی جمہوریت ہم نے دیکھی ہے راقم کی توکل عمرایک دو پارٹیوں کے اقتدار پر محیط ہے ۔جنہیں ہم نے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اورآخر اپنے عزائم پیچھے ایک دوسرے کو کٹ کٹ جپھیاں ڈالتے ہی دیکھا ہے۔ ایسے میںعمران خان کا اس سیاست میں وارد ہونا قوم کی بربادی کے موجدوں تاحیات لیڈروں کو کھٹک رہا تھا جیسے تیسے کرکے ، ملک میں رائج نظام سیاست کو مائینر حد تک اپنا کر اس نے جو کامیابی حاصل کرہی لی ہے تو ہمیں اسے بھی آزما لینا چاہئے ۔اگر تاحیات لیڈر اس ملک اور قوم کیساتھ مخلص ہیں تو وہ بھی یہ پانچ سال واقعی خدمت کیلئے وقف کر دیں۔
مگر وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ جسے اقتدار اور حرام کی لت لگ جاتی ہے وہ دوسرے کو اور اچھے کاموں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اور ہم عوام جو ادھر ادھر دیکھ رہے ہیںکہ شاید کہیں سے کوئی پراسرارطاقت نازل ہوگی حالات کا دھارا یکسر بدلتے ہوئے یہاں بسنے والے افراد کی تقدیر بدل دے گی ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔اب بس یہ کریںکہ جسے ہم نے جمہوریت کے طریقہ کار کے مطابق کثرت رائے سے منتخب کر لیا ہے اس پر اعتماد کر دیکھا جائے اسے کام کا موقع دیا جائے۔ جو کہتے ہیں کہ عمران خان میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ تو ایک فرق میں بھی بتا دوں کہ عمران خان کی نسل اس کے پیچھے اقتدار کی باریوں کی منتظر نہیںآرہی کہ جن کی غلامی ہمیں اپنے اوپر فرض کرنا پڑے گی۔ اس لئے آئو اس عہد میں اپنے اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کریں ۔ ذاتی مفادات کو نظر انداز کرکے اپنی بساط سے بڑھ کر ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ذمہ داریاں نبھائی جائیںتو یہی اصل تبدیلی ہے جو ہم سے ہے اور یہ تبدیلی پانچ سا ل سے بھی کم عرصہ میں ہمیں اس وطن کو ہدف سے آگے پہنچا دے گی۔اس لئے آئو سیاستدانوں سمیت ہم سب تبدیل ہوجائیں کہ تبدیلی کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔