اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر اعظم نواز شریف کے سابق معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ طارق فاطمی نے ایک موقر انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں مبینہ طور پر قومی سلامتی کے منافی شائع ہونے والی خبر سے متعلق خود پر لگنے والے تمام الزامات مسترد کر دیئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک ’نوٹیفیکیشن‘ کے مطابق طارق فاطمی کو عہدے ہٹا دیا گیا جب کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن افسر راؤ تحسین کے خلاف مروجہ محکمانہ قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا گیا۔
تاہم اس ’نوٹیفیکیشن‘ میں طارق فاطمی یا راؤ تحیسن پر الزامات سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔
منگل کو منظر عام پر آنے والے اپنے الواعی خط میں طارق فاطمی نے خود پر لگنے والے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اُنھیں مسترد کر دیا گیا۔
اُنھوں نے خط میں کہا کہ وہ پانچ دہائیوں سے پاکستان کی ’’خدمت‘‘ کرتے رہے ہیں اور اُن کے لیے ایسے ’’الزامات تکلیف کا باعث ہیں۔‘‘
’’میں حالیہ الزامات کو رد کرتا ہوں‘‘
طارق فاطمی تقریباً چار سال وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ رہے اور اس دوران وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کے اہم اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ بیرون ملک بھی اہم اجلاسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔
وہ 2004 میں وزارت خارجہ سے ریٹائرڈ ہوئے تھے، جس کے بعد وہ مسلم لیگ (ن) سے وابستہ رہے۔
طارق فاطمی نے کہا کہ اپنے کیرئیر کے دوران اُنھیں قومی سلامتی سے متعلق حساس و خفیہ معلومات سے آگاہی بھی ہوئی، لیکن اُن کے بقول ہمیشہ اُن کی صلاحتیوں پر اعتماد کیا گیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2016 میں اخبار ڈان میں خبر شائع ہوئی تھی کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں سیاسی قیادت نے عسکری قیادت پر زور دیا کہ ملک میں غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے بصورت دیگر پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومت اور فوج دونوں ہی طرف سے اس خبر کی تردید کی گئی تھی تاہم اخبار ڈان کا اصرار تھا کہ اس نے حقائق کی جانچ کے بعد ہی یہ خبر شائع کی تھی۔
اسی تناظر میں وزیر اطلاعات پرویز رشید سے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان بھی واپس لے لیا گیا تھا، جس کی ابتدائی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ انھوں نے یہ مبینہ غلط خبر رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔
بعد ازاں حکومت نے سابق جج عامر رضا خان کی سربراہی میں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو کے ایک، ایک رکن کے علاوہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کے محتسب اعلیٰ بھی شامل تھے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ گزشتہ ہفتے ہی وزیراعظم کو پیش کی گئی جس کے بعد حکومت کی طرف سے 29 اپریل کو جو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا، پاکستانی فوج نے اُسے مسترد کر دیا۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے جاری بیان میں وزیراعظم کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ نامکمل اور تحقیقاتی بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر فوج کے ترجمان کی طرف سے جاری اس بیان کے بعد ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فوج کے ترجمان کے بیان سے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت میں اس معاملے پر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
فوج کے ردعمل کے بعد اگرچہ وزیراعظم نواز شریف کی قریبی ساتھیوں سے مشاورت بھی ہوئی لیکن باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
البتہ میجر جنرل آصف غفور کی ’ٹویٹ‘ کے فوراً بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے یہ ضرور کہا تھا کہ سماجی میڈیا کے ذریعے ملکی معاملات کو ’’ہینڈل‘‘ کرنا افسوسناک ہے۔
چوہدری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ڈان لیکس‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد حتمی نوٹیفیکیشن وزارت داخلہ نے جاری کرنا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری نوٹیفیکیشن میں ڈان اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس اور قومی سلامتی سے متعلق خبر دینے والے صحافی سرل المائڈہ کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی ’اے پی این ایس‘ کو بھیجتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اس بارے میں اپنا کردار ادا کرے جب کہ ’اے پی این ایس‘ سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ پرنٹ میڈیا سے متعلق ضابطہ اخلاق بھی وضع کرے۔