تحریر: محمد شعیب تنولی وہ مصر کا ایک امیر بزنس مین تھا ابھی اس کی عمر صرف پچاس سال کے لگ بھگ تھی کہ ایک دن اس کو دل میں تکلیف کا احساس ہوا، اور جب اس نے قاہرہ کے سب سے بڑے ہسپتال میں اپنا علاج کرایا تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اسے یورپ جانے کا مشورہ دیا، یورپ میں تمام ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد وہاں کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ تم صرف چند دن کے مہمان ہو، کیونکہ تمھارا دل کام کرنا چھوڑ رہا ہے۔
وہ شخص بائی پاس کروا کر مصر واپس آگیا اور اپنی زندگی کے باقی دن گن گن کر گزارنے لگا۔ ایک دن وہ ایک دکان سے گوشت خرید رہا تها جب اس نے دیکھا کہ ایک عورت قصائی کے پھينکے ہوئے چربی کے ٹکڑوں کو جمع کر رہی ہے۔ اُس شخص نے عورت سے پوچھا تم اسے کیوں جمع کر رہی ہو؟ عورت نے جواب دیا کہ گھر میں بچے گوشت کھانے کی ضد کر رہے تھے، چونکہ میرا شوہر مر چکا ہے اور کمانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے اس لیے میں نے بچوں کی ضد کی بدولت مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا ہے، اس پھینکی ہوئی چربی کے ساتھ تھوڑا بہت گوشت بھی آجاتا ہے جسے صاف کر کے پکا لوں گی۔
بزنس مین کی انکھوں میں آنسو آگئے اس نے سوچا میری اتنی دولت کا مجھے کیا فائدہ میں تو اب بس چند دن کا مہمان ہوں، میری دولت کسی غریب کے کام آجائے اس سے اچھا اور کیا۔ اس نے اسی وقت اس عورت کو کافی سارا گوشت خرید کر دیا اور قصائی سے کہا اس عورت کو پہچان لو، یہ جب بھی آئے اور جتنا بھی گوشت مانگے اسے دے دینا اور پیسے مجھ سے لے لینا۔ اس واقعے کے بعد وہ شخص اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوگیا، کچھ دن اسے دل میں کسی تکلیف کا احساس نہ ہوا، تو اس نے قاہرہ میں موجود لیبارٹری میں دوبارہ ٹیسٹ کرائے، ڈاکٹروں نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق آپ کے دل میں کوئی مسئلہ نہیں لگ رہا۔ لیکن تسلی کیلئے آپ دوبارہ یورپ میں چیک اپ کروا آئیں۔
Test
وہ شخص دوبارہ یورپ گیا اور وہاں ٹیسٹ کرائے، رپورٹس کے مطابق اس کے دل میں کوئی خرابی سرے سے تھی ہی نہیں، ڈاکٹر حیران رہ گئے اور اس سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیا کھایا کہ آپ کی بیماری جڑ سے ختم ہوگئی۔ اُسے وہ گوشت والی بیوہ یاد آئی اور اس نے مسکرا کر کہا، علاج وہاں سے ہوا جس پر تم یقین نہیں کر سکو گے۔، بے شک میرے نبی کریم ﷺ کا فرمان سچ ہے کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔ بے شک پیارے دوستوں صدقہ مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے ۔ اس لئے اپنے اردگرد نظر رکھا کریں اور کوئی غریب نظر آئے تو اس کی وقتاً فوقتاً مدد کرتے رہا کریں۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے۔
جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کریگا۔”(صحیح مسلم ) اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: تم کو اللہ تعالیٰ کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔”(صحیح البخاری) اسی طرح فرمانِ مصطفی ﷺ ہے:۔ اپنے مالوں کو زکوۃ دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو (یعنی چوری سے بچالو) اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو۔”( ابو داؤ شریف) اپنے مال کی زکوۃ جو فرض ہے وہ بھی پوری پوری ادا کیا کریں۔ ان شاء اللہ اس سے آپ کا مال بھی محفوظ ہوجائے گا۔ اور بلائیں بھی ٹل جائیں گی۔
Muhammad PBUH
تاجدار رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم فرماتے ہیں:”خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوتا ہے ۔” (مجمع الزوائد) ”زکوۃ نہ دینے والے پر رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ۔” (صیحح ابن خزیمہ) یہ بھی ذہن میں رہے کہ زکوٰۃ و صدقات دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : “ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں،ہربال میں سودانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،پھر دیئے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا انعام ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔(پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲) تو زکوٰۃ دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکوٰۃ دینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا۔
نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:”صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔”(المعجم الاوسط ) اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے۔ اللہ تعالی ہمارے اندر غریبوں کی مدد کا جذبہ پیدا کردے۔ آمین