تحریر: شاہ بانو میر گزشتہ ہفتے بین القوامی شہرت یافتہ مذہبی حوالے سے معتبر نام محترمہ عفت مقبول صاحبہ کی پیرس آمد اور ان کے ہمراہ دوسرے شہروں میں جانے اور ان کے لیکچرز کو ٹائپ کرنے کا قیمتی موقعہ ملا ان کے ساتھ کئی شہروں میں سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی استاد کے ساتھ سفر کا کیا لطف کیا لذت ہے یہ اس بار پتہ چلا ریاکاری کے موضوع پر “” فرانس کے حسین شہر “”مونتلاژولی”” میں دیے گئے لیکچر کا کچھ حصہ آپ سب کیلئے اسلام کا حکم ہے کہ بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جاؤ۔
اسلام کے احکامات جوں جوں گناہوں میں لتھڑے ہوئے حسد و فریب سے بھرے دلوں تک پہنچے تو جن کو اللہ رب العزت نے اپنے لئے چن لیا تھا ان کے دلوں میں یہ پیغام اترتے ہی ان کے اترتے ہی ان کے گناہ گار دلوں کو قلبٍ اثیم (گناہ گار دل ) دھلنے لگے روشنی اور نور جیسے علم کی صورت ان کو نکھارنے لگا اور تعلیمات اسلامی سے سنور کر پاک صاف ہوگئے اور قلبٍ سلیم ( پاک صاف دل) بنتے چلے گئے ایسے دکھاوے کے ریاکاری کے عہد میں صبر جمیل رکھنے والی شخصیت وہاں تشریف لاتی ہے تب ان کی تعلیمات اور رہن سہن سے یہ جاہل چونکتے ہیں جو اپنی ہر خوشی ہر خواہش کو چوک میں نمایاں کر کے فریب زدہ دھوکہ والی کامیابی کی زندگی گزار رہے تھے۔
انہیں آپً کا صبر خاموشی اور استقامت سادگی نے پہلی بار سمجھایا کہ زندگی ہر وقت کی ہلچل اور شور شرابہ نہیں ہے یہ تو ناکام لوگوں کا وطیرہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں روا رکھا گیا تھا ظاہری طور پے عمل کچھ اور دکھایا تو یاد رکھو کہ اللہ پاک وہ سب جانتا ہے جو تم کرتے ہو ظاہری بھی اور باطنی بھی اس لئے ریاکاری غرور کے سبب ذات میں مسلسل ہوتی ناکامی جو غصہ لے آتی ہے ان بیماریوں سے خود کو بچاؤ اللہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو مگر اس سوچ کے ساتھ نہیں کہ میں لوگوں کی نگاہ میں بہت نیکو کار ہوجاؤں اور ایسے سوچا تو جان لو کہ اللہ کا عذاب بڑا دردناک اور سخت ہے۔ اپنی عبادتوں میں دکھاوا نہ کرو اپنے اعمال کی نمائش مت کرو۔
سادگی کو اپنا کر اللہ کے نبی کی سنت کو زندہ رکھو صدقات و خیرات کو سرعام دے کر اپنی نیکیوں کی نمائش کرنے والے جان لیں کہ ان صدقات خیرات کا کوئی فائدہ نہیں جو رب کی رضا کیلئے نہیں بلکہ دنیا داری کیلئے تشہیر کر کے دیئے جائیں دکھا کر صدقہ خیرات دینے سے منع نہیں کیا گیا لیکن چھپا کر دینے والے کے عمل کو قرآن پاک سورۃ البقرہ پارہ تین میں احسن کہا گیا ہے حکم ہے کہ دکھاوا نہ کرو اور ان لوگوں کو ان کے چہروں سے پہچان کر صدقات اور خیرات دو جو اللہ کے راستے میں ہیں اور سفر نہیں کر سکتے نادان انہیں ان کی خود داری کی وجہ سے “”غنی “” سمجھ رہے ہیں کیونکہ وہ لپٹ لپٹ کر نہیں مانگتے (یعنی اصرار نہیں کرتے ) تم انہیں ان کے چہروں سے پہچانو ایسے لوگ صدقات اور خیرات کے اصل مستحق ہیں۔
Quran
صدقات اور خیرات کو تشہیر بنانا اور اس سے دنیاوی مقاصد حاصل کرنا یا اس نیک عمل میں کوئی ریاکاری سوچ میں ہو تو جان لیجئے کہ وہ اللہ آپ کی نیت کے اخلاص کو تقویٰ کو آپ کے صبر کو جانچتا ہے ریاکاری پر مبنی نیک عمل تشہیر کا خواہشمند ہوتا ہے اور تشہیر سے نفس عمارہ موٹا ہوتا ہے اور مزید شیطانی سوچوں سے انسان خود کو جہنم کے قریب لے جاتا ہے شیطان ایسے کمزور نفس انسان کو سمجھاتا ہے کہ جاری رکھو یی ریاکاری ورنہ ان دوستوں سے محروم ہو جاؤ گے اور تنگدستی کا شکار ہو کر پریشان ہوگے۔
یہی وہ سوچ ہے جو انسان کو کمزور کر کے مکروہ افعال پے آمادہ کرتی ہے اور وہ جہنم کا ایندھن بننے کا خود ہی سبب پیدا کرتا ہےدوسری طرف اللہ پاک نفسَ مطمئنہ کے ذریعے انسان کو مسلسل اس سوچ سے آگاہ کرتے ہیں کہ میں بخشنے والا غفورو رحیم ہوں پس سیدھے راستے پر قائم رہو جو جنت کا راستہ ہے سوچئے آج ہم سب کس قدر غلطیوں کا شکار ہیں اس مصنوعی وقتی پپرفریب دنیا میں ہمارا قیام اور کتنی دیر ہے؟ آج سے نیے کیجئے کہ جو بھی راہَ خُدا میں دینا اس کا اجر صرف روزٍ آخرت اپنے عظیم رب سے لینا ہے۔
اپنے عمل کی نمائش کر کے اس دنیا سے شاباش لے کر یہیں اجر کو ختم نہیں کرنا اس دن کیلئے اکٹھی کریں نیکیاں جس دن کوئی نفس کسی کے کام نہ آئے گا نہ کسی کا بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ کسی کی سفارش قبول کی جائے گی ریاکاری دکھاوا اور تکبرسے بچیں تا کہ یہ آپکو مزید غلطیوں پر نہ اکسائے واخرالدعواناٰ ان ٍالحمدُ لٍلہ رب العالمین۔