انسان کہلانے کی سب سے بڑی دلیل یہ سمجھی جاتی ہے کہ اسکا دل انسان دوستی کے بلند ترین جذبات سے سر شارہواور اسکے یہی جذبات اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک دلیل کی حیثیت رکھتے ہیںکہ وہ قوم دنیا کی قیادت کا حق رکھتی ہے یا نہیں در حقیقت افراد اور قوموں کے مابین بر تری اور فضیلت کا فیصلہ بھی انہی آثار کے مطابق ہوتا ہے جو اس میدان میں خود کو ثابت کرتے یا کرواتے ہیں۔
آج میں ایک ایسا ہی واقع جو میرے اپنے 10محرم کی شام ایک جلوس کی کوریج کے دوران پیش آیا ، شام 5سے 6بجے کا درمیانہ وقت تھا کہ میں ایک دوست اور ساتھی کو کچھ سمجھا رہا تھا کہ اچانک ایک خاتون جن کی عمر لگ بگ 50سے 60سال کے درمیان ہوگی ، سفید لباس اور سر پر دوپٹہ اورہاتھ میں ایک سفید شاپر ، چہرہ پر امیداور نہایت سکون دے ، میرے قریب آکر “بیٹا جی “مجھے 50روپے کی ضرورت ہے ، کیا آپ میری مدد کردینگے ، میں نے کہا “جی”بلکل ، میں نے جیب میںہاتھ ڈالا تو 50کی جگہ 100نکل آئیں۔
خاتون نے دیکھ کر فوراً کہا ، بیٹا مجھے صرف 50کی ضرورت ہے “میں نے کہا میرے پاس کھلے نہیں ہیں ، انہوںنے کہا کھلے کتنے ہیں ، میںنے عرض کی “اماں جی 10روپے ، انہوںنے بس وہی دے دوں ۔میںنے فورا ً 10روپے انکے ہاتھ میں رکھ دیئے “ایسا معلوم ہوا کہ خاتون کے دل اور جسم روح لوٹ آئی ہو، منہ پر انتہائی سادہ مسکراہٹ اور میری جانب دیکھ کر مسکرا دیںہاتھ سر پررکھ دیا ، ، اتنی دعائیں دینا شروع کی کہ جیسے میںنے ایک پل میںاپنی مکمل زندگی جی لی ہو ، اوراچانک وہ خاتون دعائیں دیتی ہوئی میری آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہوگئیں ، ایک پل بعد جب میںنے پیچھے موڑ کر دیکھا تو اما جی نظرنہیں آئی اور اس طرح میں بھی دوسر ے کاموںمیںمصروف ہوگیا۔
مگر کچھ دیر بعد میرا گزر ایک مقام سے ہورہا تھا تو میں انتہائی آہستہ انداز میں گاڑی چلاتے ہوئے ایک گلی سے نکل ہی رہاتھا کہ ایک تیز رفتا ر موٹر سائیکل اچانک میری گاڑی کے سامنے آگئی اور دو موٹر سائیکل کی ٹکر اتنی شدت والی تھی کہ میری گاڑی کا اگلا حصہ مکمل طور پر متاثر ہوچکا تھا اورسامنے موٹر سائیکل والے جنہوںنے گاڑی ٹکرائی تھی دونوں لڑکے بری طرح گاڑی سمیت گرگئے مگر میںاور میرا ساتھی دوست مکمل محفوظ رہے ، “نہ گرے اورنہ گاڑی سے اترے ، میرے دماغ میں اچانک وہی خاتون آگئی جن کی بدولت ان ہی کی خصوصی دعائیں فوری میری کام آگئی اور آج میں یہ واقع آپ کو بتا رہا ہوں ،کوشش کیاکریں کوئی بھی مانگنے والا سامنے آجائے ،کچھ نہ کچھ ضرودیں دیا کریں ۔ ہوسکتا ہے کوئی زیادہ مجبورہو یا مجبور کے بھیس میں اﷲ کا ولی ہوکیونکہ ہم نہیں جانتے اور نہ پہنچان پاتے ہیں فوراً منع کردیتے ہیں جوکہ غلط طریقہ ہے کیونکہ و ہ کون ہے یہ اﷲ بہتر جانتا ہے۔
آپ ۖنے فرمایا :صدقہ وخیرات کرنے سے آنے والی بلائیں اور مصیبتیں رک جاتی ہیں لہذا صدقہ وخیرات میں جلدی کرو۔2۔۔ انسانوں سے پیار ومحبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتاہے لیکن دین اسلام نے خدمت انسانیت کوبہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے ۔اﷲ تعالی نے انسانوں کو یکساں صلا حیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ ان کے درمیان فرق وتفاوت رکھا ہے اور یہی فرق وتفاوت اس کائنات میں رنگ وبو حسن وجمال ہے۔
وہ رب چاہتاتو ہر ایک کو خوبصورت ، مال دار اور صحت یاب پیدا کردیتا لیکن یہ یک رنگی تواس کی شان خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیاہے ، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ۔ اس رب العزت نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے ۔ وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معاشرے کے ضرورت مند اورمستحق افراد کی مدد کریں اورضرورت مندوں کے کام آئیں ۔جن کو اﷲ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اﷲ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو۔ارشاد نبوی ۖ ہے !زندگ اور تندرستی کی حالت میں ایک درہم خیرات کرنا موت کے وقت 100 درہم خیرات کرنے سے بہتر ہے۔