جاوید نشئی سے میری پہلی ملاقات اسلام آباد میرے مرشد خانے شہنشاہِ بحرو بر یا لطیف المعروف امام بری کے مزار پر انوار پر ہوئی ‘ میری روحانی زندگی کے ابتدائی ایام تھے جب شہنشاہ عبدالطیف کاظمی مشہدی کے دربار مبارک پر جانا شروع ہوا تھا وہاں عرس مبارک کے ایام میری زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں جب آپ کے عرس مبارک پر وطن عزیز کے چپے چپے سے آپ سرکار کے عقیدت مند آپ کو خراج عقیدت سلام کر نے حاضر ہو تے تھے ‘ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے آپ کے دیوانے آپ کے عرس مبارک پر حاضری دینا سعادت اولین سمجھتے تھے ‘مزار شریف کے دائیں طرف سائیں صدیق کے ڈیرے پر ہم دیوانے بھی جمع ہو تے تھے پاکستان بھر سے دیوانے مختلف گروپوں کی شکل میں راشن پانی بکرے بیل گائیوں کے ساتھ عرس مبارک پر آکر تندور لگاکر مختلف قسم کے مزے دار لنگر شریف بناتے ۔دن رات اُن ڈیروں پر میاں محمد بخش کا پر سوز روح پرور کلام پڑھا جاتا جس ڈیر ے پر لنگر تیار ہو تا تو زائرین کو بلا بلا کر لنگر کھلایا جاتا یہ عرس مبارک کئی دن جاری رہتا اولیاء کرام کے دیوانے کو چہ تصوف کے متلاشیان حق یہاں پر دن رات گزارکر امام بری شہنشاہ کے ساتھ موجود زندہ اولیاء کرام کی ایمان پرور کیف انگیز محفلوں سے لطف اٹھا کر اپنی بے رنگ اندھی روحوں کو نور ِ حق سے چمکاتے۔
وہاں پر شہنشاہ امام بری سرکار کے دیوانوں کے چرچے عام ہو تے تھے کہ کون کن فیکون کے مقام پر ہے کون سیف زبان کا مالک ہے کون روحانیت کے کس مقام پر فائز ہے کس کو حضوری کا مقام حاصل ہے کس کو چوبیس گھنٹے آقا کریم نبی رحمت ۖ کی کچہری میں حاضری کی سعادت حاصل ہے کیونکہ میں کو چہ فقر میں طالب علم نو وارد تھا اِس لیے تصوف راہ فقر کے پراسرار راز وکو جاننے کی کوشش کر تا کوئی طالب کن فیکون کے مقام پر کس طرح پہنچتا ہے کامل درویش باکمال فقیر کون ہے اِسی تلاش میں ایک دن جاوید سائیں عرف عام میں جاوید نشئی کاذکر ہوا تو میں بھی اشتیاق میںرہنے لگا کہ یہ کون درویش ہے جو نشہ کر تا ہے چرس کے سوٹے بھی لگاتا ہے لیکن اِس نشے کے باوجود روحانیت فقر کے اعلی مقام تک بھی رسائی پاچکا ہے کہ اُس کی زبان سے نکلے الفاظ بارگاہ الٰہی میں فوری قبولیت کا جامہ پہن لیتے ہیں تو وہاں پر ایک دن جب میں شہنشاہ کے دربار پر حاضری کے بعد ایک کونے میں بیٹھ کر سرکار کے مزار کے قرب کے نشے کو قطرہ قطرہ پی رہا تھا سرکار کے مزار پر انوار کا نشہ میری رگوں میں دوڑ رہا تھا میں دنیا جہاں سے آنے والے سرکار کے دیوانوں کا جوش خروش اور عقیدت کے لازوال مظاہرے دیکھ کر خاص قسم کا روحانی کیف سرور سرشاری محسوس کر رہا تھا کہ اچانک شور بلند ہواکہ ایک کمزور نحیف سے بوڑھے شخص کی اپنے مریدوں کے ساتھ آمد ہوئی۔
پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ سرکار کا خاص مرید دیوانہ جاوید چرسی ہے جن کو جاوید نشئی بھی کہاجاتا ہے میرے ساتھ سائیں سلطان صاحب تھے جو عرصہ دراز سے دربار پر حاضری دینے آتے تھے جاوید نشئی صاحب ادب سے قبر مبارک کے سامنے آنکھیں بند کر کے کھڑے ہوئے پھر کافی دیر بعد قبر شریف پر پھول چادر ڈالنے کے بعد چاروں طرف سے چوم کے باہر آکر بیٹھ گئے سائیں سلطان نے مجھے اشار ہ کیا ہم بھی جاکر اُس قطار میں لگ گئے جو دیوانے سائیں جاوید کو مصافحہ کر کے تھپکی لے رہے تھے سائیں جی نے انگلیوں میں بہت ساری انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں ہاتھوں کی انگلیوں ہاتھوں کی ساخت سے روحانیت ٹپک رہی تھی میں نے بھی اپنی باری پر مصافحہ کیاہاتھوں کو چوما تو میری رگوں میں کافوری لہریں دوڑنے لگیں سائیں جی نے تھپکی دی تو جسم میں کرنٹ سا دوڑا اور میں پیچھے آکر بیٹھ گیا جاوید سائیں کافی دیر مزار پر نظریں گاڑے بیٹھا رہا پھر اٹھ کر چلا گیا تو مجھے سائیں سلطان نے بتایا تم نے جاوید سائیں کو جوبن میں نہیں دیکھا جب یہ چرس کا نشہ کرتا تھا دنیا جہاں کے نشے کر نے کے بعد آخر کار چرس کے نشے پر لگ گیا یہاں مزار پر جب آتا تو اِس کے دونوں ہاتھوں میںانگلیوں میں چرس کے بھرے ہوئے سگریٹ ہو تے تھے جن کو یہ خوب پیتا جیسے ہی ایک سگریٹ ختم ہوتا یہ فوری دوسرا لگا لیتا امیر خاندان کا بیٹا تھا خود بھی پیتا دوستوں کو بھی چرس کی دعوت دیتا ۔
جب بھی آتا دوستوں یاروں کے ساتھ آتا پھر اچانک اِس نے ہر قسم کا نشہ چھوڑ دیا یہاں آتا قبر مبارک کی طرف ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا ہو جاتا لوگوں سے جب پوچھا تو پتہ چلا اِس نے ہر قسم کے نشے سے توبہ کر لی ہے پھر کچھ عرصے بعد اِس کے اردگرد دیوانوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا تو تجسس ہوا کہ یہ انقلاب کیسے آیا تو اِس کے دیوانوں میں سے ایک نے بتایا کہ سائیں جاوید کے بچپن سے درباروں پر جانے کا شوق تھا سیدوں کا غلام تھا اُن کی بہت قدر کرتا تھا ۔جس محلے میں رہتا تھا وہاں پر سید خاندان کے میاں بیوی اپنی سولہ سالہ بیٹی کے ساتھ رہتے تھے سائیں اُن کی بہت عزت کر تا وہ جب گزرتے ادب کھڑا ہو جاتا پھر شاہ صاحب کا انتقال ہو گیا تو اُن کی بیوی اور بیٹی اب اکیلے تھے جاوید سائیں ان کے بے پناہ ادب کر تا سید زادی ماں کی اپنی بیٹی کے علاوہ دنیا میں کوئی نہیں تھا اب انہوں نے محلے کی بچیوں کو قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا اِس طرح اہل محلہ کے تعاون سے زندگی کے دن پورے ہو نے لگے ایک دن محلے کے اوباش جوان نے جوان بیٹی کو چھیڑا’ آوازیں کسیں جب جاوید سائیں کو پتہ چلا تو اُس اوباش پر چڑھ دوڑا کہ میرے شاہ صاحب کی اولاد ہے تم کو جرات کیسے ہوئی غلط نظر سے دیکھنے کی تواُس نے طعنہ مارا تم نشئی تم کیا جانوں عزت کی باتیں تمہارے جیسے شرابی نشئی کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں تو اُسی وقت جاوید نے ہر قسم کے نشے سے توبہ کی اور محلے میں اعلان کیا۔
آج سے ماں جی میری ماں اور بیٹی بہن ہے کسی نے اِن کی طرف غلط نظر سے دیکھنے کی جرات کی تو اُس کی زندگی کی خیر نہیں ‘شروع میں تو کسی کو جاوید کی تو بہ پر یقین نہیں آیا لیکن جب کئی مہینے گزر گئے جاوید نے ہر قسم کے نشے سے توبہ کر لی اب زندگی کا مقصد تھا سید زادی کی عزت کی رکھوالی چار سال کا عرصہ اِسی طرح گزر گیا جاوید کے شب و روز سید زادیوں کی رکھوالی خدمت کر نا تھا کبھی بھی گھر کے اندر نہیں گیا بلکہ جب ماں بیٹی باہر نکلتی نظریں جھکائے ہاتھ باندھ غلاموں کی طرح کھڑا ہو جاتا چار سال بعد اپنی جائیداد بیچ کر بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کر دی ‘ سید زادیوں کے احترام میں توبہ کا رنگ باطن تک چڑھ گیا سچی تو بہ نے ظاہر باطن کے گناہوں کو دھو ڈالا خدا کو یہ نیکی اتنی پسند آئی کہ اپنے خاص بندوں میں شامل کیا اِس طرح جو مقام عبادت گزار چلوں وظیفوں عبادتوں سے نہ پاسکے ایک نشئی نشہ چھوڑ کو سید زادی کی غلامی اختیار کر کے پاگیا میری بعد میں بھی کئی بار جاوید سائیں سے ملاقات ہوتی ایک دن جب سائیں جاوید شہنشاہ بحر و بر یالطیف کے خوب نعرے لگا چکا تو میں قریب ہو گیا اور پیار سے ہاتھ پکڑ کر پوچھا سائیں جی سناہے چرس کا نشہ فقیری ہے آپ نے تو خوب کیا ہے چر س کے نشے کو فقیری نشہ کیوں کہا جاتا ہے اور آپ نے کتنے سالوں سے چرس کو چھوڑ دیا ہے تو چرس کی یاد نہیں آتی تو سائیں جاوید نے گہری نظروں سے میری آنکھوں میں دیکھا اور بو لا دیکھ یار سیدوں کی غلامی اور توبہ کا نشہ اِس قدر نشیلا تھا کہ مجھے توبہ کے بعد کبھی طلب ہی نہیں ہوئی پھر سرکار امام بری کی محبت نے مجھے اندر تک بھر دیا اب سرکار کی محبت ہی میرا نشہ ہے میںآج بھی جب کسی نشے باز کو دیکھتا ہوں جاوید سائیں یاد آجاتا ہے جس نے تو بہ کر کے بڑے بڑے عبادت گزاروں کو پیچھے چھوڑ کر کن فیکون کا مقام پا لیا تھا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org