تحریر : مہر بشارت صدیقی چارسدہ یونیورسٹی میں کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر 32 سالہ سید حامد حسین نے طالبان کے حملہ سے طلبا کو بچانے کی خاطر انتہائی بہادری کا ثبوت دیا۔ انہوں نے حملہ آوروں کو روکنے کیلئے ان پر فائرنگ بھی کی۔ انکے اس جراتمندانہ اقدام کو سراہتے ہوئے انہیں شہید، ہیرو اور جنٹلمین قرار دیا گیا ہے۔ جب دہشت گردوں نے حملہ کیا تو حامد حسین نے طلبا سے کہا کہ وہ اپنی کلاسز کے اندر ہی رہیں۔ طلبا نے بتایا ہے کہ جب حملہ آور کیمپس کے اندر داخل ہوئے تو کس طرح سے حامد حسین نے ان پر فائر کھولا اور طلبا کو وہاں سے بچ نکلنے کا موقع دیا۔ حملہ آوروں نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس سے انکا جسم کٹ کر نیچے گرا۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ 3 حملہ آوروں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر انکے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ کھڑکی سے چھلانگ لگا کر باہر کود گیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے سید حامد حسین کو فائرنگ کرتے دیکھا، اسکے بعد وہ رجسٹرار کے دفتر کی جانب دوڑے۔ جیالوجی کے ایک طالب علم ظہور نے بتایا کہ حامد حسین نے پستول اٹھا رکھا تھا اور اسے کہا کہ وہ عمارت سے باہر نہ نکلے۔ میں نے دیکھا کہ ان پر دو دہشت گرد فائرنگ کررہے تھے۔
سوشیالوجی کے طالب علم محمد داؤد نے کہا کہ حامد حسین ایک قابل احترام استاد اور حقیقی جنٹلمین اور ہیرو تھے۔ ٹوئیٹر پیغامات میں انکی شہادت پر افسوس ظاہر کیا گیا ہے۔ سید حامد حسین نے حال ہی میں برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی سے شعبہ کیمیا میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ باچا خان یونیورسٹی میں فرائض انجام دے رہے تھے۔ پروفیسر سید حامد حسین کا تعلق خیبر پی کے کے شہر صوابی سے تھا اور ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے شہر کے گورنمنٹ ہائی سکول سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے شعبہ کیمیا میں بیچلر اور ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ پروفیسر حامد حسین نے سوگواروں میں بیوہ، 3 سالہ بیٹا چھوڑا ہے اور 11ماہ کی بیٹی مریم حسین کے علاوہ دو بھائی سجاد حسین، اشفاق حسین، والدہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ پروفیسر حامد نے کچھ روز قبل ہی اپنے بیٹے حاشر حسین کی تیسری سالگرہ منائی تھی۔ چارسدہ میں دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے میں باچا خان یونیورسٹی کا اسسٹنٹ لائبریرین افتخار بھی شہید ہوگیا۔
افتخار کی 20 دن بعد شادی ہونے والی تھی، گھر والوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جس گھر میں شہنائیاں بجنی تھیں اْسے دہشت گردوں نے ماتم کدہ میں تبدیل کر دیا۔ اس کا غمزدہ بھائی افتخار کی شہادت پر نوحہ کناں رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ حکومت اسے دہشت گرد دکھا دے وہ خود بدلہ لے گا۔ اسسٹنٹ لائبریرین افتخار نے اپنی جان کا نذرانہ دیکر پیغام دیا ہے کہ دہشت گرد ہمارے بچوں کو علم کی پیاس بجھانے سے کسی صورت نہیں روک سکتے۔ 32 سالہ حامد حسین خیبر پی کے کے ضلعے صوابی کے رہنے والے تھے۔ پشاور یونیورسٹی کے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد وہ تین برس سے وہ باچا خان یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ حامد حسین کے بھائی اشفاق حسین نے بتایا کہ ان کے بھائی نے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے بہت محنت سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ تین بھائیوں میں حامد درمیان میں تھے انکے خاندان میں سب سے زیادہ تعلیم حامد نے ہی حاصل کی تھی۔
Charsada University Attack
حامد کے ایک بھائی صوابی میں دوکان چلاتے ہیں جبکہ دوسرے بھائی اشفاق سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ انکے بھائی اشفاق کا کہنا ہے کہ ‘حامد ہماری زندگی کا سرمایہ تھا۔ وہ اب نہیں رہا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ حامد حسین چارسدہ میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہی رہتے تھے ہفتے اور اتوار کو اپنے خاندان کے پاس صوابی آتے تھے۔ انکے بھائی کے بقول تحقیق کیلئے وہ ایک سال تک برطانیہ میں مقیم رہے لیکن ڈگری مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان میں رہ کر درس و تدریس کرنے کو ترجیح دی۔ یونیورسٹی کے طلبا حامد حسین کو ایک استاد سے زیادہ دوست سمجھتے تھے۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ اپنے ٹیچر کو ‘محافظ’ کے نام سے پکارتے تھے۔ جو ہر وقت ان کے مسائل کو سننے، حل کرنے اور مدد کے لیے موجود ہوتے تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں داخل ہوئے تو حامد نے اپنے پستول سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور ہاسٹل میں موجود دیگر طالب علموں کی حفاظت کی۔ حامد حسین کے بھائی کہتے ہیں کہ ان کے بھائی نڈر، بہادر اور بہت محب وطن تھے۔
ایک طالب علم ظہور احمد نے بتایا کہ فائرنگ کی آواز سننے کے بعد حامد حسین نے انھیں خبردار کیا کہ بلڈنگ سے باہر نہ جائیں۔ انھوں نے بتایا کہ ‘سر کے ہاتھ میں پستول تھی لیکن پھر انھیں گولی لگی اور وہ گر گئے۔ میں نے دیکھا کہ دو شدت پسند فائرنگ کر رہے تھے۔’ وہ دوسروں کے لئے محافظ کا کردار ادا کرنے والے شفیق استاد حامد دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بنے اور اپنے آخری سفر پر چلے گئے لیکن زندگی کے کٹھن سفر میں آن کے کم سن بچے اور ضعیف ماں تنہا اور اکیلے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ چارسدہ حملے میں ملوث دہشت گرد کہاں سے آئے اور انہیں کس نے پہنچایا، اس حوالے سے کافی معلومات حاصل کرلی ہیں، دہشتگرد افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے ، ان کی کالیں ٹریس کر لی گئی ہیں ، دہشت گردوں کے پاس افغان سمیں موجود تھیں، مرنے کے بعد بھی انہیں وہاں سے کالیں موصول ہورہی تھیں، بہت کم وقت میں بہت بریک تھرو ہو چکا، انٹیلی جنس آپریشن پہلے سے زیادہ شدت سے جاری رہیں گے۔
پشاور میں سانحہ باچا خان یونیورسٹی پر پریس بریفنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ 4 دہشت گردوں نے یونیورسٹی پر حملہ کیا جس پر یونیورسٹی کے اندر موجود سکیورٹی گارڈز کے 62 رکنی سٹاف اور پھر پولیس نے کوئیک رسپانس دیا جبکہ فوج نے 45 منٹ کے اندر وہاں پہنچ کر چاروں دہشت گردوں کو یونیورسٹی ہاسٹل کی چھت اور سیڑھیوں پر مار دیا۔ دہشت گرد ہینڈ گرنیڈ سمیت جدید اسلحے سے لیس تھے لیکن انہیں شروع میں ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ حملے میں 18 طلبہ اور 2 سٹاف ممبر شہید ہوئے جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے۔ تمام لوگوں کی ہمدردیاں شہدا کے ورثا کے ساتھ ہیں۔
Asim Bajwa
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دہشت گرد کہاں سے آئے ، انہیں کس نے پہنچایا، اس حوالے سے کافی معلومات حاصل کرلی ہیں، دہشت گرد حملے کے دوران موبائل فون کے ذریعے اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے ، ایک دہشت گرد کے مرنے کے بعد اس کے فون پر کالیں آرہی تھیں، دہشت گردوں سے 2 موبائل فون برآمد ہوئے جن کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا گیا ہے ، دہشت گردوں کے پاس افغان سمیں موجود تھیں، وہ کس کمپنی کی سمیں تھیں پھر بتائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے ، وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں اور افواج پاکستان شہریوں کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں کو شکست دیں گی، معاشرے نے دہشت گردوں کی منفی سوچ کو مسترد کردیا ہے لہذایہ اب گھبراہٹ میں معصوم لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہم حالت جنگ میں ہیں، آپریشن ضرب عضب جاری ہے اور اس کی کامیابیوں سے قوم آگاہ ہے ، دہشتگردوں کی زیادہ تر پناہ گاہیں ختم کی جا چکی ہیں، دہشت گردوں کے ہمدردوں کی موجودگی تک ایسے حملے روکنا ایک چیلنج ہے۔
ہم دہشت گردوں کو انکے انجام تک پہنچاکر دم لیں گے۔ فرانزک اور فنگر پرنٹس کی معلومات نادرا کو دی گئی ہیں اگر دہشت گردوں کو روکا نہ جاتا تو زیادہ نقصان ہوتا۔ پشاور کے گردونواح میں انٹیلی جنس کی بنیادوں پر آپریشن ہو رہے ہیں اور کئی سہولت کاروں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے ، انٹیلی جنس آپریشن پہلے سے زیادہ شدت سے جاری رہیں گے اور دہشت گردوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے اتفاق واضح کیا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ پوری قوت سے جاری رہے گی، فیصلہ کیا گیا کہ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں،دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کو بے رحم جواب دیا جائے گا۔ دہشتگردوں کی اس قسم کی بزدلانہ کارروائیاں دہشتگردی کیخلاف ہمارے عزم کومتزلزل نہیں کر سکتیں، دہشتگرد انسانیت اور تعلیم کے دشمن ہیں، دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے ،مکمل خاتمے تک دہشت گردوں کیخلاف جنگ جاری رہے گی۔ دہشتگردوں کے ہمدردوں ،سہولت کاروں اور معاونین کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائیگا۔