تحریر: ایم سرور صدیقی بھاٹی چوک کا ایک منظر۔۔۔ میاں شہباز شریف ایک بڑی ریلی سے خطاب کر رہے ہیں مسلم لیگی کارکن پرجوش اندا زمیں نعرے لگار ہے تھے مک گیا تیرا شو مداری گو زرداری، گو زرداری اس دوران میاں شہباز شریف نے زرداری کو بھاٹی چوک میں الٹا لٹکانے کا اعلان کر ڈالا اور جوش ِ خطابت میں ڈائس الٹا دیا ورکر وںنے نعرے لگا لگا کر آسمان سرپر اٹھا لیا۔
اب گڑھی خدا بخش کا ایک منظر۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقعہ پر ان کے دامادنے نام لئے بغیر میاں نواز شریف بارے کہا کچھ لوگوںنے جلاوطنی سے بھی کچھ نہیں سیکھا آمریت کے ساتھی جمہوریت کے لئے کچھ نہیں کرسکتے قربانیاں صرف بھٹو خاندان نے دی ہیں اسلام آباد میں قریباً ڈیڑھ ماہ سے جاری دھرنوں کے شرکاء مسلسل میاں نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خا ن نے ”گو نواز گو” کو ایک تحریک بنا دیاہے میاں نواز شریف جہاں بھی جاتے ہیں ”گو نواز گو” کا نعرہ اس طرح وزیر ِ اعطم کا پیچھا کررہا ہے جیسے بدنصیبی پیچھا کرتی ہے شنیدہے کہ دھرنوں نے عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ جمہوریت کیلئے کوئی قربانیاں دینا ہم سے سیکھے ۔۔۔ مستقبل میں وزارت ِ عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو زردری نے ایک جلسہ سے اپنے پرجوش خطاب میں کہا۔۔کاغذی شیر عوام کیلئے کچھ نہیں کرسکتا یہ شیر نہیں گیڈر ہے ۔۔۔ہمارے قومی رہنما ایسی باتیں کرکے در حقیقت اپنے کارکنوںکا لہو گرماتے رہتے ہیں کہ سیاست میں زندہ (IN) رہنے کا سب سے تیز بہدف نسخہ یہی ہے لیکن حقیقتاً یہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔۔۔والی کہاوت کے مصداق ہے اب چنددن پہلے تیسری بار وزیر ِاعظم منتخب ہونے والے میاں نوازشریف کی سابق صدر آصف علی زرداری سے ایک اور ملاقات ہوئی۔۔یعنی کھپے میاں صاحب۔۔ کھپے بے نظیر بھٹوکے میاں صاحب۔۔۔۔ سیاسی مبصرین موجودہ سیاسی صورت ِ حال کے تناظرمیں اس ملاقات کو اہم قرار دے رہے ہیں قومی امور،ملک کے داخلی و خارجی معاملات بالخصوص مشرف غداری کیس کے حوالے سے دونوںرہنمائوں میں بات چیت درحقیقت میثاق ِ جمہوریت کا ہی تسلسل سمجھا جا سکتاہے جس کا مرکزی خیال ہرقیمت پر جمہوریت کا تحفظ کرنا تھا ماضی میں بھی میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے مابین ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں یہ دونوں شخصیات وعدے وعید بھی کرتے رہے۔
Asif Ali Zardari
کئی بار میاں صاحب نے آصف علی زرداری کو ان کے وعدے یاددلائے اور جواباً آصف علی زرداری ۔نے فرمایا۔۔”وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے”۔۔اس پر کافی لے دے بھی ہوئی اس دوران کئی مرتبہ حالات اتنے ابترہوئے کہ سیاسی نجومیوں اورکئی سیاسی یتیموںنے برملا کہنا شروع کردیا زرداری حکومت اب گئی۔۔اب گئی بلکہ کچھ اینکرپرسن روزانہ حکومت گراکر سوتے تھے ۔۔۔میاں نواز شریف چاہتے تو پیپلزپارٹی کی حکومت کو چلتا کرسکتے تھے لیکن انہوںنے ہر بار ایک ہی بات کہی مسلم لیگ ن کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت کریگی نہ زرداری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی ایسی کوئی بات ہوئی تو ہم جمہوریت کا ساتھ دیںگے اس جمہوریت کا مطلب ان دنوں زرداری حکومت کا تحفظ تھا۔ اس کا بدلہ اب آصف علی زرداری نے نواز شریف حکومت کو بچا کر چکتاکردیا ہے ماضی میں میثاق ِ جمہوریت اس لئے کیاگیا میاں نواز شریف کو خدشہ تھا اب غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوئیں تو پھر ان کی باری کبھی نہیں آسکے گی اور یہ بات جھوٹ نہیں تھی ۔ ہوشربا کرپشن،قیامت خیز مہنگائی، خوفناک حد تک لوڈ شیڈنگ،عدلیہ سے محاذ آرائی ، وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور دیگر مسائل کے باوجود آصف علی زرداری نے مفاہمتی سیاست کواس انداز سے پروان چڑھایا کہ پاکستان میں پہلی بار اپوزیشن مائنس ہوگئی اور تقریباًتمام اہم جماعتیں حکومت میں شامل ہوکر اس کی حلیف بن گئیں اس طرح لڑتے، جھگڑتے،بڑھکیں مارتے5سال پورے ہوگئے۔۔حالیہ عام انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی تو پہلے ہی دن آصف علی زرداری نے ٹھوک بجا کر کہامیاں نواز شریف!قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
اب تیرا ذکر کریں گے نہ تجھے یادکبھی ہاں مگر دل کے دھڑکنے پہ کسے قابو ہے
حالات بتاتے ہیں وزیر ِ اعظم میاں نوازشریف کی سابق صدر آصف علی زرداری سے تجدید ِ عہدکی خاطرہے ورنہ اپنے شیخ رشید تو بڑے عرصہ سے کہہ رہے ہیں میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جن کی سیاست اپنی اپنی مفادات ایک ہیں۔ عوام کا کہنا ہے ایک میثاق ِ جمہوریت عوام کے مفادات کیلئے کیا جائے۔ دیکھا جائے توسینٹ اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ایک طرح کا میثاق ِ جمہوریت ثابت ہوا ہے ایک دل جلے سیاستدان نے ردِ عمل کااظہارکرتے ہوئے کہاہے نوازشریف ،زرداری ملاقات نظریہ ٔ ضرورت کے تحت تھی دونوںکے مابین مک مکا ہوگیاہے اس دل جلے کو خبر اب ہوئی ہے حالانکہ یہ بات تو برسوں پرانی ہے کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ مشرف کے معاملہ پر سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف کوڈٹ جانے کا مشورہ دیاہے تاکہ آئندہ 5جولائی یا12اکتوبر کے واقعات دہرانے کی نوبت نہ آئے ۔۔۔ ویسے توجمہوریت کے استحکام کیلئے ہر سیاستدان کو اپنا کردار فعال انداز سے ادا کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ کرپشن، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات بھی ناگزیرہیں ہمیشہ کیلئے آمریت کی روک تھام، سد ِ باب اوراس کی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے ۔۔۔کسی غیرجمہوری اقدام کی حمایت نہ کرنے پر اتفاق ہی واحد حل ہے صرف اس ایک نکاتی ایجنڈے پر تمام جمہوری قوتیں متحدہو جائیں تو جمہوریت کو لاحق خطرات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہو جائیں گے۔ عام انتخابات کا تسلسل، غیر جانبدانہ انتخابات کا انعقاد ، ووٹ کی حرمت پریقین، نتائج تسلیم کرنے کا حوصلہ ہی ایک بہترسیاسی فکرکو جنم دے سکتاہے لیکن سب سے پہلے ازسرنو جمہوریت کی تشریح ضروری ہے ۔۔نیا عمرانی معاہدہ اس سے بھی ضروری ہے گذشتہ65سالوں کے دوران سیاستدانوںکے درمیان مک مکا کو جمہوریت سمجھ لیا گیاہے اس نام نہادجمہوریت نے عام پاکستانی کو کچھ نہیں دیا1977ء کے آئین نے عوام کو جو حقوق دئیے ہیں وہ دئیے بغیر آئین ،قانون اور جمہوریت کی بالا دستی کا خواب ہرگز پورا نہیں ہو سکتا ایک بات طے ہے جب تلک ملک میں آئین کی تعین کردہ جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی پاکستان کے داخلی ، خارجی ،قومی اور علاقائی مسائل حل ہو ہی نہیں سکتے لیکن حکمرانوں کا طرز ِ عمل،قومی خزانے سے بے رحمانہ سلوک،اللے تللے،اصراف اور بیرون ممالک میں بڑھتے ہوئے اثاتے دیکھ کر اور سیاستدانوںکا مک مکا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتاہے اگر عوام کو ان کے حال پر چھوڑکر صرف اپنے لئے مال بنانے کا نام جمہوریت ہے تو ایسی جمہوریت کو کیا کرے کوئی؟ ۔۔۔ اگر جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچتے توپھر اس نظام کا کیا فائدہ؟ اس وقت عوام میں جتنا اضطراب پایا جاتاہے لوگوںکا جتنا مزاج برہم ہے اگر حکمرانوںنے ڈیلیور نہ کیا تو پھر لاوا پھٹ پڑے گا اس سے پہلے کہ حالات قابو سے باہر ہوں عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملنا ناگزیرہے اس لئے بیشتر سیاستدانوںکی یہ سوچ ہو جائے تو بات بن سکتی ہے۔
یہ سچ ہے مجھے ان آنسوئوں سے ڈر نہیں لگتا مگر پھربھی شاید اس لئے رونے سے ڈرتاہوں کہ ان آنکھوں میں تم رہتے ہو ، تم رہتے ہو تمہارا ہونا میرا ہونا ہے اور میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں
اسلام آباد میں جو کچھ ان دنوں ہورہاہے۔۔۔یہ الیکشن کمپین کا حصہ ہے اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتاہے کہ وسط مدتی الیکشن سرپر ہیں اس لئے ایک اور میثاق ِ جمہوریت کی ضرورت ہے یہ عوام کے مفادات کیلئے لایا جائے تو شاید اس عاشقی میں عزت ِ سادات بچ سکتی ہے۔