مسلم لیگ (ن) کا منشور اور عوامی توقعات

Muslim League N

Muslim League N

پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے منشور کا اعلان کر کے دوسری جماعتوں پر سبقت لے گئی ہے کیونکہ ابھی دوسری جماعتوں کی طرف سے انتخابی منشور کا انتظار ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے آئندہ انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں معاشی انقلاب لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ منشور میں مضبوط معیشت مضبوط پاکستان ہم بدلیں گے پاکستان کا نعرہ دیا گیا ہے توانائی کے بحران لوڈ شیڈنگ کے دو سال میں خاتمے نوجوانوں کے لیے 10 لاکھ ملازمتیں، مزدور کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار ، فاٹا میں عدالتی نظام اور ہزارہ، بہاولپور، جنوبی پنجاب ، صوبے بنیں گے۔

دفاعی بجٹ پارلیمنٹ میں لائیں گے، فوجی سربراہوں کی تقرریاں میرٹ پر ہوں گی، ڈرون حملے بند کرائیں گے۔ اقتدار میں آنے کے 6 ماہ بعد بلدیاتی الیکشن ہوں گے، ہر صوبے میں دانش سکول، بین الاقوامی معیار کی ٹیکنالوجی یونیورسٹی قائم کریں گے۔ دہلیز پر انصاف فراہمی کے لئے جرگہ اور پنچائیت سسٹم متعارف کرائیں گے بلوچستان میں امن کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہو گی۔ دینی مدارس کا نصاب قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ آزاد احتساب کمیشن قائم ہو گا۔

اسی طرح تعلیمی اصلاحات یعنی تعلیمی ایمرجنسی لگا کرنا خواندگی ختم کریں گے کشمیر ایشو، کراچی کی صورتحال اور ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے جیسے اقدامات کو منشور کے ترجیحی نکات میں شمال کر کے گویا مسلم لیگ (ن) نے انتخابات سے پہلے ووٹرز کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے ملک و قوم کو درپیش مسائل کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ ان کو حل کرنے کے لیے معیشت میں بہتری پر توجہ دے گی۔ بلاشبہ کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام میں اس کی معیشت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

اگر معیشت زوال پذیر ہو جائے تو ہر شعبہ زندگی کی کارکردگی نیجے کی طرف چلی جاتی ہے۔ 1992ء میں سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کے زوال کی وجہ بھی اس کی معیشت کی تباہ حالی تھی اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اگر پاکستان کو ترقی اور اس کے عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہے تو اقتدار کی خواہش مند سیاسی قوتیں سب سے پہلے ملک کی معاشی حالت میں مثبت تبدیلیوں کے لیے حکمت عملی طے کریں ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو ملک کی اقتصادی خرابیوں کو حقیقی معنوں میں دور کر سکیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں تعلیمی اصلاحات کی بات ہے ۔ میری گزارش ہے۔

Supreme Court

Supreme Court

مسلم لیگ (ن) سے کہ پنجاب اور ملک کے دوسرے صوبوں میں جو گھوسٹ سکول ہزاروں کی تعداد میںہیں اور 18 مارچ کو سپریم کورٹ نے رپورٹ مانگی ہے بجائے نئے دانش سکول کھولنے کے ان سکولوں کے بارے میں بات کی جائے جہاں پر تعینات اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہ وصول کر رہے ہیں اور سکولوں پر قبضہ مافیا اور وڈیروں اور بااثر شخصیات نے قبضہ کیا ہوا ہے کچھ عرصہ قبل اسی طرح کے سکولوں میں سے ایک کو دیکھنے کا مجھے بھی موقع ملا جہاں کسی بااثر شخصیت نے اپنے جانور باندھے ہوئے تھے مجھے کچھ عرصہ قبل میاں شہباز شریف سے کچھ صحافی دوستوں کے ہمراہ ملاقات کا موقع ملا۔

وہاں بھی میرا یہی سوال تھا اس لیے کہ یہ ہماری قوم کے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے اس لیے اگر آئندہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت بنتی ہے تو ان سکولوں کا قبضہ بااثر شخصیات سے چھڑا کر یہ سکول نئے سرے سے بحال کئے جائیں تاکہ ہم تعلیمی میدان میں مزید آگے بڑھ سکیں اسی طرح صحت پر بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے ملک بھر میں سرکاری ہسپتالوں کے اندر جا کرخوف محسوس ہوتا ہے اس خوف کو کم کرنا ہو گا باقی ملک کا تو خدا ہی حافظ ہے آپ دارلحکومت اسلام آباد کے دو بڑے ہسپتالوں پولی کلینک اور پمز میں جا کر دیکھیں آپ حیران رہ جائیں گے وہاں انسانوں سے کیا سلوک ہوتا ہے۔

غریب بے چارہ جائے تو جائے کہاں میری مسلم لیگ (ن) سے گزارش ہے کہ آپ دو چیزوں کو آئندہ پانچ سالوں کے لئے اولین ترجیح دیں۔ تعلیم اور صحت ہر بچے کو میٹرک تک لازمی تعلیم دی جائے اور علاج مفت ہو تو اس سے عام آدمی کوفائدہ ہو گا۔ قارئین، مسلم لیگ (ن) کے منشور میں بہت سی چیزیں اچھی ہیں عام آدمی کو یقینی طور پر اس سے فائدہ ہو گا۔ آج کل ویسے بھی مسلم لیگ (ن) کا گراف باقی پارٹیوں سے آگے جا رہا ہے حال ہی میں پلڈاٹ اور گیلپ کے سروے کے مطابق مقبولیت میں (ن) لیگ سب سے آگے ہے۔

تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ شریف برادران نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور گزشتہ دو سال سے کافی محنت کر رہے ہیں نواز شریف نے جگہ جگہ جلسے کیے شہبار شریف نے جس طریقے سے اپنے پروجیکٹس مکمل کیے اس کی وجہ سے بہت سے لوگ پارٹیاں چھوڑ کر (ن) لیگ میں شامل ہوئے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے خود اور اپنی ٹیم کو احتساب کے لئے پیش کر دیا ہے اس سلسلے میںپنجاب حکومت اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے درمیان ماڈل ٹاؤن میں مفاہمتی یاداشت پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔

Metro Bus

Metro Bus

جس کے تحت یہ غیر جانبدار بین الاقوامی ادارہ، لیپ ٹاپ سکیم، اجالا پروگرام اور میٹرو بس کے منصوبوں میں شفافیت کا جائزہ لے کر موجودہ حکومت کی آئنی مدت ختم ہونے سے قبل اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ شہباز شریف پہلے ہی واضح کر چکے ہیںکہ ان منصوبوں میں اگر کوئی بے قاعدگی سامنے آئی تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی اس کے علاوہ پنجاب میں جو بھرتیاں ہوئی ہیں ان میں میرٹ کو خاص اہمیت دی گئی ہے بلکہ بعض دفعہ تو خود کئی ایم این اے ، ایم پی اے شکایت کرتے نظر آئے کہ شہباز شریف نے ان کی ایک نہیں مانی اور میرٹ کو ترجیح دی یہ چیزیں انتہائی خوش آئندہ ہیں۔

کاش وفاقی حکومت بھی میرٹ پر اسی طرح عمل کرتی توحالات بالکل مختلف ہوتے باقی ملک اپنی جگہ پر صرف وفاقی دارالحکومت کو ہی لے لیں جن کے سرکاری سکولوں میں جس طرح پندراں سال گھر بیٹھی ٹیچروں کو موجودہ حکومت نے آتے ہی ایک دم بحال کیا جن کی تعلیمی قابلیت بھی عام سی تھیں ان میں زیادہ تر میٹرک پاس تھیں اور آج کل جس طرح سرکاری سکولوں میں بغیر کسی میرٹ کے ٹیچروں کو بھرتی کیا جا رہا ہے یہ تمام چیزیں لمحہ فکریہ ہے۔ قارئین یہ خوشی کی بات ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کیے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ عوام کی زندگی ویسے ہی ہے حکمرانوں نے ملک کوبحرانوں سے نکالنے کے لئے کوئی بہتر حکمت عملی نہیں اپنائی۔

بلوچستان میں حالات انتہائی خراب ہیں اسی طرح کراچی اور خیبر پختونخوا میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی واضح حکمت عملی اپنائی جاتی مگر صدر مملکت آصف علی زرداری جوڑ توڑ کی سیاست میں مصروف ہیں اور اگلے انتخابات کی پلاننگ کررہے ہیں اس کے لیے انہوں نے آج کل لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں اپنے نئے تعمیر شدہ 200 کنال کے گھر میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور وہاں سے پنجاب کے مختلف شہروں کے دورے کررہے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں نئے نئے پتے ترتیب دیئے جارہے ہیں، سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی بھی اپنے عروج پر ہے، اسی طرح میاں نواز شریف بھی منجھے ہوئے سیاستدانوں کی طرح گزشتہ دو سال سے اہم فیصلے کررہے ہیں۔

صوبہ سندھ میں ان کی سیاسی پیش قدمی نہایت اہم ہے، سندھ میں مسلم لیگ ن ، فنگشنل لیگ اور نیشنل پیپلز پارٹی نے انتخابی اتحاد کیا ہے، یہ میاں نواز شریف کی اہم کامیابی ہے اگرچہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا گراف گرچکا ہے مگر سیاسی تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ جناب زرداری کی سیاست میں سیاسی اتحاد کے حصے بخرے کرنے کی صلاحت بھی موجود ہے نواز شریف بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ زرداری کا مقابلہ کرنے کے لیے دل گردہ چاہیے اور ہم یہ مقابلہ یعنی ائندہ انتخابات اپنی محنت سے جیتیں گے اب حکومت عوام کے ووٹوں سے آئے گا اور ووٹوں کے ذریعے ہی جائے گی۔

Vote Pakistan

Vote Pakistan

خدا کرے ایسا ہی ہو، ہر فرد گھر سے نکلے اور اپنے ضمیرکے مطابق ووٹ دے کیونکہ یہ قیمتی ووٹ ہی پاکستانی قوم کی قسمت بدل سکتا ہے، بہرحال مسلم لیگ ن کے منشور سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا، مزدور کی تنخواہ 15 ہزار اور شعبہ صحت میں میڈیکل انشورنس کارڈ متعارف کرانے کا فیصلہ خوش آئند ہے اسی طرح یکساں نظام تعلیم رائج کرنے سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا، سب سے اہم بات میاں نواز شریف نے یہ کہہ کر یقین دہانی کروائی ہے۔

ان کی جماعت منشور کو ایک رسمی انتخابی شق نہیں بلکہ مقدس دستاویز سمجھتی ہے اور اسے عوام سے کیا گیا عہد سمجھتی ہے ان کی طرف سے یہ وضاحت بھی قابل ذکر ہے کہ منشور کی دستاویز بڑی سنجیدگی اور محنت سے تیار کی گئی ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین نے اسے ایک سال تک غوروفکر اور بحث و تمحیص کے بعد پیش کیا اور انشاء اللہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنتی ہے تو ایک ایک شق پر عمل ہوگا اس سے یقینی طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ یہ منشور عوام کی توقعات کے عین مطابق ہے۔
تحریر : چوہدری اکرم