الیکشن کا موسم قریب آتا جا رہا ہے سیاسی شطرنج کی بساط بچھ چکی ہے ہر کھلاڑی اپنا دائو چلا رہا ہے اور بساط پہ کھڑے ہوئے عوام کبھی گھوڑے کو دیکھتے ہیں ،کبھی شاہ سوار کو،کبھی پیادے کو کبھی بادشاہ کوان کی قابلِ دید چالیں دیکھ کے کبھی اچھنبے میں مبتلا ہوتی ہے تو کبھی زلیخا کی طرح اپنی انگلیاں کاٹ ڈالتی ہے ۔آنکھیں حیران دل پریشان اور دماغ خفتان میں مبتلا ہو جاتا ہے ، عجب پینترے ہیں کرسی کے کہ جس نے سب سیاستدانوں کو تیرے عشقِ نچایا کر تھیا تھیا ، پہ مجبور کر دیا ہے۔ سنا ہے قادری صاحب کاڈرامہ سیریل انقلابی دھرنا جس کی پہلی قسط 23 اور 14 مارچ کولائیو دکھائی گئی اس کی اگلی قسط 15 فروری کو آرہی ہے لہذا جن لوگوں نے شمولیت اختیار کرنی ہو وہ اپنا بوریا بسترا باندھ لیں اور یاد کر لیں کہ انہوں نے کیا کیا نعرے لگانے ہیں۔ سب سے اہم بات اپنے ساتھ شاپرز۔ چھتریاںاور باٹا کے اچھے سول والے جوتے لے لیں۔
کیا خبر مرشد کی ہیبت وجلال سے بادل ڈر کے برس پڑیں اور خیال رہے کہ یہ مارچ ملک بھر میں ہو گا اور پتہ نہیں آپکو کتنا پیدل چلنا پڑے وہ بھی بلٹ پروف کنٹینر کے پیچھے پیاں پیاں ،کیونکہ اعلی حضرت کے مطابق آپ کی جوتا گھساِئی15 فروری کوگوجرانوالہ12 فروری کو فیصل آباد ،22 فروری کو ملتان ،24 فروری کو پشاور،یکم مارچ کو سکھراور10 مارچ کو راولپنڈی میں ہو گی۔ مرشد کا کہنا ہے کہ کوئی اور پارٹی دھرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی واقعی جناب آپکی زبان ِمبارک سے حق گوئی کی بو آتی ہے۔انہوں نے کہا ملک میں جمہوریت لانے کے لئے عوام کو گھروں سے نکلنا ہوگا،حق ہا اب گھروں میں رکھا ہی کیا ہے نہ بجلی نہ گیس نہ پانی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ان دھرنوں میں کیا علاماتِ کشف ظاہر ہوتی ہیں ،انہوں نے کہا اگر ہمارے مطالبات پر عمل نہ کیا گیا تو ہم عمل کروانا جانتے ہیں۔
قارئین عمل سے مراد کالا جادو تو نہیں ، حکومت ہوشیار باش ، بقول ان کے اس مارچ سے لوگ 1970 کی تحریک بھول جائیں گے مطلب عوام کو نسیان کا مرض لا حق ہو جائے گا چلیں یہ بھی اچھا ھے ،، یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا موت قبول ہے مگر پیچھے نہں ہٹوں گا ،بلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھ کر یہ دعوی کرنے کے وہ حق بجانب ہیں ۔یہ ایک نیا سیاسی پینترا ہے کہ بم پروف اور بلٹ پروف ہو کر سیاسی جنگیں لڑی جانے لگی ہیں ۔
Bilawal House
لاہور کی گردونواح میں بحریہ ٹاؤن میں نو تعمیر بلاول ہائوس بلکہ بم پروف بلاول ہائوس جو کئی ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے ایک پراپرٹی ٹائیکون ریاض ملک نے صدر صاحب کو گفٹ کیا۔تحفے میں بم چھپا تو سنا تھا اب بم پروف بھی سن لیا ،حیرت اس بات پہ ہوئی کہ؛ موت کا اک دن مقرر ہے نیند رات بھر کیوں نہیں آتی کرسی جاتی ہو تو نیند کس کافر کو آتی ہے ہائے کمبخت ہم نے پی ہی نہیں ۔چلو صدر صاحب تو بم پروف ہو گئے۔ملک ریاض صاحب کاش آپ کوئی ایسی بم پروف دیوارکا تحفہ کراچی، کوئٹہ،اور پشاور کو بھی گفٹ کر دیتے تا کہ ہر روز جو بے گناہ معصوم لوگوں کے جنازے اٹھتے ہیں ان میں کمی آجاتی ۔میرے ملک کا ہر گوشہ اور ہر انسان سلامت رہتا جو صبح اپنی مزدوری کے لئے نکلتا اسے یقین ہوتا کہ وہ شام کو اپنے بچوں کے درمیان زندہ سلامت لوٹے گا ۔خدا نے آپ کو دولت دی تو اسے ان لوگوں میں تقسیم کریں جو مستحق ہیں انسانوں کی خوشنو دی کے بجائے رب کی خوشنودی کو مد نظر رکھیں ۔ میری عقلِ ناقص اس بات کا احاطہ نہیں کر پاتی کہ ہم اپنے عیش و آرام میں کمی نہیں آنے دیتے تو غریب عوام کو کیوں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر دھرنوں ،لانگ مارچ اور ہڑتالوں کی سولی پر چڑھاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان کے گھر کے چولھے ٹھنڈے پڑ جائیں گے کیوں ایسے تحفے عنایت کرتے ہیں۔
کیا قول و فعل کا تضاد ہی حکمرانوں کا طرہ امتیاز ہے ؟میں جمہوریت کے خلاف نہیں ہوں لیکن جمہوریت کا خمیر ہماری اپنی مٹی سے اٹھے تو بہتر ہے ۔جس نے فاقے کشی اور غربت کا مزہ نہ چکھا ہووہ کیا جانے غریب کیڑے مکوڑے ہیں یا اشرف المخلوقات۔ یہ ہماری اپنی کم عقلی اور نا اہلی ہے کہ امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔ایک بار پھر نظریہ اشتراکیت کی ضرورت ہے ،فرق ہے تو بس یہ کہایک طرف پروف ہی پروف اور دوسری طرف زندگی بھی پروف نہیں۔
شریف برادران کے پنجاب میں جمے ٹہکے کو اکہے بہکے کرنے کے لئے صدر صاحب نے مستقل لاہور میں ڈیرے جمانے کا قصد کیا اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے محل بم پروف میں بیٹھ کے کیا تبدیلی لاتے ہیں ۔مجھے تو کسی ایسے سائنسدان کی تلاش ہے جو غریب عوام کے لئے غربت پروف،جہالت پروف،کرپشن پروف ،دہشت گردی پروف ، ایک حصاری جیکٹ تیار کر سکے تاکہ کچھ تو درد دل کا درماں ہو۔گرچہ ، دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔