چوہدری اسلم کے بعد؟

Chaudhry Aslam

Chaudhry Aslam

ایس ایس پی چوہدری اسلم خان اور انکی ٹیم کے اراکین کی جرأت اور دلاوری کے باعث کراچی میں انتہا پسندی اور شرپسندی کے سیلاب کے آگے جو ایک مضبوط بند قائم تھا، اب اس میں دراڑ پڑ چکی ہے اور یہ بات کراچی کے باسیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ کراچی پولیس میں چوہدری اسلم جیسے بے لوث اور فرض شناس سینئر افسران کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ایک اور جونیئر افسر شفیق تنولی کا نام بھی ابھر رہا ہے جن پر گذشتہ دنوں سبزی منڈی کے قریب قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا، مگر پولیس کے باخبر حلقوں کے مطابق ان پر حملہ دراصل چوہدری اسلم کے دھوکے میں کیا گیا تھا اور شفیق تنولی کا انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔ بہرحال حملے میں زخمی ہونے کے باوجود ان کے دلیرانہ بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انتہا پسندوں سے قطعاً خوفزدہ نہیں۔ پولیس کے سینئر افسران میں ایس ایس پی منیر احمد شیخ، ایس ایس پی پیر محمد شاہ اور ایس ایس پی نیاز کھوسو وغیرہ بھی ملک دشمن عناصر کے خلاف منظم کارروائیوں کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔

چوہدری اسلم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے انکاؤنٹر اسپیشلسٹوں میں سب سے نمایاں تھے۔ممبئی کے انسپکٹر پرافل بھونسلے (90) اور انسپکٹر پردیپ شرما (113) کے مقابلے میں چوہدری اسلم کے ہاتھوں مارے جانے والے ملزمان کی تعداد دو سو (200) کے قریب جا پہنچی تھی جودنیا بھر میں ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ ان دو سو ہلاکتوں میں پچاس (50) کے قریب مبیّنہ کالعدم تنظیموں کے انتہاپسند بھی شامل تھے جو گذشتہ تین سال کے دوران ان کی ٹیم کے ہاتھوں مارے گئے۔ چوہدری اسلم پر، سال 2005 میں معشوق بروہی جعلی پولیس مقابلے کا مقدمہ بھی قائم ہوا ٔ اور وہ ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں بھی رہے۔ بعض سیاسی حلقے ان پر پی پی پی کی حکومتی سرپرستی میں ٹارگٹ کلنگ کا گینگ چلانے کا الزام بھی لگاتے رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سابق صدر آصف زرداری کے حکم پر بدنام زمانہ گینگ وار کے ایک سرغنہ، رحمان ڈکیت کو ٹھکانے لگایا تھا کیونکہ وہ زرداری صاحب کا مرغِ دست آموز ہونے کے باوجود کافی خود سر ہو چکا تھا اور زرداری صاحب کے لئے بدنامی کا باعث بن رہا تھا۔ بہرحال ان الزامات کو کبھی کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا گیا، اور سندھ میں پی پی پی کی حکومت کے تسلسل کے باعث فی الحال یہ ممکن بھی نہیں ہے۔

چوہدری اسلم پر اور بھی کئی جعلی پولیس مقابلوں کے الزامات لگے مگر بوجوہ ان کا بال بھی بیکا نہ ہوسکا۔ ان کی ٹیم میں شامل دیگر پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کھل کر کہا کہ ایسے انکاؤنٹرز مخصوص علاقوں میں جرائم کے فروغ کے معروضی حالات کے تحت ضروری ہو جاتے ہیں کیونکہ خطرناک ملزمان کے خلاف عدالتوں میں شہادت دینے کے لیے کوئی شریف شہری آگے نہیں آتا جس کے نتیجے میں جرائم پیشہ افراد ضمانتوں پر رہا یا بری ہو جاتے ہیں اور دوبارہ عوام کی جان و مال سے کھیلنے کا مذموم عمل شروع کردیتے ہیں اور پولیس افسران کی جانوں کے بھی دشمن ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا قصّہ ہی پاک کر دینا معاشرے کے حق میں بہتر ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ اس نقطۂ نظر کو کسی مہذّب معاشرے میں قبول تو نہیں کیا جاسکتا مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا موجودہ تناظر میں کیا ہمارے نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرے کو مہذّب معاشرے کا درجہ حاصل ہے؟ دوسری بات یہ کہ اس طریقے کو ناصرف ممبئی بلکہ میکسیکو اور نیو یارک میں بھی استعمال کیا جاچکا ہے۔ غور کیجیے کہ کیا رحمان ڈکیت کے خلاف کوئی عام شہری گواہی دینے کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے عدالت آنے کی جرأت کرسکتا تھا؟

Terrorists

Terrorists

آج کے حالات میں عام شہری تو کجا، کیا کوئی پولیس افسر بھی کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں کے خلاف شہادت دینے کی ہمّت کر سکتا ہے؟ چوہدری اسلم کے گرفتار کردہ بیشتر ملزموں کے خلاف مقدمات بشمول جسٹس مقبول باقر حملہ کیس کی پیروی کرنے کی ذمہ داری سینئر انسپکٹر چوہدری شاہنواز کی سپرد ہے جو کسی گارڈ کے بغیر ایک پرانی موٹر سائیکل پر گھر سے دفتر اور عدالت آتے جاتے ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ چوہدری اسلم کی ٹیم کے دیگر اراکین کے لئے بھی کسی سیکورٹی کا کوئی بندوبست نہیں۔انسدادِ انتہا پسندی سیل کی اس ٹیم میں سندھ پولیس کے دلیر ترین افسران اور ملازمین کا انتخاب کیا گیا تھا جن میں ڈی ایس پی علی رضا، انسپکٹر عادل، انسپکٹر شعیب، انسپکٹر وقار، انسپکٹر گوگا، انسپکٹر چوہدری شاہنواز، سب انسپکٹر خالد، اے ایس آئی خاور نور وغیرہ شامل ہیں۔ یہ لوگ بڑی بے جگری سے دہشتگردی کے مہیب عفریت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور اب اپنے باس کی شہادت کے بعد بھی انکے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

کراچی کے شہریوں کے لیے آج یہ سوال بڑا اہم ہے کہ سی آئی ڈی کے انٹی ایکسٹریمزم سیل کا آئندہ سربراہ کون ہوگا؟ باخبر حلقوں کے مطابق ایس ایس پی حیدرآباد عرفان بہادر کو یہ ذمہ داری سونپی جارہی ہے۔ ایک اور نام جواں سال اور ایمانداری کی شہرت رکھنے والے ایس ایس پی کراچی ایسٹ پیر محمد شاہ کا بھی لیا جا رہا ہے ۔عرفان بہادر کے ذاتی مراسم پی پی پی کے اعلیٰ حلقوں تک ہیں اور تھوڑے ہی عرصہ قبل تک انٹی انکروچمنٹ سیل کے انچارج کی حیثیت میں وہ آصف زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر ٹپّی کے بھی بہت قریب رہ چکے ہیں۔ اپنے شہید والد اور انکے نام کی طرح ان میں بہادری کے جوہر بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔چوہدری اسلم کے کسی ماتحت افسر کو بھی میرٹ پر ترقی دے کر اس عہدے پر فائز کیا جاسکتا ہے۔

Extremists

Extremists

اس خالی عہدے کے لیے کسی بے حدفرض شناس، شجاع اور سربکف افسرکا انتخاب ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لہٰذا اس معاملے کو کسی کی پسند اور ناپسند کا ذاتی مسلہ نہیں بننا چاہیے کیونکہ یہ پوسٹ کراچی کے شہریوں کو انتہاپسند قوتوں کی دہشتگردی سے بچانے کے حوالے سے بہت اہم اور حسّاس ہے۔ سربراہ کے انتخاب کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اس سیل کو خصوصی اہمیت دے، اس سیل کی نفری، ہزاروں انتہاپسند وں اور کالعدم تنظیموں کی دہشتگردوں کے مقابلے میں محض چند نفوس پر مشتمل ہے لہٰذا اس میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس سیل کو جدید ترین اسلحہ، تیز رفتار جدید گاڑیاں اور دیگر تفتیشی سائنسی آلات سے لیس کیا جانا چاہیے اور اہم افسران کی حفاظت کا بھی خاطر خواہ بندوبست ہونا چاہیے۔

تحریر: محسن وحدانی
vehdani@journalist.com