شہر اقبال کے مرکزی دروازہ پر چوہدری غلام عباس کی شکست آج بھی ایک سوال بن کر چسپاں ہے این اے 74 پسرور کے چہرے پر کہیں بھی شکست کے آثار نہ تھے مگر ایک حیران کن سناٹا ،ہر گلی ،ہر کوچہ و بازار میں نظر آرہا ہے ہر آنکھ میں ایک قہر اُترا ہوا ہے جو شہر کے چہرے پر شکست لکھنے والے میر جعفروں اور میر صادقوں کے کردار پر کالک بن کر برس رہا تھا سیاست میں چوہدری غلام عباس کا کردار عظمت کی انتہائوں پر کھڑا ہے 2002کے الیکشن میں اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مشرف کے اقتدار کو ٹھوکر مار کر عوامی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا پارٹی چھوڑنے کی صورت میں وزارت کی پیش کش بھی اس کے ضمیر کا سودا نہ کر سکی بالآخر اس بے لچک جمہوری انسان کو ڈھاندلی کے ذریعے ہرا کر توڑا گیا 2018 میں بھی چوہدری غلام عباس جیسے محب وطن اور دھرتی کے بیٹے سے خائف بیوروکریسی اپنے کالے دھندے دے باز نہ آئی 200میں سے 100 پولینگ اسٹیشنز پر لے پالک ریٹرننگ آفیسر نے نتائج بدل ڈالے پھٹے ہوئے تھیلے اور کٹے ہوئے لفافے ہر آنکھ نے دیکھے شعور کی جھولی میں دانستہ شکست ڈال کر عوامی پذیرائی کا دعویٰ محض سراب ہوا کرتا ہے چوہدری غلام عباس کے ساتھ یہی ہاتھ شریفوں کے لے پالک ایک آراو نے کیا حالیہ عام انتخابات کا پس منظر اس حوالے سے بڑا بھیانک ہے کہ چوروں نے چور چور کا راگ الاپ کر اپنے سیاہ کرتوت پراپنے تئیں مٹی ڈالنے کی کوشش کی آر ٹی ایس سسٹم کو عین وقت پر جام کرنے کا کارنامہ بھی شریفوں کی سرپرستی کا نتیجہ تھا۔
حالات کی سکرین پر ابھرنے والی ”دھاندلی ” کی فلم میں جن اداکاروں نے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت سکرپٹ لکھا اس میں پس پردہ ہدایت کار کوئی اور نہیں شریف اور زرداری کا چیف الیکشن کمشنر ہے عمران خان کے حلقوں کے نتائج روکنے میں اس نے باقاعدہ فریق کا کردار ادا کیا بالآخر فیصلہ دو تین سے ہوا تین ممبران جنہوں نے عمران کے نتائج جاری کرنے کا فیصلہ صادر کیا ان میں مد مقابل نتائج روکنے پر بضد دوافراد میں ایک رضا خان تھے دھاندلی کے ہاتھ نے ن لیگ اور پی پی کے نہیں عمران خان کے نتائج بدلے لیکن ن لیگ نے شور محض اپنے کرتوت کو چھپانے کیلئے کیا۔
چوہدری غلام عباس کے حلقہ این اے 74میں عوامی مینڈیٹ پر جو ڈاکہ پڑااس سے عوامی کنفیوژن کا سدِ باب اب ممکن نہیں مینڈیٹ کی چوری کے نام پر عوام کا کردار مسخ ہوا جب حقِ خود ارادیت قتل ہو تو اجتماعی شعور میں تبدیلی کا جنم ہوتا ہے تخت پسرور پر قبضہ کیلئے حلقہ این اے 74کے عوام کے حقِ خود ارادیت کوبھی نہیں بخشا گیا جہاں رات بارہ بجے تک چوہدری غلام عباس کی مسلسل جیت یقینی نظر آرہی تھی پھر اچانک ایک ایک ایسے گمنام ن لیگی اُمیدوار دکو فاتح اعظم قرار دے دیا گیا جس کا باپ ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کا سب سے بڑا مہرہ تھا علی زاہد اورچوہدری غلام عباس کے ووٹوں کی مہریں ہی الگ تھیں علی زاہد کے نشان پر لگنے والی جعلی مہر ایک ڈبے کے نشان سے متشابہہ تھی جبکہ چوہدری غلام عباس کے نشان پر لگنے والی مہر حقیقی تھی کیا حلقہ این اے 72 نارووال میں ہونے والی دھاندلی پر آنکھیں بند کر لینی چاہئیں ؟
خود مسلم لیگ ن کے ورکرز معترف ہیں کہ ابرارالحق کے ساتھ عوام کھڑی تھی کیا وطن عزیز کے 53فیصد حصہ پر پانچ برس تک بلا شرکت غیرے مسلم لیگ ن کی حکمرانی کا عفریت نہیں ناچتا رہا ؟نگران وزیر اعظم سے لیکر وزیر اعلیٰ پنجاب ،الیکشن کمیشن ،آر اوز اور شہباز شریف کی لے پالک بیورو کریسی جس کے دانتوں میں کرپشن کا گوشت ابھی تک پھنسا ہوا ہے 36سالوں سے جس بیوروکریسی کو شریفوں نے دودھ پلا کر جوان کیا دودھ کے وہ دانت بدستور عوام کے بنیادی حقوق کو چبانے میں مصروف ہیں مجھے کپتان سے یہ کہنا ہے کہ دھاندلی کا شور مچانے والوں کے جھوٹ کا ادراک کرنا حکومت وقت کا فرض ہے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ن لیگ کے حصے میں اتنی نشستیں کیسے آئیں کہ عمران کو واضح برتری کے بوجود وزیر اعظم کے ایک ایک ووٹ کیلئیدستک دینا پڑی۔
کیا چوہدری غلام عباس کے حلقہ میں ہونے والی بد ترین دھاندلی کا ابہام جنون کو اُس جانب لیکر نہیں جارہا جہاں عوام کی اکثریت اپنے اقرار کا فیصلہ گلیوں میں کرتے ہیں ملکی سطح پر سیاست کی جو رفتار اُبھر کر سامنے آئی اُس نے بہت سے نئے اندیشے پیدا کر دیئے ہیں انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی زندگی میں جس خوشگوار سکون اور ہمواریت کی اُمید تھی وہ ابھی تک ناپید ہے آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی اورپنجاب میں ہونے والی ن لیگ کی خود ساختہ دھاندلی کے پس منظر میں اضطراب کی لہریں برابر اُٹھتی اور بڑھتی چلی جارہی ہیںسیالکوٹ ،گوجرانوالہ ،پسرور جیسے شہروں میں دھاندلی کیخلاف ہونے والے سیاسی تصادم کے نئے امکانات نمودار ہوا چاہتے ہیں نام نہاد اپوزیشن اتحاد نئے مخالفانہ سیاسی زاویئے بنانے میں منہمک مگر اُن کے نقطہ نظر میں تنگ دلانہ مایوسی اپنا رنگ دکھا رہی ہے کہ صدارتی الیکشن میں کسی ایک امیدوار پر ان کا اتفاق نہیں۔
کیا یہ صورت حال تحریک انصاف کے مینڈت پر ڈکیتی کے نتائج سے پیدا ہونے والی جمہوریت طلب اُمیدوں اور آرزئو ں کیلئے اندیشوں اور خطرات سے خالی ہے؟ حقیقی تبدیلی کے انتظار میں عوام اُمید و بیم کی کیفیت سے دوچار ہوئے اور اس دوران ماضی کا روائتی مفاد پرست طبقہ اپنے آر اوز کے ذریعے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہا تحریک انصاف کے مکمل نتائج کو دانستہ روکا گیا ذرائع ابلاغ پر مسلط کو رچشم عناصر بھی ن لیگ کی جعلسازی پر یوں شاداں و فرحاں جیسے آسمان سے کوئی وحی نازل ہو گئی ہو آر ٹی ایس کے ذریعے انتخابی نتائج کو سبو تاژ کرنے کی منظم سازش کا ردِ عمل ہر قومی اور صوبائی حلقہ میں موجود ہے خدمت کے دعویدارو ں کی کارکردگی بکائو میڈیا کی نگاہ ناز کا شکار رہی جس کا کچا چٹھا کھلنے کو ہے میاں برادران کے راتب پر پلنے والے قلمکار اُن کی ادائوں پر آج بھی جی جان سے قربان ہو رہے ہیں۔
پانچ سالہ فرینڈلی دور ِ قہر مانی نے ملت کی آنکھیں کھولیں عوامی اکثریت اور نسل نو عزم ِ جواں لیکر اُٹھی مگر 25جولائی غنڈہ گردی ،دھاندلی کا وہ ڈرامہ رچایا گیا کہ ناانصافی بھی سر پیٹ کر رہ گئی نتائج کوبد لنے کا وہ مکروہ ،شرمناک اور انسانیت و اخلاق سوز کھیل کھیلا گیا کہ الا مان اور یہ کارن اُس وقت ہوا جب قوم نے اپنے ووٹ اور رائے کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا وطن عزیز کے ایک سرے سے دو سرے سرے تک جس طرح ووٹ کی تقدیس پامال کی گئی ،بیلٹ بکس تبدیل کیئے گئے ،تھوک کے حساب سے ووٹوں کی پرچیاں بھری گئیں اُس نے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر کالک مل دی۔
این اے 74کی طرح کئی حلقوں کے انتخابی نتائج کو پی ٹی آئی کے ووٹروں نے ماننے سے انکار کر دیا اما م الہند مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا ”تاریخ کی کوئی زبان بند نہیں کر سکتا وہ جو سبق دیتی ہے وہ صرف ایک قسم کا ہوتا ہے دنیا میں بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں جنہیں انسان جانتا ہے اور ماننے کیلئے مجبور ہو تا ہے تاہم اُن کی صدائوں کو سننا پسند نہیں کرتا چاہتا ہے کہ لوگوں کی زبان سے اُن کو سنے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اِن سب حقیقتوں کی آوز سننے پر مجبور ہو جاتا ہے اور زبان سے اُٹھتی ہوئی صدائیں نہیں بلکہ واقعات کے ہجوم سے پیدا شدہ طاقتیں اُس کے کانوں کو کھول کر بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج کی طرح سب کچھ بتا دیتی ہے۔