کراچی (جیوڈیسک) سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں ایک گھنٹ 20 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ اپوزیشن لیڈر فیصل سبزواری نے ایم کیو ایم کے کارکنان کو ماورائے عدالت قتل پر احتجاج کیا اور کہا کہ کارکنان کی گمشدگی کے واقعات کی تحقیقات کرائیں۔ فریادیں چیخیں بن گئیں تو کس پر ذمہ داری ہو گی۔
ماورائے عدالت قتل پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ حکومت کی طرف سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ماورائے عدالت قتل کی ہدایت نہیں ہے۔
گناہ گار کو بھی ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ ایم کیو ایم سمیت کسی سے زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔ ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے سولجر بازار میں لاکرز ٹوٹنے پر نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سولجربازار میں لاکرز توڑ کر لوٹ مار حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اس واقعہ میں سیکورٹی ایجنسی کا اہلکار شامل ہے۔ ایم کیو ایم کے کامران اختر نے ایرانی تیل کی اسمگلنگ پر کہا کہ ایرنی ڈیزل کی اسمگلنگ سے ملک کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ وزیر پارلیمانی امور سکندر میندرو نے کہا کہ اسمگلنگ روکنا کوسٹ گارڈ اور کسٹم کا کام ہے۔ تحریک انصاف کے خرم شیر زماں نے باتھ آئی لینڈ میں کافی عرصے سے سیوریج لائن کی خرابی کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ اس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ لائن ڈال دی ہے جلد مسئلہ حل ہو جائے گا۔
پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی نے پروفیسر اجمل ،علی حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر کی طالبان قید سے رہائی کی قرارداد پیش کی اور کہا کہ چوہدری نثار نے طالبان قیدیوں کو چھوڑنے کی بات کی ہے۔ طالبان قیدی تو چھوڑے جا رہے ہیں، مگر طالبان کی قید میں جو لوگ ہیں ان کی رہائی پر حکومت خوش ہے۔
حکومت قیدی چھوڑنے کی بات کر رہی ہے ، طالبان نے قیدی چھوڑنے پر کوئی لچک نہیں دکھائی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا چودھری نثار حکومت کے وزیر داخلہ ہیں یا طالبان کے۔